کہاں تھے ہم؟ ہاں 3 جولائی کو کاغان گاؤں سے جنوب کی طرف نکلے تھے۔ آج کا دن کافی گرم تھا۔ فضا میں haze تھی۔
جب ہم بالاکوٹ پہنچے تو وہاں 39 ڈگری درجہ حرارت تھا۔ بالاکوٹ میں ایک ریستوران میں لنچ کیا۔
پھر آگے روانہ ہوئے اور گرمی بڑھتی گئی۔
سڑک کے ارد گرد کافی آبادی ہو چکی ہے اور چھوٹے چھوٹ قصبوں سے گزرتے بھی کافی دیر لگتی ہے۔ مانسہرہ سے حویلیاں تک کافی جگہوں پر اتنا وقت لگا کہ میں سوچنے لگا کہ اس سے تیز تو میں سائیکل چلاتا ہوں۔
خیر حویلیاں پہنچ کر ہزارہ موٹروے پر ہو لئے۔ اب رفتار تیز تھی اور ٹریفک نہ ہونے کے برابر۔ برہان انٹرچینج پر اسلام آباد موٹروے پر چلے۔
جنگ بہاتر والا ایگزٹ لیا۔ موٹروے کا ٹول بہت کم ہے۔ سوچا نہ تھا کہ اتنی سستی ہو گی۔
جنگ بہاتر روڈ سے جی ٹی روڈ پر ہو لئے۔ پہلے جی ٹی روڈ کی اس طرف سے دائیں مڑ کر آپ واہ کینٹ میں داخل ہو سکتے تھے لیکن اب آگے سے یو ٹرن کر کے آنا پڑتا ہے۔
بیریئر نمبر 3 سے واہ کینٹ میں داخل ہوئے۔ چونکہ گاڑی فل ٹینک کے ساتھ ملی تھی لہذا واپس بھی ایسے ہی کرنی تھی۔ سوچا بستی کے ساتھ ہی پٹرول پمپ ہے۔ لیکن وہ اب وہاں نہیں رہا بلکہ تھانے کے پاس ہے۔ راستے میں ایم او ڈی سی (؟) والوں نے مال روڈ پر ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آگے جانے کے لئے ہمیں انہیں انٹری والی پرچی جمع کرانی ہو گی۔ وہ دے کر پٹرول ڈلوایا اور بستی کی طرف واپس ہوئے۔
گاڑی مال روڈ سائیڈ پر کھڑی کر کے سڑک کراس کی اور ناکے والوں سے پرچی واپس مانگی۔ اس کے پاس لاتعداد پرچیاں تھیں اور اسے ہماری پرچی ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ اس سارے قصے کا بھی کوئی مقصد سمجھ نہیں آیا۔
اور پھر ہم سسرال والوں کے گھر پہنچ گئے۔
4 جولائی کے مبارک دن کا آغاز واہ کینٹ میں کیا۔ ارادہ تھا کہ برادر نسبتی کے گھر لنچ کریں گے لیکن صبح سویرے ہی معلوم ہوا کہ ان کے ہاں بجلی نہیں ہے کہ ٹرانسفارمر خراب ہو گیا۔ بے پناہ گرمی تھی۔ 43 ڈگری۔ لہذا وہ بھی ہم اے ملنے آ گئے۔
سہ پہر میں نکلے اور ایک کزن سے ملاقات کی۔ پھر سوچا کہ بیٹی کو اپنا بچپن دکھایا جائے۔ آج ٹوکن والی گاڑی تھی لہذا ناکے پر نہیں روکا۔
کافی عرصے بعد سنٹرل پارک جانا ہوا۔ گھر تو سارے وہی ہیں لیکن کافی بدل گیا ہے۔ مسجد، سی ایس ڈی، ڈسپنسری وغیرہ والے حصے میں کافی نئی تعمیر ہے۔ گلنستر روڈ پر گئے تو وہاں گھروں کے نمبر بھی بدل گئے ہیں۔ خیر بیٹی کو وہ گھر باہر سے دکھایا جہاں میں نے ٹین ایج اور کالج کا وقت گزارا۔ پھر انارکلی پر وہ گھر بھی یہاں پیدائش کے بعد کچھ سال گزرے۔ وہاں اب گدوال والی سڑک پر بڑا سا گیٹ لگا ہے۔ سر سید کے ہمارے وقت کے مین کیمپس بھی گئے جو اب لڑکیوں کا ہے۔ ہمارے دور میں مخلوط تعلیم تھی۔
شام کو والدین اور بہن بھی ملنے آ گئے اور ہم سب پی او ایف ہوٹل کھانا کھانے گئے۔ یا تو ہمیں علم نہیں یا واہ کینٹ میں کھانے پینے کی جگہوں کی ابھی بھی کمی ہے۔