سات بجے ہم نے ناشتہ کیا۔ اس سارے ٹرپ میں ناشتے کی یکسانیت نے کافی تنگ کیا۔ اب تک ہم انڈے پراٹھے سے انتہائی اکتا چکے تھے۔ بہرحال ناشتہ کیا اور ناران کی طرف روانہ ہوئے۔
ناران بائی پاس پر رکے اور وہاں سے سیف الملوک کے لئے جیپ لی۔
جھیل روڈ جہاں تک پکی سڑک ہے اب تو وہاں تک آبادی کافی بڑھ گئی ہے۔ پچیس سال پہلے وہاں شاید ہی کچھ ہو۔
آگے سڑک چکی تھی۔ 1994 میں پچھلی بار جب یہاں آیا تھا تو جیپ گلیشیر کے اوپر سے پھسلتی گزرتی تھی۔ اب انہوں نے گلیشیر کاٹ کر وہاں مٹی ڈال کر کچی سڑک بنا دی ہے جو گلیشیر کے درمیان سے گزرتی ہے۔
خیر ہم سیف الملوک جھیل پہنچے۔ صبح آنے کی وجہ سے ابھی ہجوم کم تھا۔
جہاں چند ایک کھوکھے ہوتے تھے اب وہاں پورا بازار ہے۔ معلوم نہیں کہ نیشنل پارک میں ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔
۱۹۹۴ میں بھی جھیل کے آس پاس کوڑا ضرور تھا لیکن اس بار تو برا ہی حال تھا۔ ہر طرف ڈائپر، کوک وغیرہ کی بوتلیں، چپس کے پیکٹ وغیرہ۔ اتنا گند کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ تصاویر کی کمپوزیشن، سلیکشن اور کراپنگ میں کوشش کی ہے کہ گند سے پاک (pun intended) ہوں لیکن پھر بھی آپ غور سے دیکھیں گے تو کچھ نظر آ ہی جائے گا
بہرحال ہم جھیل تک پہنچے