فرقان احمد
محفلین
بابری مسجد کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے کیا؟ باتوں باتوں میں خیال آ گیا ۔۔۔ادھر بھارت کی ریاست نے اپنے آپکو مذہب سے الگ کر دیا
بابری مسجد کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے کیا؟ باتوں باتوں میں خیال آ گیا ۔۔۔ادھر بھارت کی ریاست نے اپنے آپکو مذہب سے الگ کر دیا
بابری مسجد کا معاملہ عدالت میں ہے پارلیمان میں نہیں۔ جو بھی سپریم کورٹ آف انڈیا فیصلہ کریگی، بھارتی باشندے اسپر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔بابری مسجد کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے کیا؟
بابری مسجد کا معاملہ عدالت میں ہے اور بابری مسجد وجود ہی نہیں رکھتی ۔۔۔ !!! معاملہ بہت پہلے کا نپٹ چکا۔بابری مسجد کا معاملہ عدالت میں ہے پارلیمان میں نہیں۔
جناب! جو وہاں ہوا، جو یہاں ہوا، اس میں مذہب کا عمل دخل کافی زیادہ ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو، آپ سیکولرازم کو کہاں رواج دیجیے گا؟ آپ کوشش کر دیکھیے! فیض آباد آپ کا منتظر ہے۔ ویسے ہمارا مشورہ ہے، انتہاپسندی کے بادل ذرا چھٹ لینے دیں۔
جی مذہب کا عمل دخل کافی زیادہ ہے لیکن یہ بھی دیکھئے کہ انڈیا کے آئین میں کسی مسلمان کو یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں فلاں ہندو عہد لو تب ہی تمہیں انتخاب لڑنے، کسی جگہ بھرتی ہونے یا ایک سچے انڈین کے طور پر مانا جائے گا۔ وہاں مسلمانوں کا ٹرمپ اسٹائل ڈیٹابیس بنانے کا مطالبہ بھی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ملکی امور میں مذہب کی شق شامل ہی نہیں ۔ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ہر ہندوستانی کہیں بھی انتخاب لڑ سکتا ہے، بھرتی ہو سکتا ہے، اور اسکی حب الوطنی کو ثابت کرنے کیلئے کسی ہندو پنڈٹ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔جناب! جو وہاں ہوا، جو یہاں ہوا، اس میں مذہب کا عمل دخل کافی زیادہ ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو، آپ سیکولرازم کو کہاں رواج دیجیے گا؟ آپ کوشش کر دیکھیے! فیض آباد آپ کا منتظر ہے۔
پاکستانی سیاست میں ایسا کچھ نہیں ہوتا یا ہونے والا! "سنی" فیکڑ جسے بریلوی کہنا اب زیادہ مناسب ہے پریشر گروپ تو بن سکتا ہے لیکن سویپ وغیرہ ہنوز دلی بہت دور است!
مجھے آپ سے اختلاف ہے لیکن یہ لڑی اس بحث کے لئے نہیں۔اول تو یہ خود قربانیاں دیتے نہیں دلواتے ہیں۔ دوسرا سرٹیفکیٹ والی بات بالکل درست ہے۔ مسلمان بنانے اور کافر قرار دینے کا دائم.ی سرٹیفکیٹ اس مولوی برادری کے پاس ہے۔ یہ خود جو چاہیں بکواس، گالی، گلوچ کرتے رہیں ، عاشقین رسول ٹھہرے ہیں۔ لیکن انکی برادری سے ہٹ کر کوئی ایسا سوچے بھی تو اسکا سرتن سے جدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ دھرنا ڈرامے کے بعد پاکستان کا ایک بڑا طبقہ ان کے اسلام کی دکان سے بھاگ کھڑا ہوا ہے اور اب اپنے طور پر ختم نبوت، احمدیت وغیرہ پر تحقیق کر کے ان پر تھو تھو کر رہا ہے۔
عوامی نمائندے کھڑے کرنا مشکل نہیں ہے، وہ تو ہر گلی میں بیسیوں تیار ہوتے ہیں۔ مسئلہ ووٹ حاصل کرنے کا بھی نہیں ہے، بہت سے معصوم ووٹرز مذہب اور ناموسِ رسالت کے نام پر ووٹ بھی دے دیں گے۔ مسئلہ جیتنے کا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ لیکن جب امیدوار کھڑا کر کے کچھ ووٹ لیں گے تو وہ ووٹ کسی نہ کسی دوسری پارٹی کو ضرور نقصان پہنچائیں گے، اور فی الحال لگتا یہی ہے کہ پنجاب کے دور دراز دیہاتوں میں یہ نقصان نون لیگ کو پہنچے گا۔آپکے خیال میں علما کرام جو گلی محلے میں اکٹھے نہیں ہیں، وہ اپنے عوامی نمائندہ اگلے الیکشن تک کھڑے کر پائیں گے؟
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انڈین سیاست، آر ایس ایس، جَن سَنگھ، بی جے پی، کانگریس کا اسی کی دہائی میں ہندو کارڈ، بابری مسجد وغیرہ پر آپ کا مطالعہ انتہائی محدود اور ناقص ہے۔
جس رفتار سے یہ لکھ رہے ہیں مجھے تو اور بھی بہت سے موضوعات پر ان کا مطالعہ ناقص لگنے لگا ہےمجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انڈین سیاست، آر ایس ایس، جَن سَنگھ، بی جے پی، کانگریس کا اسی کی دہائی میں ہندو کارڈ، بابری مسجد وغیرہ پر آپ کا مطالعہ انتہائی محدود اور ناقص ہے۔
متفق۔ بلکہ "لکھنا" بھی نہیں کہا جا سکتا۔کاپی پیسٹ کو مطالعہ کہا جا سکتا ہے؟
دھرنے سے قبل جناب خادم حسین رضوی سے واقفیت رکھنے والے لوگ اتنے زیادہ نہیں تھے۔ وہ آیا اور چھا گیا، کہ مصداق خادم رضوی نمودار ہوئے اور اپنے بلند آہنگ اور بے تکلف اندازِ گفتگو کے ساتھ مولانا نے اسلامی سیاست کا آغاز کیا۔ مولانا رضوی نے اعلان کیاتھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ہر جگہ سامنا کریں گے۔ جس کے بعد انہوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ ؐ کے قیام کے لئے الیکشن کمشن کو درخواست دی۔وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو شان ناموس رسالت کا چوکیدار' پہریدار اور خدمت گذار قرار دیتے ہیں یہی شناخت انہیں شہرت کے موجودہ مقام تک لے آئی۔عوامی نمائندے کھڑے کرنا مشکل نہیں ہے، وہ تو ہر گلی میں بیسیوں تیار ہوتے ہیں۔ مسئلہ ووٹ حاصل کرنے کا بھی نہیں ہے، بہت سے معصوم ووٹرز مذہب اور ناموسِ رسالت کے نام پر ووٹ بھی دے دیں گے۔ مسئلہ جیتنے کا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ لیکن جب امیدوار کھڑا کر کے کچھ ووٹ لیں گے تو وہ ووٹ کسی نہ کسی دوسری پارٹی کو ضرور نقصان پہنچائیں گے، اور فی الحال لگتا یہی ہے کہ پنجاب کے دور دراز دیہاتوں میں یہ نقصان نون لیگ کو پہنچے گا۔
جی مذہب کا عمل دخل کافی زیادہ ہے لیکن یہ بھی دیکھئے کہ انڈیا کے آئین میں کسی مسلمان کو یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں فلاں ہندو عہد لو تب ہی تمہیں انتخاب لڑنے، کسی جگہ بھرتی ہونے یا ایک سچے انڈین کے طور پر مانا جائے گا۔ وہاں مسلمانوں کا ٹرمپ اسٹائل ڈیٹابیس بنانے کا مطالبہ بھی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ملکی امور میں مذہب کی شق شامل ہی نہیں ۔ اپنی قابلیت کی بنیاد پر ہر ہندوستانی کہیں بھی انتخاب لڑ سکتا ہے، بھرتی ہو سکتا ہے، اور اسکی حب الوطنی کو ثابت کرنے کیلئے کسی ہندو پنڈٹ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
جبکہ ادھر پاکستان میں جگہ جگہ سرکاری فارمز پر مذہب کے سیکشن میں احمدیوں کا الگ خانہ ہے۔ الیکشن لڑنے جاؤ تو مولویوں کے تشریح والے ختم نبوت پر عہد لو نہیں تو کھڑے نہیں ہو سکتے۔ سرکاری جاب کرو تو احمدی ڈیٹابیس کا حصہ بن جاؤ۔ فوج میں جاؤ تو حب الوطنی پر طرح طرح کے سوالات کا نشانہ بنو۔ یہ ہے آپکا اسلامی پاکستان بمقابلہ سیکولر بھارت۔
کوئی شک نہیں، قبلہ!بلند آہنگ اور بے تکلف اندازِ گفتگو