جان محمد سعد جاسم محمد
میرا مؤقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔ میں اُن تمام ”مصلحین“ کی نشاندہی سخت، نرم اور کھلے انداز میں کررہا ہوں جو مسلمانوں کی ”گمراہی“ پر دن رات پتلے ہوتے جارہے ہیں، اور اس کے لیے وہ عیاری اور منافقت کا ہر حد عبور کرتے ہیں۔ پرویز ہود انہیں میں سے ایک ہے، جس کا پورا زور اس بات پر ہے کہ مسلمان شریعت سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں، بلکہ انہیں شریعت کو ہر شعبے سے نکال کر صرف اور صرف دنیاوی ترقی کرنی چاہیے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ
اگر عیاری و منافقت کی یہی تعریف ہے تو پھر ہم مسلمان بھی انہی میں سے ہوئے کیونکہ ہم بھی صبح و شام ان پہ تنقید اور انہی کی "اصلاح" پہ جتے ہیں اور اپنی گریبان میں جھانکنے سے گریزاں ہیں۔ اسلام اور قران کو ڈھال کے طور پر بیچ میں لانا خود اسلام اور قران کی توہین کا مرتکب ہونا ہے کیونکہ مسلمان پہ تنقید ہرگز اسلام پہ تنقید نہیں ہے جیسے کسی عیسائی عقیدے کے حامل شخص پہ تنقید ہرگز عیسائیت پہ تنقید نہیں ہے۔
تو مسلمانوں اِن پر تنقید ان کی اس منافقانہ روِش کی وجہ سے کرتے ہیں نہ کہ عیسائی یا قادیانی ہونے کی وجہ سے۔ نہ کہ عیسائیت اور قادیانیت کی وجہ سے۔ قادیانیوں سے مسلمانوں کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ یا تو اسلام کے مسلمہ عقائد کو مانے، اپنے جھوٹے نبی کا انکار کرے اور یا خود کو غیرمسلم تسلیم کرے۔ یہ دوغلا پن نہیں چلے گا۔ عقائد اور نظریات میں منافقت نہیں چلتی۔
محمد سعد پر مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے
ان تمام ثبوتوں اور حوالہ جات کو یکسر نظر انداز کردیا جو میں نے پہلے پرویز ہود پر بحث کے ذیل میں انہیں کے مطالبے پر دیے تھے۔ جو کسی شخص کی فکری اور ذہنی پس منظر کو معلوم کرنے کے لیے متعلقہ کتب، کالم، انٹرویوز، مباحثے اور ٹاک شوز کے بجائے محض ملاقات کو شخصیت شناسی سمجھتا ہو، اس سے پھر یہی توقع رکھنی چاہیے۔ حالاں کہ ان حوالہ جات میں ایک ربط اس ملاقات کا بھی ہے جس میں وہ سوالات اُٹھائے گئے جو میں اُٹھا رہا ہوں۔ لیکن
محمد سعد نے غالباً اس ملاقات کا مطالعہ نہیں کیا۔ کیوں کہ معذرت کے ساتھ اندھی تقلید میں مرشدین پر سوال اُٹھانا بھی گناہ سمجھا جاتاہے۔