میرا خیال ہے میں لڑی کو دوبارہ مضمون کی طرف لے آؤں۔ مضمون کے مصنف کو میرا سیدھا سادا سا نان ٹیکنیکل جواب
یاد رکھیے اصلاح تنقید سے شروع نہیں ہوتی حوصلہ افزائی سے ہوتی ہے۔ اگر آپ اس تنقیدی کالم کے بجائے پاکستان کے ایک دو نامور اور ایک دو کم معروف سائنسدانوں کے کارناموں اور سائنس میں ان کی خدمات اور دنیا کے اعترافات یہاں بیان کردیتے تو معاشرے پر اس کا بجا طور پر مثبت اثر ہوتا۔ اور لوگ اسے تعمیری اور مثبت انداز میں لیتے لیکن بجائے اس کے آپ حملہ آور ہونے کی اپروچ رکھی جس سے آپ کا اور تحریر کا تاثر بھی تنقیدی اور جارح کا رہا۔
آپ کا مضمون پڑھ کر Pseudoscience کے ساتھ ساتھ بے اختیار pseudojournalism کی اصطلاح ذہن میں آ گئی۔ شاید اس بات کا آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آغا وقار کا قضیہ ختم ہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کیا تھا اسے جعلی قرار دے کر۔ لیکن خیر جب مقصد تنقید برائے تنقید ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے صحافت تو پھر صحافت ہے زرد ہی سہی۔
سائنس کی اہمیت، افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کی تحریر سائنس کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنے سے زیادہ معاشرے کو رگڑنے کی ہے۔ اور جہاں تک بات ہے ٹی وی پروگرامز کی تو بھئی جو ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہیں نا وہ بھی آپ ہی کے قبیل کے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ آج کل کیا بکتا ہے۔ جیسے آپ بھی آجکل کا من پسند منجن ہی تو لے کر آئے ہیں۔ خوش رہیے اور شکنجوین یا منٹ مارگریٹا پیجیئے اس کے مثبت اثرات کی آج کل کی گرمی میں میں گارنٹی دیتا ہوں۔
میرا خیال ہے میں لڑی کو دوبارہ مضمون کی طرف لے آؤں۔ مضمون کے مصنف کو میرا سیدھا سادا سا نان ٹیکنیکل جواب
یاد رکھیے اصلاح تنقید سے شروع نہیں ہوتی حوصلہ افزائی سے ہوتی ہے۔ اگر آپ اس تنقیدی کالم کے بجائے پاکستان کے ایک دو نامور اور ایک دو کم معروف سائنسدانوں کے کارناموں اور سائنس میں ان کی خدمات اور دنیا کے اعترافات یہاں بیان کردیتے تو معاشرے پر اس کا بجا طور پر مثبت اثر ہوتا۔ اور لوگ اسے تعمیری اور مثبت انداز میں لیتے لیکن بجائے اس کے آپ حملہ آور ہونے کی اپروچ رکھی جس سے آپ کا اور تحریر کا تاثر بھی تنقیدی اور جارح کا رہا۔
آپ کا مضمون پڑھ کر Pseudoscience کے ساتھ ساتھ بے اختیار pseudojournalism کی اصطلاح ذہن میں آ گئی۔ شاید اس بات کا آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آغا وقار کا قضیہ ختم ہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کیا تھا اسے جعلی قرار دے کر۔ لیکن خیر جب مقصد تنقید برائے تنقید ہو تو کیا کیا جا سکتا ہے صحافت تو پھر صحافت ہے زرد ہی سہی۔
سائنس کی اہمیت، افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کی تحریر سائنس کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنے سے زیادہ معاشرے کو رگڑنے کی ہے۔ اور جہاں تک بات ہے ٹی وی پروگرامز کی تو بھئی جو ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہیں نا وہ بھی آپ ہی کے قبیل کے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ آج کل کیا بکتا ہے۔ جیسے آپ بھی آجکل کا من پسند منجن ہی تو لے کر آئے ہیں۔ خوش رہیے اور شکنجوین یا منٹ مارگریٹا پیجیئے اس کے مثبت اثرات کی آج کل کی گرمی میں میں گارنٹی دیتا ہوں۔
افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ آغا وقار جیسے لوگوں کو ہر کوئی جانتا ہے جبکہ پروفیسر اصغر قادر جیسے قیمتی لوگوں کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ مجھے حیرت نہیں ہو گی اگر کل کوئی ان کو بھی ٹی وی پر تڑی لگا کر کہے کہ آپ نے آخر پاکستان کے لیے کیا ہی کیا ہے۔
یار جس سطح کا اعداد کا ہیر پھیر آپ کرتے ہیں، اس کے سامنے کسی بڑے سے بڑے "سازشی لبرل" کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ یعنی کہ ریفرینس پوائنٹ ہی بدل دیا کہ جس عدد سے فرق دیکھنا ہے؟ میری باری فرق اصل ڈیٹا سے اور اپنی باری فرق کیلکولیڈ ڈیٹا سے اور وہ بھی اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ نہ جانے کہاں سے آپ نے 58 ملین کا جعلی عدد لیا ہے۔ اعلیٰ!
اصل آبادی = 207774520
گروتھ ریٹ سے کیلکولیٹڈ آبادی = 221769091
کیلکولیشن سے اصل کا فرق = 1.4 کروڑ
آپ کی کیلکولیشن = 24 کروڑ 18 لاکھ (چونکہ آپ نے اعداد کو راؤنڈ کیا ہے تو یہی عدد استعمال کرنے پر مجبور ہوں)
آپ کی کیلکولیشن سے اصل کا فرق= 3.4 سے 3.5 کروڑ، جس کو آپ نے کسی "پراسرار" وجہ کی بنا پر بڑھا کر 4 کروڑ لکھا ہے۔
وجہ؟ آپ نے غلط ڈیٹا (58 ملین) استعمال کیا جبکہ آپ کو درست ڈیٹا تک رسائی بھی حاصل تھی۔ مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا ماخذ نہیں ملا کہ جہاں کہہ سکوں آپ پرانا ڈیٹا استعمال کرنے کی وجہ سے غلطی کر گئے، کیونکہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ڈیٹا کے مطابق کسی بھی مردم شماری میں یہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ دانستہ جعل سازی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو براہ مہربانی اپنے ڈیٹا کے ماخذ واضح لکھا کریں اور اپنی کیلکولیشنز بھی تاکہ علم ہو سکے کہ کہاں غلطی دانستہ ہے اور کہاں نہیں۔
ویسے شائد آپ کی زندگی اسی طرح بھوگس ڈیٹا پر سینہ چوڑا کرکے فخر کرنے میں گزررہی ہے۔
لیکن سب سے پہلے تو ہم آپ کو یہاں کے سب سے بڑے فراڈ سپورٹر سے ملاتے ہیں۔ جس نے بالترتیب، ڈیڑھ کروڑ، 70 کروڑ اور ڈیڑھ ارب کا فراڈ کرکے اب تک ڈکار تک نہیں لی ہے۔ کیوں کہ کرپٹ دماغ کے بعد کرپٹ اعدادوشمار میں اتنا بڑا فراڈ ہضم کرنا کوئی اتنا بھی مشکل نہیں ہوتا۔
پہلے تو یہ دیکھیے کہ پرویز ہود نے جو ڈیٹا استعمال کیا، اس کو پرانا ریکارڈ کہنا خود جعل سازی ہے۔ کیوں کہ پرانے ریکارڈ کا مطلب ہے متروک یا تبدیل شدہ ڈیٹا۔
اب ذرا دیکھیے کہ آپ کی فائل 2019کی جدید ترین فائل ہے اور اس میں 2019 کے 7.8بلین کےساتھ 2013 کا ڈیٹا 7.2 ہی ہے۔ یعنی 2016 کی فائل میں بھی 2013ء کے ڈیٹا کے ساتھ 2016 کے 7.46 بلین کا ریکارڈ درج تھا۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ اسے دانستہ فراڈ کہیں گے یا کسی بچہ پارٹی کا ریسرچ؟
دوسری بات یہ کہ ایکسپونینشل گروتھ جیسے جناتی فنکشن کو پلس مائنس کے برابر سمجھنا خود ایک مضحکہ خیز اپروچ ہے۔ اگر آپ نے کبھی خطی گراف اور ایکسپونینشل گراف کا موازنہ کیا ہو تو اس 7.2 کی جعل سازی کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ پرویز ہودجیسے فراڈیے نے اپنی جعل سازی کو قابلِ وقعت بنانے کے لیے 2013 کا ڈیٹا استعمال کیا۔ کیوں کہ یہاں تو اسٹیٹسٹیکل ڈیٹا کو اپنی دکانداری چمکانے کے لیے استعمال کرنا تھا، تو یہ موقع کب جانے دیں پروفیسر صاحب جیسا ماہر جعل ساز۔
چوتھی بات یہ کہ آپ اور پرویز ہود کو گولڈ میڈل دینا چاہیے کہ کالم 2017 میں لکھا جارہاہے اور ڈیٹا میں 2013 کو ترجیح دی جارہی ہے۔ آپ دونوں سے بڑا فراڈ تو پروفیسر مافیا بھی شائد نہ کرسکے۔
سوچنے کی بات ہے کہ میں نے بتایا بھی تھا پرویز ہود کا ماخذ بتانے کے بعد میں بتادیتا ہوں۔ لیکن آپ کو ڈیڑھ ارب کے فراڈ کو چھپانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ اپنے ہی فائل میں قطار 141، کالم AB دیکھ لیں۔ یہ بات بھی نوٹ رہے کہ میں نے ڈیٹا یہاں سے نہیں لیا۔ پھر ڈنڈورا پیٹنا شروع کردیں کہ دیکھو آصف اثر نے 58 ملین کا وہ فگر استعمال کرلیا جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
اب ذرا موازنہ کریں کہ 7 ملین کا دو سالہ پرانا ڈیٹا لینے میں، اور4 سالہ پرانے ریکارڈ (7.2-7.46 کے) 29 کروڑ کے عالمی فراڈ میں کتنا فرق ہے۔۔۔! پرویز ہود کے اتنے بڑے فراڈ کے بعد مجھ پر اعتراض پرویز ہود کے منھ پر گھونسا ہی سمجھیے۔ لیکن مشورہ دوں گا کہ پیر صاحب کی بے ادبی نہیں کرنی، کیوں کہ دماغ شریف مزید کرپٹ ہوسکتا ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پرویز ہود کوئی 28k کا موڈیم استعمال کررہا تھا جو 7.46 جیسا ”بھاری بھرکم“ فگر ڈاؤنلوڈ کرنے کے بجائے 2013 کا پرانا 7.2 ڈاؤنلوڈ کرنا پڑا۔ یار کونسی صدی میں پڑھارہے ہیں پروفیسر صاحب۔ یا کہ وہی روایتی فراڈ؟
اپنا قد اونچا کرنے کے لیے اس بات کو مسلسل نظر کررہے ہیں کہ پرویز ہود کا مذکورہ کالم شماریاتی فریب کاریوں پر مبنی ہے۔ اور اس طرح کی فریب کاریوں میں ایک ایک لٖفظ کو دیکھا جاتاہے۔ لیکن آفرین ہے آپ پر کہ اپنے ماہرِ اعظم اور کائناتی جعلسازی کو ترقی پاس کرنے کے لیے آپ نے مرکزی الفاظ کے معانی کا ستیاناس کرکے نہیں بخشا۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ پرویزہود کا اتنی اہم پری پلاننگ، اور اتنے اہم فنکشن کے استعمال کے باوجود یہ دھوکا دہی کس زمرے میں آئےگی؟
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے جسے آپ دانستہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ 7.46 ارب تک پہنچنے میں بھی مزید ایک سال تک پورا نہیں لگنا۔ لیکن خیر، آپ یہ کئی بار ثابت کر چکے ہیں کہ ریاضی آپ کی زیادہ مضبوط نہیں ہے ورنہ اتنی لمبی کہانی لکھنے سے پہلے یہ ہی سوچ لیتے کہ آخر پرویز ہودبھائی کو اس "بھیانک جعل سازی" کا فائدہ کتنے سال کے فرق کی صورت میں ہوا۔ دانستہ ہیر پھیر ہی اگر کرنی تھی تو صرف ایک سال سے کیا تیر مار لیا؟ 105 سال، بس؟ کیا احمق جعل ساز ہے! کم از کم آپ کے لیول کو تو پہنچتا اور چار پانچ بڑی بڑی جعل سازیاں اکٹھی کرتا۔
چلیں کرلیتے ہیں حساب۔ اگر آپ حساب کرنے سے ڈرتے ہیں تو میں ہی کردیتا ہوں۔
ابتدائی ڈیٹا 33.7 اور مارچ، اپریل 2017 ء تک کا اصل ڈیٹا لیتے ہوئے(نہ کہ پرویز ہود کا فراڈ ڈیٹا، تو) گروتھ ریٹ بنتا ہے :
0.02715314459۔
اس حساب سے 2017 کے 25 سال بعد آبادی ہوئی 398.7896۔ مزید 100 سال بعد آبادی ہوئی 6025.4546084 ملین۔۔
اب 7.46 ارب تک پہنچنے کے لیے اسے 8 سال لگیں گے۔
اب ڈیڑھ ارب کی آبادی 8 سال میں کیا کچھ کرسکتی ہے۔ حساب لگانے کے بعد ذرا اس جعلسازی کا اندازہ لگائیے۔
ایک شخص دن میں اوسطا 2.5 کلو گرام خوراک کھاتا ہے۔
ڈیڑھ ارب کو 2.5 سے ضرب دینے پرجواب آتا ہے: 3 ارب 75 کروڑ کلوگرام فی دِن۔ یہ تو ہوگیا ایک دن کا حساب۔
اب 3ارب 75 کروڑ کلوگرام فی دِن کو 30 دن سے ضرب دیں تو جواب آتاہے: 1 کھرب 12 ارب اور 50 کروڑ کلوگرام فی مہینہ۔
اور 8 سال میں یہ ہوئے، اللہ بھلا کریں:108 کھرب کلوگرام خوراک کا۔۔۔ جعلی ڈیٹا۔
یہ تو تھا رزق کا معاملہ جس کا بوجھ بلا وجہ پرویز ہود نے اپنے سر پر سوار کیا ہے، وہ بھی 125 سال پہلے۔۔۔مع جعلسازی!
اب اس کا معاشی نقطۂ نظر سے جائزہ لیتے ہیں ، آج کے فراڈیے تو پرویز ہود کے فراڈ کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں گے۔ ۔۔!
ایک وقت کا کھانا آج کل کے حساب سے بہت کم کرکے 50 روپے کرتے ہیں۔ دو وقت کے ہوئے 100 روپے فی دِن ( ناشتے کا حساب پرویز ہود کے فراڈکو کم سے کم کرنے کے لیے نکال لیتے ہیں)۔
فی کس 100 روپے فی دن تو مہینے کے 3000، سال کے 36000 اور آٹھ سال کے 288000۔
اب 288000 فی کس کو ڈیڑھ ارب سے ضرب دیں تو یہ بنتے ہیں: 432000000000000 یعنی چار ہزار 320 کھرب روپے۔۔۔کا بوگس ڈیٹا۔۔۔!
تالیاں پاکستان کے مایہ ناز پروفیسر صاحب کے لیے جس کا ڈیٹا 4 ہزار 320 کھرب کے فراڈ پر بھی ہمارے ”جانو جرمن - فراڈ سپورٹر“ کو قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔
آپ نے جو 58 ملین کا ہندسہ استعمال کیا، وہ کسی بھی ریکارڈڈ ڈیٹا میں موجود نہیں ہے جیسا کہ آپ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ڈیٹا سے دیکھ سکتے ہیں۔
اب خود انصاف کر کے بتائیں کہ کس کو نادانستہ غلطی قرار دینے کی رعایت دی جا سکتی ہے جبکہ کس کے لیے دانستہ دھوکہ دہی ہی واحد وضاحت رہ جاتی ہے؟
یار یہ تو واقعی بہت مشکل انصاف ہوسکتا ہے۔ چلو دیکھتے ہیں۔
آپ نے پرویز ہود کے ڈیٹا کا جو ماخذ دیا ہے اس میں عالمی آبادی قطار# 18 میں ہے۔ سال بہ سال جاتے ہوئے ہم پہنچتے ہیں 2013 پر۔ جس کا کالم ہے BT۔ اب ایک انچ کے فاصلے پر کالم ہےBV۔ 2016 کا۔
اُفف۔یار واقعی یہ تو زمین اور مریخ کا فاصلہ ہے۔ پورے ایک انچ کی دوری پر۔۔۔!
ویسے اس BV کو بھی کوئی دیکھنا پسند کرےگا؟ عرفان سعید
تو واقعی یار۔۔۔ یہ پرویز ہود کی دانستہ دھوکہ دہی ہرگز نہیں ہوسکتی تھی۔ کہاں زمین اور کہاں پورے ایک انچ کی دوری پر مریخ کو دیکھنے کی تکلیف!
آفرین ہےیار۔آپ نے تو سول کورٹ کے کرپٹ ترین وکیل یاد دلادیے۔
جبکہ یہاں ایک نہایت سادہ وضاحت کی جا سکتی ہے کہ پرویز ہودبھائی نے دنیا کی آبادی کا پرانا ڈیٹا اٹھایا کیونکہ اقوام متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق 2013ء اور 2014ء کے دوران دنیا کی آبادی یہی تھی۔
یہاں پر فرق واضح ہے۔
پرویز ہودبھائی نے جو ڈیٹا استعمال کیا، اس کا وجود پرانے ریکارڈز میں ہے۔
اس سادہ سی وضاحت کو ذرا اس جملے اور جاری سال کے لفظ سے سمجھیے۔
Wait for another 100 years and that number will comfortably exceed the world’s current population of 7.2 billion.
یہ ہوا پہلا انقلاب انگلش لینگویج میں۔ جس میں کرنٹ کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت میرے پاس 1 کروڑ روپے ہیں تو اس سے مراد 3 چار سال پرانے 1 کروڑ روپے ہوں گے۔ جاری وقت کے نہیں۔ سمجھ تو گئے ہوں گے آپ۔۔۔!
دوسرا انقلاب آیا شماریاتی میدان میں۔ جس میں جب آپ مستقبل کی منصوبہ بندی کریں گے تو آپ کو موجودہ شماریاتی ڈیٹا لینے کی قطعا تکلیف نہیں کرنی، کیوں کہ آپ سالوں پرانے ڈیٹا کے ذریعے قوم کو زیادہ سے زیادہ خوف زدہ کرسکتے ہیں۔
تیسرا انقلاب آیاریسرچ فیلڈ میں۔ جس میں اب کوئی بھی ریسرچ ایک انچ کی دوری پر موجود ڈیٹا کے بجائے سالوں پرانا ڈیٹا بطورِ اِن پُٹ درج کرنا ہوگا اور پھر ۔۔۔پرویز ہود جیسے شیخ چلی کی طرح آخر میں ڈیڑھ ارب کا فراڈکٹورا زمین پر۔
انعام کے طور پر آج کے بعد آپ کو خصوصی خطاب دیا جاسکتا ہے۔ ایک بار پھرجانو جرمن فراڈ سپورٹر کو شاباش۔
اس کے بعد
81 ہزار مربع کلومیٹر۔۔۔ یعنی پورے متحدہ عرب امارات جتنی زمین کی چائنہ کٹنگ کا مقدمہ ہے۔
دیکھیں اگر آپ کو اتھارٹی سے چڑ ہے تو آسان سا علاج ہے۔ اگر اتھارٹی غلطی کر رہا ہے تو اس کی درستگی کرکے سامنے لائیں۔ ابھی تک جو فاش غلطیاں، دانستہ دھوکہ دہی اور طنز و تشنیع کی بھرمار آپ کر چکے ہیں، اس سے تو کام نہیں بنے گا۔
میرا خیال ہے میں لڑی کو دوبارہ مضمون کی طرف لے آؤں۔ مضمون کے مصنف کو میرا سیدھا سادا سا نان ٹیکنیکل جواب
یاد رکھیے اصلاح تنقید سے شروع نہیں ہوتی حوصلہ افزائی سے ہوتی ہے۔ اگر آپ اس تنقیدی کالم کے بجائے پاکستان کے ایک دو نامور اور ایک دو کم معروف سائنسدانوں کے کارناموں اور سائنس میں ان کی خدمات اور دنیا کے اعترافات یہاں بیان کردیتے تو معاشرے پر اس کا بجا طور پر مثبت اثر ہوتا۔ اور لوگ اسے تعمیری اور مثبت انداز میں لیتے لیکن بجائے اس کے آپ حملہ آور ہونے کی اپروچ رکھی جس سے آپ کا اور تحریر کا تاثر بھی تنقیدی اور جارح کا رہا۔
یوں تو اردو کی تمام لغات میں بندر ایک ہی جانور کا نام بتایا جاتا ہے، لیکن آپ کی آسانی کے لیے با تصویر بتا دیتا ہوں کہ شاید آپ کے گھر میں کوئی لغت نہ پڑی ہوئی ہو۔
نیز "ٹیکنیکلی" سے مراد واضح کرنے کے لیے بھی آپ کو تھوڑی لغت سے مدد لینی پڑے گی چونکہ میری عادت نہیں ہے الفاظ کے اپنی مرضی کے معانی متعین کرنے کی۔ چونکہ یہ امکان بھی موجود ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی انگریزی لغت بھی نہیں ہو گی، تو کاپی کر دیتا ہوں۔
آصف اثر کراچی میں شدید اور طویل گرمی کے بعد یک دم بارش۔ اَللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا۔ یا اللہ! موسلا دھار اور نافع بارش عطا فرما گذشتہ روز بوقت 8:22 شام
•••
آصف اثر کراچی میں شدید اور طویل گرمی کے بعد یک دم بارش۔ اَللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا۔ یا اللہ! موسلا دھار اور نافع بارش عطا فرما گذشتہ روز بوقت 8:22 شام
•••
آصف اثر کراچی میں شدید اور طویل گرمی کے بعد یک دم بارش۔ اَللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا۔ یا اللہ! موسلا دھار اور نافع بارش عطا فرما گذشتہ روز بوقت 8:22 شام
•••
سوچنے کی بات ہے کہ میں نے بتایا بھی تھا پرویز ہود کا ماخذ بتانے کے بعد میں بتادیتا ہوں۔ لیکن آپ کو ڈیڑھ ارب کے فراڈ کو چھپانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ اپنے ہی فائل میں قطار 141، کالم AB دیکھ لیں۔ یہ بات بھی نوٹ رہے کہ میں نے ڈیٹا یہاں سے نہیں لیا۔ پھر ڈنڈورا پیٹنا شروع کردیں کہ دیکھو آصف اثر نے 58 ملین کا وہ فگر استعمال کرلیا جس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
حضرت۔ ذرا دھیرج سے کام لیجیے۔ یوں خود کو سر بازار رسوا نہ کیجیے۔ اتنا ہلا گلا مچانے سے پہلے کالم AB کے اوپر سال ہی دیکھ لیجیے۔ کالم AB کا سال 1970ء ہے، جو آپ کے دعوے سے بالکل مختلف سال ہے۔
اب ذرا اس فائل میں 1970ء اور 1972ء کے درمیان کا فرق دیکھیے۔ پھر خود سے یہ سوال بھی پوچھیے کہ آیا 1970ء میں کوئی مردم شماری ہوئی تھی؟ اس کا جواب آپ کو سطر کے شروع میں لکھے لفظ Estimates میں مل جائے گا۔ ایک بار پھر آپ دھوکہ دہی سے کام لیتے پکڑے گئے ہیں صاحب۔ کچھ تو خیال کیجیے۔
ایسے میں آپ کی سب سے مضبوط دلیل اس وقت کیا ہے؟
کہ پرویز ہودبھائی نے کالم میں 7.2 ارب کا ہندسہ استعمال کیا جو کہ 2017ء کا نہیں بلکہ 2013ء اور 2014ء کا ہندسہ ہے۔ یعنی وہ اگر محض تین سال پرانا ہندسہ غلطی سے بھی استعمال کر جائے تو وہ دانستہ دھوکہ دہی ہے اور آپ نے جو اوپر حرکت کی ہے، وہ بالکل حق بات ہے۔ کچھ تو گزارا کرو یار۔
چلیں کرلیتے ہیں حساب۔ اگر آپ حساب کرنے سے ڈرتے ہیں تو میں ہی کردیتا ہوں۔
ابتدائی ڈیٹا 33.7 اور مارچ، اپریل 2017 ء تک کا اصل ڈیٹا لیتے ہوئے(نہ کہ پرویز ہود کا فراڈ ڈیٹا، تو) گروتھ ریٹ بنتا ہے :
یہاں آپ بھول رہے ہیں کہ آپ جس کالم پر اعتراض کر رہے ہیں، وہ واضح طور پر یہ بات لکھتا ہے کہ تمام حسابات اب تک چلے آ رہے 25 سال کے ڈبلنگ ٹائم کے حساب سے ہیں۔ بلکہ معذرت۔ آپ کے اب تک کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کافی واضح ہو چکا ہے کہ آپ بھول نہیں رہے بلکہ دانستہ smoke and mirrors کا استعمال کرتے ہوئے اس بات سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
Now assume for a moment that the ultras have their way and the doubling time stays unchanged.
اس کے بعد یہ بھی لکھا ہے کہ
The good news is that this is not actually going to happen. Every demographer is shouting from the rooftop that birth rates are declining and doubling times are increasing.
ذرا یہ بتانا پسند کریں گے کہ جو چیز مضمون میں واضح لکھ دی گئی ہے، وہ چھپی کیسے رہ گئی کہ یہ ایک دانستہ دھوکہ بن گیا؟ دانستہ دھوکہ دینا ہوتا تو اوپر آپ والی مثال جیسا کوئی دھوکہ ہوتا کہ جس میں باتیں چھپانے پر زیادہ انحصار ہوتا۔
چونکہ آپ اس 7.2 کے ہندسے کے حوالے سے بہت شدت کے ساتھ اعتراضات کر رہے ہیں تو ذرا دیکھتے ہیں کہ کالم میں موجود تفصیلات کے مطابق اس وقت کے موجودہ ہندسے 7.46 ارب تک پہنچنے میں 125 سال سے اوپر کتنا عرصہ برآمد ہوتا۔
چلیں تھوڑا سا اور اسے ہودبھائی کے لیے مشکل بناتے ہیں اور پچیس سال کے ڈبلنگ ٹائم کے حساب سے نہیں بلکہ 1998ء تک کے حقیقی ڈیٹا کے حساب سے دیکھتے ہیں۔ بلکہ اور بھی مشکل بنا دیتے ہیں اور آبادی کا اصل ہندسہ 207774520 استعمال کرنے کے بجائے 20 کروڑ کا تخمینہ ہی استعمال کرتے ہیں۔
کوڈ:
r = (132352279/65309000)**(1/(98-72)) -1
r = 0.027539201600484065
t = log(7464022000) - log(200000000)) / (log((1+0.027539201600484065)) )
t = 133.23357122414302
t = 25 + 100 + 8.23 years
فرق ہے 8.23 سال۔اب ذرا دیکھتے ہیں کہ 100 کے ہندسے کے مقابلے میں 8.23 کے ہندسے کا وزن کتنا بنتا ہے۔
آسان طریقہ ہے۔ ہم تقسیم کر کے دیکھ سکتے ہیں۔
کوڈ:
8.23 / 100 = 0.0823
یعنی کہ 0.0823 حصے فرق، وہ بھی دو ایسی مشکلات اضافی شامل کرنے کے بعد کہ جو کالم کا حصہ نہیں تھیں۔ انتہائی چھوٹے درجے کا "فراڈیا" نہیں ہودبھائی؟ اس کو تو آپ سے اسباق لینے چاہئیں۔
چونکہ دو اضافی مشکلات شامل کر کے ہم دیکھ ہی چکے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس حساب سے بھی ایرر کو دیکھیں جو ہودبھائی اپنے کالم میں خود ہی واضح کر کے لکھ چکا ہے، یعنی۔
Now assume for a moment that the ultras have their way and the doubling time stays unchanged.
چونکہ بعد میں تو وہ خود ہی لکھ چکا ہے کہ ڈبلنگ ٹائم کم ہو رہا ہے تو محض آپ کے کہنے پر ایک ایسی چیز کو دھوکہ نہیں کہا جا سکتا جو چھپائی ہی نہ جا رہی ہو۔ یہ محض آپ کے بغض ہی کا نتیجہ ہے کہ سامنے لکھی بات کو بھی آپ بات چھپا کر دھوکہ دینے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
کوڈ:
By a doubling time of 25 years
r = (2/1)**(1/25) -1
r = 0.028113826656066543
Time to surpass 7.46 billion
t = (log(7464022000) - log(200000000)) / ( log((1+0.028113826656066543)) )
t = 130.54703333468333
t = 25 + 100 + 5.55 years
ایرر کا جائزہ لیتے ہیں
کوڈ:
5.55 / 100 = 0.055
فرق آیا 0.055 حصے۔ اب اتنے کم فرق کو راؤنڈ ڈاؤن کیا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ آپ خود ہی انصاف سے کام لیتے ہوئے بتا دیں۔ نیز یہ بھی بتا دیں کہ اتنے کم فرق کے ساتھ دانستہ کون سا خوف و ہراس پھیلایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ آپ انصاف سے کام لیں گے نہیں، جیسا کہ اس مراسلے کے شروع ہی میں آپ کی دھوکہ دینے کی ایک اور کوشش پکڑ کر ہم دیکھ چکے ہیں۔
اب آخر میں یہ بھی سوال پوچھ لیتے ہیں کہ آخر کار آپ کو اتنے ہیر پھیر اور گھمن گھیریوں سے کام لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
وجہ صاف ظاہر ہے کہ آپ کے پاس اس بات کا رد کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ پاکستان کی آبادی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو اس وقت آبادی کو سنبھال پانے کی ہماری صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈبلنگ ٹائم ہم کم کر کے 50 سال پر بھی لے آئیں تو ذرا تخمینہ لگائیے کہ ایک صدی بعد ہمیں کتنے لوگوں کے لیے بنیادی وسائل، بشمول روزی، سکولوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور با عزت روزگار کے مواقع کا بندوبست کرنا پڑے گا۔
کوڈ:
r = (2/1)**(1/50) -1
r = 0.013959479790029095
y = 207774520 * ( (1+0.013959479790029095)**(100) )
y = 831098079
یعنی کہ 83 کروڑ سے زیادہ۔ یہ تب کا ہندسہ ہے اگر ہم ڈبلنگ ٹائم کو دو گنا کر کے 50 سال پر لے آئیں۔ ذرا ہودبھائی کو تھوڑی دیر کے لیے چھٹی پر بھیج کر بتائیے گا کہ جب یہ آپ کا best case scenario ہو تو اس سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس منصوبہ کیا ہے؟
یہ کافی دلچسپ بات ہے کہ آج تک ہر جگہ، یہاں تک کہ نصابی کتابوں میں بھی یہ پڑھنے کو ملا ہے کہ پاکستان کا رقبہ 796096 مربع کلومیٹر ہے۔ نصاب کی کتابوں میں یہ عدد موجود ہونے کا مطلب یہ کہ قدرے حال تک پاکستان کی سرکاری دستاویزات اور دیگر انسائیکلوپیڈیا وغیرہ میں بھی یہ عدد استعمال ہوتا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے 85817 مربع کلومیٹر کھا جانے کا الزام تو کسی اور پر لگتا ہے۔ اس بے چارے کو کیا رگیدتے ہیں جس نے الٹا اپنی طرف سے چند مربع کلومیٹر بڑھا کر اسے 800000 لکھ دیا۔ اگر سکول پڑھا ہو تو اس بات کی تصدیق آپ خود بھی کر سکتے ہیں، لیکن چونکہ یہاں صرف بغض کا نکالنا مقصود ہے تو خود ساری عمر 796096 لکھ کر امتحان پاس کرتے رہنے کے باوجود اسے یہ رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں، وجہ یہ کہ وہ آپ سے مختلف خیالات رکھتا ہے۔ سلوٹ ہے! جب خود متعدد بار جعلی اعداد کا ہیر پھیر کرتے ہوئے پکڑے گئے ہوں (سب سے حالیہ مثال کے لیے دیکھیے گزشتہ مراسلہ) تو اچھے نظر نہیں آتے کہ کسی کو ایک مختلف لیکن عام طور پر معتبر ڈیٹا سورس سے کوئی عدد اٹھانے پر دانستہ دھوکہ دہی کا الزام دیں۔
اپڈیٹ: سی ایس ایس فورم کی اس پوسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ کم از کم 2009ء تک حکومت پاکستان کی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر پاکستان کا رقبہ 796095 مربع کلومیٹر لکھا ہوا تھا۔ موجودہ سائٹ پر میں ڈھونڈ نہیں پا رہا کہ رقبے کا کہیں ذکر موجود ہے یا نہیں۔
Pakistan Facts
Capital city: Islamabad
Total area: 796,095 sq.km
...
these figurs have been taken from the Pakistan official website...i think it must be corrected.......corrections need if any.... The Official Web Gateway to Pakistan