زیک

مسافر
اب خود مختاری نہیں رہی۔بال بچہ قید کیے ہوئے ہے۔بیگم کو قائل کررہا ہوں کہ "اسلام آباد" سے آگے جہاں اور بھی ہیں اب دیکھئے اگر مان جائیں تو یہ سلسلہ پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔
جو مزا بیگم اور بچوں کے ساتھ ہے وہ پہلے کہاں
 

زیک

مسافر
کچھ دن پہلے ہی بتورا گلیشئر وزٹ کا ایک وی لاگ دیکھ رہا تھا، اس میں کچھ سپانسرڈ سیاح ایک کیبن کی مرمت کر رہے تھے۔
سپانسرڈ نے یہ اچھا کام شروع کیا ورنہ تو بونگیاں مارنے اور ڈرون سے اپنی خوبصورتی کی تصویریں لینے کے علاوہ انہیں کوئی کام ہی نہ تھا
 

زیک

مسافر
ڈنر کے وقت ایک یوروپین سیاح سے ملاقات ہوئی جو ایک سال میں پندرہ ممالک پھر چکی تھی۔ اچھی گپ شپ لگی۔

اس نے ہمیں سیر سپاٹے کے لئے دو جگہیں تجویز کیں۔ ایک قرغزستان کہ وہاں کے پہاڑ خوبصورت ہیں اور دوسرے ڈانیوب سائیکل پاتھ جو جرمنی سے شروع ہوتا ہے اور سلوواکیا اور بلیک سی تک جاتا ہے۔ اس کے راستے میں کئی خوبصورت شہر اور علاقے آتے ہیں۔ یہ یورپ کا دوسرا لمبا دریا ہے۔ ہم نے دونوں جگہوں کو اپنی (لمبی) فہرست میں شامل کر لیا۔

اس سے بھی معلوم ہوا کہ غیرملکی سیاحوں کو ہر پولیس چوکی پر رک کر رجسٹر ہونا پڑتا ہے اور پھر ایک گارڈ ان کے ساتھ جاتا ہے۔ اس کام میں ہر چوکی پر گھنٹہ دو تو لگ ہی جاتے ہیں۔ البتہ اگر پاکستانی واقفوں کے ساتھ جا رہے ہوں تو بال پردے میں چھپائیں اور سوتے بن جائیں تاکہ کسی اردو سوال کا جواب نہ دینا پڑے تو بچت ہو جاتی ہے۔ جو گارڈ ساتھ ہوتا ہے وہ چونکہ اکثر بدلتا ہے لہذا اچھے اور برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کوئی کوئی گارڈ غیرملکی خواتین کو ہراساں بھی کرتے ہیں۔

پاکستانیوں کی غیرملکیوں کے ساتھ سیلفی کی خواہش کا بھی ذکر ہوا۔ میں تو ایسے ہی تنگ تھا معلوم نہیں یہ خیال کیوں نہ آیا کہ پاکستان میں بھی مرد ایسے موقع کو خاتون کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔

اس نے بتایا کہ ننگا پربت تک ہائیک بہت مشکل نہیں اور اصل خوبصورتی ننگا پربت ویو پوائنٹ کے بعد شروع ہوتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس سے بھی معلوم ہوا کہ غیرملکی سیاحوں کو ہر پولیس چوکی پر رک کر رجسٹر ہونا پڑتا ہے اور پھر ایک گارڈ ان کے ساتھ جاتا ہے۔ اس کام میں ہر چوکی پر گھنٹہ دو تو لگ ہی جاتے ہیں۔ البتہ اگر پاکستانی واقفوں کے ساتھ جا رہے ہوں تو بال پردے میں چھپائیں اور سوتے بن جائیں تاکہ کسی اردو سوال کا جواب نہ دینا پڑے تو بچت ہو جاتی ہے۔ جو گارڈ ساتھ ہوتا ہے وہ چونکہ اکثر بدلتا ہے لہذا اچھے اور برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کوئی کوئی گارڈ غیرملکی خواتین کو ہراساں بھی کرتے ہیں۔
ان حالات میں حکومت کا سیاحت کو فروغ دینے والا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ سیاح اتنی دور سے صرف ملک میں ایڈونچر کرنے آتے ہیں۔ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونے نہیں۔
 
Top