زیک

مسافر
واپسی پر برف پگھلنے کی وجہ سے سڑک پر کافی پانی آ رہا تھا۔ چند جگہوں پر تو دریا ہی بہہ رہا تھا۔ میرے خیال میں جلد ہی سڑک کے کچھ حصے کاروں کے لئے ناقابل رسائی ہونے والے تھے۔

 

زیک

مسافر
بٹہ کنڈی پہنچے اور ہوٹل گئے۔ ہوٹل مینیجر کے بقول ہماری کوئی بکنگ نہ تھی۔ اسے بتایا کہ مین آفس سے ہفتہ دس دن پہلے بات ہوئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں دو تین دن پہلے کنفرم کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن کنفرم کرنے کی کیا ضرورت جب پوری پیمنٹ دس پندرہ دن پہلے کر دی ہو۔

خیر اس کے پاس ایک کمرہ تھا جو اس نے ہمیں دے دیا۔ کمرے میں جاتے ہوئے کہنے لگا کہ اچھا ہوا ایک کمرہ تھا ورنہ ہمیں مشکل ہوتی۔ مجھے غصہ آیا۔ میں نے جواب دیا کہ چونکہ ہم نے پورے پیسے دیئے ہوئے تھے لہذا مسئلہ تو اسے ہونا تھا۔ ساتھ ہی اسے مشورہ دیا کہ اس بارے وہ مین آفس بات کر لے۔

کمرہ اچھا تھا اور کئی دنوں بعد غسلخانہ بھی قابل قبول ملا تھا (پاکستانی غسلخانے ایک مکمل علیحدہ مراسلے کے متقاضی ہیں سو سفرنامے کے آخر میں تفصیل سے ذکر ہو گا)۔ لہذا نہا دھو کر فارغ ہوئے۔

غروب کے وقت کی ہوٹل کے دالان سے کچھ تصاویر

 

زیک

مسافر
جب ڈنر کا آرڈر دینے گیا تو مینیجر کی مالک سے بات ہو چکی تھی۔ پتا چلا کہ میری جس سے بکنگ کے لئے بات چیت ہوئی تھی وہ مالک تھا۔ مینیجر کا رویہ بالکل بدل چکا تھا۔ اب وہ مجھے سر کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔

ہوٹل کی ایک تصویر

 

زیک

مسافر
بٹہ کنڈی میں کافی سکون تھا۔ ناران کا سا رش اور شور نہیں۔ سامنے مین روڈ پر گاڑیاں مغرب کے بعد تک گزرتی رہیں جو بابوسر اور لولوسر وغیرہ سے واپس آ رہی تھیں۔ اوپر پہاڑ پر لالہ زار سے جیپیں ہیڈلائٹس آن کر کے نیچے آ رہی تھیں

 

زیک

مسافر
آٹھ بجے کے بعد ہم نے ڈنر کیا۔ ڈائننگ روم میں ہم پھر اکیلے تھے۔ پھر کمرے میں آ کر پیکنگ کی کہ جو سامان بیک پیکس میں فیری میڈوز لے کر گئے تھے وہ واپس سوٹ کیس میں ڈالا۔

ہوٹل میں کوئی ایک ہی خاندان تین چار گاڑیوں میں آیا تھا اور آدھ سے زیادہ کمرے انہی کے پاس تھے۔ وہ اپنے ساتھ کمبل اور بوریا بستر سب لائے تھے۔ رات کے گیارہ بارہ بجے انہیں کھانا کھانا یاد آیا۔ شکر ہے ڈائننگ روم کچھ دور تھا اور ہم آرام سے سو گئے۔
 

زیک

مسافر
میں نے بھی یہی سوچا تھا۔ لیکن جب دیکھا کہ صفحات چالیس سے اوپر ہوگئے ہیں اور ختم ہونے کا کوئی پتہ نہیں تو پھر ہمت کرکے پڑھنا شروع کرہی دیا۔ اور اب افسوس ہورہا ہے کہ ساتھ ساتھ ہی چلنا چاہئے تھا۔ تصاویر اور تفاصیل اتنی دلچسپ ہیں کہ اب درمیان میں چھوڑ بھی نہیں سکتا اور آخری صفحے تک پہنچنے کی بھی جلدی ہے کہ موبائل پر تصویروں کا مزا نہیں اور دفتر کے پی سی پر زیادہ وقت نہیں۔ ابھی آپ کے اس مراسلے تک پہنچا ہوں۔:)
میں اتنے سفرنامے پوسٹ کر چکا ہوں اور پھر بھی لوگ ایسی فاش غلطیاں کرتے ہیں۔

پاکستان کا یہ سفرنامہ تنزانیہ جتنا لمبا تو نہیں ہو سکتا لیکن شاید لمبائی میں دوسرے نمبر تک پہنچ گیا ہے۔
 

زیک

مسافر
واہ زیک صاحب ،
منیجر کے آپ کو سر کہنا برا نہیں لگا ؟
بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ پاکستان میں مناصب کا خیال بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔ برابری کا نظریہ کفر سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے کافی عجیب لگتا ہے۔

وہاں جب بھی کسی ریستوران میں ڈرائیور کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا تو ایسے لگا جیسے کچھ غلط کر بیٹھا ہوں۔
 

بندہ پرور

محفلین
بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ پاکستان میں مناصب کا خیال بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔ برابری کا نظریہ کفر سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے کافی عجیب لگتا ہے۔

وہاں جب بھی کسی ریستوران میں ڈرائیور کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا تو ایسے لگا جیسے کچھ غلط کر بیٹھا ہوں۔
آپ کی یہ بات کافی وزن دار اور حقیقت پر مبنی ہے
اور یہی ہے طبقاتی امتیاز
 
بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ پاکستان میں مناصب کا خیال بہت زیادہ رکھا جاتا ہے۔ برابری کا نظریہ کفر سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے کافی عجیب لگتا ہے۔

وہاں جب بھی کسی ریستوران میں ڈرائیور کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا تو ایسے لگا جیسے کچھ غلط کر بیٹھا ہوں۔

ماشاءاللہ۔

معاشرتی یا شاید ثقافتی ڈیکورم نامی بلا یہاں بہت منہ زور ہے۔
 

زیک

مسافر
سات بجے ہم نے ناشتہ کیا۔ اس سارے ٹرپ میں ناشتے کی یکسانیت نے کافی تنگ کیا۔ اب تک ہم انڈے پراٹھے سے انتہائی اکتا چکے تھے۔ بہرحال ناشتہ کیا اور ناران کی طرف روانہ ہوئے۔

ناران بائی پاس پر رکے اور وہاں سے سیف الملوک کے لئے جیپ لی۔

جھیل روڈ جہاں تک پکی سڑک ہے اب تو وہاں تک آبادی کافی بڑھ گئی ہے۔ پچیس سال پہلے وہاں شاید ہی کچھ ہو۔

آگے سڑک چکی تھی۔ 1994 میں پچھلی بار جب یہاں آیا تھا تو جیپ گلیشیر کے اوپر سے پھسلتی گزرتی تھی۔ اب انہوں نے گلیشیر کاٹ کر وہاں مٹی ڈال کر کچی سڑک بنا دی ہے جو گلیشیر کے درمیان سے گزرتی ہے۔

خیر ہم سیف الملوک جھیل پہنچے۔ صبح آنے کی وجہ سے ابھی ہجوم کم تھا۔

جہاں چند ایک کھوکھے ہوتے تھے اب وہاں پورا بازار ہے۔ معلوم نہیں کہ نیشنل پارک میں ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔

۱۹۹۴ میں بھی جھیل کے آس پاس کوڑا ضرور تھا لیکن اس بار تو برا ہی حال تھا۔ ہر طرف ڈائپر، کوک وغیرہ کی بوتلیں، چپس کے پیکٹ وغیرہ۔ اتنا گند کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ تصاویر کی کمپوزیشن، سلیکشن اور کراپنگ میں کوشش کی ہے کہ گند سے پاک (pun intended) ہوں لیکن پھر بھی آپ غور سے دیکھیں گے تو کچھ نظر آ ہی جائے گا

بہرحال ہم جھیل تک پہنچے

 
Top