پاکستان کا لبیک دھرنا

خادم حسین رضوی کا تازہ بیان

کراچی (نیوز ڈیسک) تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی نے کہا ہے کہ کسی بھی حکومتی شخصیت کی زبان پر اعتبار نہیں تھا، جب انہوں نے قتل و غارت گری شروع کی تو فوج نے ثالثی کا کردار ادا کیا، آئی ایس آئی کے کوئی جنرل تھے جنہوں نے کہا کہ جو مانگنا ہے مانگو ،ہم نے ان سے کہا کہ استعفیٰ لیکر آئو تو بات ہوگی وہ استعفی لے کر آئے جس کے بعد مذاکرات شروع ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ زاہد حامد نے استعفی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر دیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں خادم حسین رضوی نے کہا کہ شہباز شریف جھوٹ بولتے ہیں کہ انہوں نے ثالثی کرائی ۔ جس کو گلی گلی میں چور کہا جائے اسے ضامن کیسے مان سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں خادم حسین رضوی نے بتایا کہ حکومت سے کہا کہ کہ آپ سے بات ہی نہیں ہوسکتی تو فوج درمیان میں پڑی۔مذاکرات میں ہمارے تحریک کے ساتھی تھے جنہوں نے فوج کے یا آئی ایس آئی کے کسی جنرل وغیر ہ سے مذاکرات کیے جن کے معاہدے پر دستخط ہیں۔ احسن اقبال سے بات چیت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہوئی اور سائن تو انہوں نے کرائے ہونگے ہم نے تو نہیں کرائے ہیں ۔
 
تحریک میں پھوٹ پڑ گئی

لاہور ( آئی این پی ) تحریک لبیک کے دو دھڑے سامنے آگئے ،خادم حسین رضوی اور ڈاکٹر اشرف جلالی نے تحریک کے سربراہ ہونے کا دعویٰ کردیا۔بدھ کو ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے دونوں علمائے کرام تحریک لبیک کے سربراہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ۔ خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ شوریٰ نے انہیں تحریک لبیک کا سربراہ منتخب کیا تھا ۔ زاہد حامد کے استعفے کے بعد دھرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتاجب کہ دوسرے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر اشرف جلالی نے علامہ خادم حسین رضوی پر الزامات کی

بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ 70 علماء کرام نے انہیں تحریک لبیک کا امیر منتخب کیا تھا ۔ خادم حسین رضوی کا اندرون خانہ رانا ثناء اللہ سے معاہدہ ہوا ہے ۔ علامہ خادم حسین نے شہداء کے خون کا سودا کیا اسی باعث فیض آباد دھرنے میں شہید ہونے والوں کی ایف آئی آر نہیں کٹوائی گئی۔ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے کہا کہ جب تک رانا ثناء اللہ استعفیٰ نہیں دیتے لاہور دھرنا جاری رہے گا ۔آن لائن کے مطابق تحریک لبیک یارسول اللہ کے دودھڑے سامنے آگئے ،سربراہ میں ہوں خادم حسین رضوی کادعویٰ ،اصل سربراہ میں ہوں ڈاکٹراشرف جلالی جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولاناخادم حسین رضوی نے لاہوردھرنے سے لاتعلقی کااظہارکردیا۔بدھ کے روزنجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ لاہوردھرنے والوں کاہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اورنہ ہی ہمارے معاہدے سے لاہورمیں دھرنادینے والوں کاکوئی تعلق ہے۔82شہروں میں ہماری دھرنے جاری تھے ،تحریک لبیک کے بانیان سے لیکرتمام عمائدین ہمارے ساتھ ہیں ۔تحریک کی شوریٰ،صوبائی امراء ہمارے ساتھ ہیں ،تحریک لبیک کے بانی پیرافضل قادری بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔آصف اشرف جلالی کواکیلے ہی پروازلینے کاشوق تھا،ہماراآصف اشرف جلالی سے کوئی تعلق نہیں ،بات ختم ہوگئی جبکہ آصف اشرف جلالی کاکہناہے کہ ہم نے نودن محاصرے میںگزارے فیض آبادوالوں نے نہیں ،ہم سے حکومت نے معاہدہ کیا،ہمیں پوچھنے کاحق ہے ۔خادم حسین رضوی کے اصرارپرچیئرمین بناانہوں نے مجھے زبردستی چیئرمین بنایاتھا۔انہوں نے کہاکہ خادم حسین نے فتویٰ نہ لگانے کامعاہدہ کیسے کیا۔فیض آبادھرنے کے اٹھنے پرافسوس ہوا۔انہوں نے کہاکہ راناثناء اللہ کے مسئلے پرخاد م حسین کیوں خاموش ہیں ،خادم حسین رضوی انیس دن تک راناثناء اللہ کے استعفی ؁ پرکیوں نہیں بولے ۔انہوں نے کہاکہ شہداء کی تعدادکتنی ہے ،لاشیں کہاں گئیں جواب دیاجائے ۔ا نہوں نے کہاکہ دھرنے والوں نے ہلاکتوں کامقدمہ درج کیوں نہیں کروای
 

فرحت کیانی

لائبریرین
خادم حسین رضوی کا تازہ بیان

کراچی (نیوز ڈیسک) تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی نے کہا ہے کہ کسی بھی حکومتی شخصیت کی زبان پر اعتبار نہیں تھا، جب انہوں نے قتل و غارت گری شروع کی تو فوج نے ثالثی کا کردار ادا کیا، آئی ایس آئی کے کوئی جنرل تھے جنہوں نے کہا کہ جو مانگنا ہے مانگو ،ہم نے ان سے کہا کہ استعفیٰ لیکر آئو تو بات ہوگی وہ استعفی لے کر آئے جس کے بعد مذاکرات شروع ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ زاہد حامد نے استعفی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر دیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں خادم حسین رضوی نے کہا کہ شہباز شریف جھوٹ بولتے ہیں کہ انہوں نے ثالثی کرائی ۔ جس کو گلی گلی میں چور کہا جائے اسے ضامن کیسے مان سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں خادم حسین رضوی نے بتایا کہ حکومت سے کہا کہ کہ آپ سے بات ہی نہیں ہوسکتی تو فوج درمیان میں پڑی۔مذاکرات میں ہمارے تحریک کے ساتھی تھے جنہوں نے فوج کے یا آئی ایس آئی کے کسی جنرل وغیر ہ سے مذاکرات کیے جن کے معاہدے پر دستخط ہیں۔ احسن اقبال سے بات چیت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہوئی اور سائن تو انہوں نے کرائے ہونگے ہم نے تو نہیں کرائے ہیں ۔
کوئی جنرل وغیرہ۔۔۔ہاہاہاہاہا۔ جنرل فیض محمد کا یہ سن کر اور پڑھ کر کیا حال ہوا ہو گا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تحریک میں پھوٹ پڑ گئی

لاہور ( آئی این پی ) تحریک لبیک کے دو دھڑے سامنے آگئے ،خادم حسین رضوی اور ڈاکٹر اشرف جلالی نے تحریک کے سربراہ ہونے کا دعویٰ کردیا۔بدھ کو ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے دونوں علمائے کرام تحریک لبیک کے سربراہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ۔ خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ شوریٰ نے انہیں تحریک لبیک کا سربراہ منتخب کیا تھا ۔ زاہد حامد کے استعفے کے بعد دھرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتاجب کہ دوسرے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر اشرف جلالی نے علامہ خادم حسین رضوی پر الزامات کی

بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ 70 علماء کرام نے انہیں تحریک لبیک کا امیر منتخب کیا تھا ۔ خادم حسین رضوی کا اندرون خانہ رانا ثناء اللہ سے معاہدہ ہوا ہے ۔ علامہ خادم حسین نے شہداء کے خون کا سودا کیا اسی باعث فیض آباد دھرنے میں شہید ہونے والوں کی ایف آئی آر نہیں کٹوائی گئی۔ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے کہا کہ جب تک رانا ثناء اللہ استعفیٰ نہیں دیتے لاہور دھرنا جاری رہے گا ۔آن لائن کے مطابق تحریک لبیک یارسول اللہ کے دودھڑے سامنے آگئے ،سربراہ میں ہوں خادم حسین رضوی کادعویٰ ،اصل سربراہ میں ہوں ڈاکٹراشرف جلالی جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ مولاناخادم حسین رضوی نے لاہوردھرنے سے لاتعلقی کااظہارکردیا۔بدھ کے روزنجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ لاہوردھرنے والوں کاہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اورنہ ہی ہمارے معاہدے سے لاہورمیں دھرنادینے والوں کاکوئی تعلق ہے۔82شہروں میں ہماری دھرنے جاری تھے ،تحریک لبیک کے بانیان سے لیکرتمام عمائدین ہمارے ساتھ ہیں ۔تحریک کی شوریٰ،صوبائی امراء ہمارے ساتھ ہیں ،تحریک لبیک کے بانی پیرافضل قادری بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔آصف اشرف جلالی کواکیلے ہی پروازلینے کاشوق تھا،ہماراآصف اشرف جلالی سے کوئی تعلق نہیں ،بات ختم ہوگئی جبکہ آصف اشرف جلالی کاکہناہے کہ ہم نے نودن محاصرے میںگزارے فیض آبادوالوں نے نہیں ،ہم سے حکومت نے معاہدہ کیا،ہمیں پوچھنے کاحق ہے ۔خادم حسین رضوی کے اصرارپرچیئرمین بناانہوں نے مجھے زبردستی چیئرمین بنایاتھا۔انہوں نے کہاکہ خادم حسین نے فتویٰ نہ لگانے کامعاہدہ کیسے کیا۔فیض آبادھرنے کے اٹھنے پرافسوس ہوا۔انہوں نے کہاکہ راناثناء اللہ کے مسئلے پرخاد م حسین کیوں خاموش ہیں ،خادم حسین رضوی انیس دن تک راناثناء اللہ کے استعفی ؁ پرکیوں نہیں بولے ۔انہوں نے کہاکہ شہداء کی تعدادکتنی ہے ،لاشیں کہاں گئیں جواب دیاجائے ۔ا نہوں نے کہاکہ دھرنے والوں نے ہلاکتوں کامقدمہ درج کیوں نہیں کروای
اگرچہ میں کامران خان بلکہ کسی بھی ٹاک شو کی دکان نہیں دیکھتی لیکن کل ٹوئٹر پر کامران خان کے خادم حسین رضوی سے کچھ سوالات کی ویڈیو دیکھی۔ جس میں ہر سوال کا جواب ایسا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ رویا جائے یا ہنسا جائے۔
اس میں بھی قیادت کے اختلافات پر بات ہو رہی تھی جس کو موصوف نے ڈسمس فرما دیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آج ڈان میں عمران خان صاحب کا بیان پڑھا۔ ان کے پارٹی ارکان بھی دھرنے میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ نیز انھوں نے فوج کی مداخلت کرنے پر دو نفل شکرانے کے ادا کئیے۔ میرے خیال سے تو اسلام آبادیوں کو اب دو نفل شکرانے کے ادا کر لینے چاہئیں کہ بچت ہو گئی جو تجربہ کار دھرنے والے حضرات نہیں پہنچے۔

PTI workers wanted to join the Faizabad sit-in, says Imran Khan - Pakistan - DAWN.COM

اس کے علاوہ خان صاحب نے ایک اور بات فرمائی ہے جس پر ان کو سوشل میڈیا پر کافی سنائی جا رہی ہیں۔


DPzzNvYWAAA2aqU.jpg

If not for Army, Faizabad situation would have deteriorated: Imran

خان صاحب کے بیانات پر تو انسان بےاختیار ہاہاہا یا آہہہہہہہہہ کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پاتا۔
 
اگرچہ میں کامران خان بلکہ کسی بھی ٹاک شو کی دکان نہیں دیکھتی لیکن کل ٹوئٹر پر کامران خان کے خادم حسین رضوی سے کچھ سوالات کی ویڈیو دیکھی۔ جس میں ہر سوال کا جواب ایسا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ رویا جائے یا ہنسا جائے۔
اس میں بھی قیادت کے اختلافات پر بات ہو رہی تھی جس کو موصوف نے ڈسمس فرما دیا۔
آصف اشرف جلالی کا بیان میڈیا پر آ چکا ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
"حلف نامہ کا اصل معمہ کیا تھا؟"
انتخابی اصلاحات کمیٹی 34 ممبران پر مشتمل تھی جس میں تمام جماعتوں کے ارکان شامل تھے۔ پہلے مرحلے میں اشتہارات کے ذریعے تجاویز مانگی گئیں۔ کمیٹی کو 1200 سے اوپر تجاویز ملیں۔ 34 میں سے 16 ممبران نے تجاویز کا جائزہ لیا اور 8 تجاویز اٹھا کر ایک قانون کا مسودہ تیار کیا گیا جو مزید اعتراضات اور تجاویز کے لئے قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر مشتہر کیا گیا۔ اس ڈرافٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہوا تو اسے دوبارہ 34 ممبران کی کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اس کمیٹی نے مجوزہ قانون کو بغیر کسی اعتراض کے منظور کر لیا۔ اس رپورٹ اور مجوزہ قانون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور تمام پارلمینٹیرئینز کو دستور کے مطابق اس مسودہ کی کاپیاں مہیا کی گئیں اور اسے قومی اسبلی کی ویب سائٹ پر پبلک کر دیا گیا۔ اس رپورٹ پر مختلف سیاسی جماعتوں نے تجاویز اور ترامیم تجویز پیش کیں جو رپورٹ کا حصہ بنا دی گئیں۔ تاہم کسی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے یہ مسودہ قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا۔ یہ بعین وہی مسودہ تھا جو 34 ممبران کی کمیٹی نے مرتب کیا تھا اور سیاسی جماعتوں کی تجاویز شامل تھیں۔ وزیر قانون اس میں کسی ترمیم کا اختیار نہیں رکھتے تھے اور قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ یہ وہی مسودہ تھا جو پہلے پارلیمنٹیرینز کو مہیا کیا گیا تھا۔ 22 اگست کو قومی اسمبلی نے اس قانون کو بغیر کسی اعتراض کے منظور کر لیا۔
اس کے بعد یہ بل سینیٹ سے منظوری کے لئے پیش ہوا۔ سینیٹ میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے حلف نامے میں شامل الفاظ " solemnly swear " کی بجائے " solemnly afirm" کے الفاظ پر اعتراض اٹھایا اور اس میں ترمیم کی تجویز پیش کی۔ اس ترمیم کی سب پہلے حمایت مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق اور وزیر قانون زاہد حامد نے کی جبکہ اپوزیشن کی کچھ جماعتوں نے اس پر اعتراض اٹھایا۔ اس ترمیم کی مخالفت میں 34 اور حمایت میں 13 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ ترمیم منظور نہ سکی۔
یہ مکمل کہانی تھی۔ اس کے بعد شیخ رشید نامی ایک رجل رشید نے سیاپا اٹھایا کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کر کے سازش کی گئی ہے۔ معاملہ میڈیا میں اچھالا گیا۔ جو جماعتیں اس پورے پراسیس میں شامل تھیں انہوں نے اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے خود کو بے خبر قرار دے کر اچھالنا شروع کیا۔
اس نئے مسودہ قانون پر ایک اعتراض conduct of general elections order 2002 کے آرٹیکل 7C پر بھی اٹھایا گیا۔ یہ قانون 17 جون 2002 کو نافذ ہوا تھا جس کے مطابق اگر کسی احمدی نے اپنا ووٹ بطور مسلمان درج کرایا ہو تو اس قانون کے نافذ ہونے کے دس دن کے اندر اعتراض اٹھایا جا سکتا تھا۔ موجودہ مسودہ قانون پر اعتراض یہ تھا کہ 7C کو اس قانون سے نکال دیا گیا ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ 7C کی کل معیاد دس دن تھی۔ 17 جون 2002 سے لے کر 26 جون 2002 کے بعد یہ خود بخود ساقط ہو گیا تھا۔
ادھر حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں پارلیمانی جماعتوں کے ایک اجلاس میں solemnly affirm کو دوبارہ solemnly swear کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ کسی بھی تنازع سے بچا جا سکے اور یہ تجویز منظور کر لی گئی اور حلف نامے میں ترمیم کر کے solemnly affirm کو دوبارہ solemnly swear کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی تنازع سے بچنے کے لئے الیکشن ایکٹ 2017 میں conduct of general elections order 2002 کے ارٹیکل 7C اور 7B کو بھی بحال کر دیا گیا اور نئے قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔
اب تنازع کیا یہ نہ کسی نے سمجھنا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔ دھول جتنی اڑ سکتی ہے اتنی اڑائی جا رہی ہے۔
اس بیچ کچھ سادہ باتوں کو بہرحال نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سادہ بات یہ ہے کہ پنجاب میں بریلوی اکثریت ہے۔ مسلم لیگ ن کا 70 فیصد سے زیادہ ووٹر بریلوی ہے۔ تحریک لبیک لاہور کے ضمنی الیکشن میں انتخابی معرکے میں اتر چکی ہے۔ اگلے الیکشن سے پہلے یہ باقاعدہ ایک سیاسی جماعت ہو گی۔ ادھر ملی مسلم لیگ وجود میں آ چکی ہے۔ تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ جیسی جماعتیں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ہی متاثر کریں گی۔ اس کا احساس خود مسلم لیگ ن کو بھی ہے اور کیپٹن صفدر صاحب کے بیانات، اور شاہ محمود قریشی کی ملتان میں تحریک لبیک کے دھرنے میں شرکت کو اگر اسی پس منظر میں دیکھا جائے تو بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں قومی امکان ہے کہ آئندہ آنے والے الیکشن میں hung پارلیمنٹ وجود میں آئے جو بہرحال کچھ اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں ہو گی۔
کاپی پیسٹ
اور اس سارے قصے کو حکومت دھرنے سے پہلے مشتہر بھی کر چکی تھی۔ لیکن افسوس کہ اللہ معاف کر دیتا ہے۔۔ہم انسان پیچھے پڑ جائیں تو کبھی معاف نہیں کرتے۔
21176rs.jpg
 

فرحت کیانی

لائبریرین
قابل غور اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کے پھانسی پر جھولنے کے بعد علامہ کادم حسین رضوی اچانک پردہ سمیں پر نمودار ہوا ہے اور ان کی تقاریر کے حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کرکے عوام مین مقبولیت حاصل کرتے ہیں اور تقاریر میں انکا لب و لہجہ کوئی اچھا خیال نہیں کیا جاتا جیسے انہوں نے علامہ طاہر القادری کے خلاف تقاریر میں لہجہ اپنایا ہے۔
ایسی نفرت انگیز تقاریر کرنے والے حکومت پنجاب کی نظروں سے کیسے اوجھل رہے جبکہ نیشنل ایکشن پلان میں ایسی تقاریر کرنا ممنوع ہیں، دھرنا کے اول دن سے اب تک ہمارے خفیہ والوں کی کیا رپورٹس ہیں؟ ان کی کارکردگی کیا ہے اسے بھی عوام کے سامنے لائی جائے اور راجہ ظفرالحق و دیگر ارکان پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جائے۔ ایک بات اور کہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان بھی اپنی صفائی پیش کریں کہ انہوں نے ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی کیسے منظوری دی اور کس کی ہلا شیری سے منظوری دی۔ جب تک پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان سچ نہیں بتاتے اس وقت تک ان کی رکنیت معطل کردی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
بی بی سی اردو پر شاید کچھ ذکر پڑھا تھا کہ کچھ مقدمات میں نامزد بھی ہیں۔
 
اس سارے قصے میں جس قدر دھول اُڑائی جا چکی ہے اس کی وجہ سے اصل مقصد پس منظر میں چلا گیا ہے
یہ سب ن لیگ کا پری پلینڈ ڈرامہ تھا کیوں کہ نواز شریف کو معلوم تھا کہ اس دفعہ وہ شکنجے میں پھنس چکا کے اس کی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ اس کی حکومت کسی نہ کسی طرح برطرف کی جائے اور اس کو مظلوم بن کا عوام کے سامنے جانے کا موقع مل جائے مگر ایجنسیوں نے یہ چال اسی پر الٹ دی اور ادھر کچھ محترم محفلین بھی اسی لئے غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ سب کچھ کیا دھرا فوج کا ہے اگر فوج اس معاملے میں دخل نہ دیتی تو نہ جانے ملک کا کیا حال ہوتا
 
اس معاملے میں مذہبی جماعتوں پر مکمل طور پر ذمہ داری ڈالنا درست نہیں ان کو اشتعال دلایا گیا اور کچھ موقع پرستوں نے اس معاملے کو اپنی ذات کی پروجیکشن اور سیاست چمکانے کے لئے استمعال کیا
 
اس سارے قصے میں جس قدر دھول اُڑائی جا چکی ہے اس کی وجہ سے اصل مقصد پس منظر میں چلا گیا ہے
یہ سب ن لیگ کا پری پلینڈ ڈرامہ تھا کیوں کہ نواز شریف کو معلوم تھا کہ اس دفعہ وہ شکنجے میں پھنس چکا کے اس کی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ اس کی حکومت کسی نہ کسی طرح برطرف کی جائے اور اس کو مظلوم بن کا عوام کے سامنے جانے کا موقع مل جائے مگر ایجنسیوں نے یہ چال اسی پر الٹ دی اور ادھر کچھ محترم محفلین بھی اسی لئے غلط فہمی کا شکار ہیں کہ یہ سب کچھ کیا دھرا فوج کا ہے اگر فوج اس معاملے میں دخل نہ دیتی تو نہ جانے ملک کا کیا حال ہوتا
کچھ ایسی ہی بات ہے کہ یہ کہا جائے اس بندے نےاپنے اوپر قتل کا کیس کروایا ہے تا کہ چوری کے مقدمے سے بچ سکے۔
 
آخری تدوین:
یکم مارچ 2015 کو ممتازقادری کے جنازے کے موقع پربھی دھرنا پارٹی جنازہ پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے لے جانا چاہتی تھی لیکن سٹیج مفتی حنیف قریشی گروپ کے پاس ہونے کی وجہ سے معاملہ لیاقت باغ میں ہی ختم ہوگیا۔ سینئر صحافی عمر فاروق کے مطابق ان کی جب دھرناپارٹی کے قائدین سے ملاقات ہوئی تو انہیں یہ بتایا گیا کہ مفتی حنیف قریشی نے ممتازقادری کے نام پرکروڑوں روپے کمالیے ہیں مگرقادری کے اہل خانہ کوایک روپیہ بھی نہیں دیا ۔ مفتی حنیف قریشی برطانیہ سمیت مختلف ممالک کے دورے کرآیامگرکہیں بھی قادری کے اہلخانہ کے ساتھ انصاف کامعاملہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے قادری کے اہل خانہ مالی طورپرکچھ مشکلات کاشکارہیں اگرچہ قادری کے اہل خانہ نے کبھی بھی اس کاتذکرہ نہیں کیا مگروہ مفتی حنیف قریشی سے مطمئن نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ قادری کے اہل خانہ نے دھرناپارٹی کاساتھ دینے کااعلان کیا ۔دھرناپارٹی کو مفتی حنیف قریشی کے رویے پر شدید غم اور غصہ تھا ۔ انہوں نے ممتاز قادری کے والد اور بھائی کو ساتھ ملایا اور27مارچ کولیاقت باغ میں چہلم کی تاریخ دے دی ۔ عمر فاروق کے مطابق ممتازقادری کی پھانسی کے بعد پاکستان اور بیرون ملک مقیم لوگوں کی طرف سے بڑی تعدادمیں رقم بھیجنے کابھی سلسلہ شروع ہوا، اس رقم کوکس طرح خرچ کیاجائے ؟ مستقبل میں کون سے منصوبے بنائے جائیں اس حوالے سے دھرناپارٹی نے ساراکام اپنے کنٹرول میں لے لیا اورمفتی حنیف قریشی اوران کے ساتھیوں کومکھن کی طرح باہرنکال دیا۔
کیا یہ سب واقعی سچ اور تصدیق شدہ ہے؟
 
ہمیں تو عقلمند اور دانشور ہونے کا دعویٰ ہے نہیں ۔ یہ جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں خواہ سیاست دان ہیں یا ”مذہب دان“ سمجھ انہیں بھی صرف اتنی ہی ہے جس سے ان کی اپنی غرض ہے سیاستدانوں کا تو کام ہی سیاست کرنا ہے لیکن یہ جنہوں نے ہمیں سراط مستقیم بتانا ہے وہ بھی صرف اپنے اپنے مفادات کی بات کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
*فیض آباد دھرنے کے ثمرات*

محض ایک وفاقی وزیر کے اِستعفیٰ سے نظامِ مصطفیٰ نافذ نہیں ہو جائے گا۔ مؤرخہ 25 نومبر کے حالات سے بڑی بڑی اُمیدیں نہ لگائیں۔ جذبات کی رو میں بہہ کر فیصلے کرنے والے اس جذباتی دور کے گزر جانے کے بعد روئیں گے۔

اس تماشے کے پیچھے نون لیگ کی اپنی سازش ہے ۔ فیض آباد دھرنے کے پیچھے ماسٹرمائنڈ رانا ثناء اللہ ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے دھرنے والوں کو وزیر قانون کے استعفیٰ کا مطالبہ کا راستہ دکھایا۔

میڈیا چینلز گواہ ہیں کہ خادم رضوی صاحب نے دھرنے کے دوران چیف جسٹس سے لے کر آرمی چیف تک ہر کسی کو گالیوں سے نوازا، پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اس دوران اپنی توپوں کا رخ نوازشریف اور رانا ثناءاللہ کی طرف نہیں موڑا؟

مؤرخہ 25 نومبر صبح 11 بجے کے لگ بھگ شرکاء کی بڑی تعداد واٹر کینن اور آنسو گیس کی شدت کی تاب نہ لا کر گرفتار یا فرار ہوچکی تھی اور اسٹیج پر صرف ڈیڑھ دو سو علماء بچے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پولیس کو اُن علماء کی گرفتاری کی بجائے پسپائی کا حکم جاری کیا جاتا ہے؟ اگلے چند گھنٹوں تک یہ مناظر ٹی وی چینلز پر چلتے رہتےہیں تاکہ سارا ملک متاثر ہو جائے، پھر اچانک پیمرا حرکت میں آ جاتا ہے اور تمام نیوز چینلز اور سوشل میڈیا کو بیک جنبش قلم بند کرکے مارشل لاء کی یاد تازہ کروا دی جاتی ہے؟ کوئی ہے جو اس نظر سے بھی سوچے اور سمجھے؟

بظاہر نواز شریف اس دھرنے کے نتیجے میں اپنے تینوں مقاصد کامیابی سے حاصل کر لے گا۔

*نوازشریف کی پہلی کامیابی:*

جنیوا میں ہونے والے معاہدے کے بعد نوازشریف اپنے مغربی آقاؤں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہا کہ اُس کی جماعت پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار ہے اور وہ ایک انتہاپسند مذہبی معاشرے میں بنیاد پرست مذہبی طبقات سے مخالفت مُول لے کر قادیانیوں کو پاکستانی معاشرے میں اُن کا من پسند مقام دلوا سکتا ہے۔ اس مقصد میں وہ بظاہر کامیاب ٹھہرا۔

*نوازشریف کی دوسری کامیابی:*

سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق جسٹس باقرنجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا فیصلہ حال ہی میں عدالت نے محفوظ کر لیا تھا، جو اگلے ہفتے سنایا جائے گا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں نوازشریف، شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ جیسوں کیلئے پھانسی کے پھندے تیار ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے عین اس موقع پر دھرنے کو بہانہ بنا کر نہ صرف سارے ملک میں تمام نیوز چینلز کو بند کرنے کا جواز حاصل کر لیا بلکہ فیس بک، ٹیوٹر، یوٹیوب اور ڈیلی موشن جیسی ویب سائٹس کو بھی عوام کی رسائی سے دور کر دیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کے پبلک ہونے سے حکومت کے خلاف میڈیا کی طرف سے یکدم جو پریشر پیدا ہونا تھا اس سے وہ قبل از وقت قابو پا لے گی۔ اس مقصد میں بھی وہ بظاہر کامیاب ٹھہرا۔

*نوازشریف کی تیسری کامیابی:*

سابقہ دونوں بار نوازشریف کی حکومت آرمی کے ہاتھوں گئی تھی۔ اس بار بھی اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کی حکومت آرمی کے ہاتھوں جائے تاکہ اگلےوہ الیکشن میں مظلومیت کا رونا رو کر دوبارہ جیت سکے۔ لیکن اِس بار آرمی کی بجائے عدالت نے اُسے اِقامہ کو بنیاد بنا کر حکومت سے الگ کر دیا۔ اپنی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعہ وہ فوج کو خراب کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ دھرنے میں حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس اور رینجرز کو استعمال کرنے کی بجائے چند گھنٹوں کے اندر اندر عجلت میں فوج اور دھرنا مظاہرین کو آمنے سامنے لانے کی سازش رچائی گئی، مگر فوج عوام کی طرح بدھو نہیں بنی اور حکومت کی فوج اور دھرنا مظاہرین کو آمنے سامنے لانے کی سازش ناکام ہوگئی۔ فوج نے اُلٹا حکومت سے تحریری وضاحت مانگ لی کہ اسے کس مقصد کے تحت بلایا جا رہا ہے۔ فوج نے موقف اپنایا کہ دھرنا مظاہرین سے نمٹنے کیلئے آرمی کو بلانے کی بجائے پولیس اور رینجرز کو مکمل طور پر استعمال کیا جائے۔ اس مقصد میں وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا مگر حالات مزید بگاڑنے میں کامیاب رہا تو آرمی کو لامحالہ آنا پڑے گا۔

*دیگر ضمنی فوائد:*

1. نوازشریف کے خلاف کرپشن کیسز کے حوالے سے میڈیا پہ بننے والی درگت کا عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہوجانا ایک الگ ضمنی فائدہ ہے۔

2. نوازشریف کو نکالنے میں عدالت نے اہم کردار ادا کیا، چنانچہ عدالتی احکامات کو بنیاد بنا کر دھرنے والوں کے خلاف آپریشن رنے سے عدالت کو متنازعہ بنانے میں اُسے کامیابی ملی۔

3. اگر فوج حکومت کے حکم پر عوام کے سامنے آ کھڑی ہوتی تو ایسی ہی ایک کامیابی اُسے فوج کو متنازعہ بنانے کی بھی ہو سکتی تھی۔

*نقصان کس کا ہوا؟*

اس سے قبل صرف ایک خاص مکتبہ فکر کے لوگ انتہاپسند شمار کئے جاتے تھے، جبکہ صوفیاء کی تعلیمات کا درس دینے والے اہلسنت کو بالعموم پرامن تصور کیا جاتا ہے۔ ممتازقادری ایشو کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع ہے کہ خادم رضوی صاحب کی گالم گلوچ اور 25 نومبر کے ہنگاموں کے بعد اس خاص مکتبہ فکر کے لوگ خوش ہیں کہ اُن پر لگا دہشتگردی اور انتہاپسندی کا اِلزام اہلسنت مکتبہ فکر کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔مغربی دنیا کو واضح طور پر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ صوفیاء کی تعلیمات کا درس دینے والے مین سٹریم مسلمان بھی وہابیت کے پیروکاروں سے کم متششد نہیں ہیں۔ گویا اسلام کے ماننے والے تمام گروہ شدت پسند اور انتہاپسند ہیں، جو غیرمسلموں کو بنیادی انسانی حقوق دینے کے خلاف ہیں۔

کاش پاکستانی عوام یہ سمجھ لیں کہ ایک آدھ وزیر کے استعفیٰ سے ناموسِ دین اور ناموسِ رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کبھی نہیں ہو سکے گا۔ اس کیلئے پورے نظامِ ظلم کو بدل کر تعلیماتِ دین کے مطابق منصفانہ نظام لانا ہوگا، جس نظام میں قوتِ نافذہ اہلِ حق کے پاس ہو۔ اے اللہ کریم ہمیں جذباتیت کے ساتھ ساتھ شعور کی دولت بھی عطا فرمائے۔ آمین


حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے ایک دوست کا تجزیہ
 
Top