پتہ کرو: عمران خان نیازی نے پھر اپنی ناقص علمی کا مظاہرہ کردیا؟

آصف اثر

معطل
جس دور میں آرڈیننس ۲۰ آیا اسی دور میں شرعی حدود آرڈیننس بھی آیا تھا۔ کیا کسی کو یاد بھی ہے کہ اس آرڈیننس کی وجہ سے کتنی بے گناہ خواتین کو سالہا سال جیلوں میں ڈالا جاتا رہا کیونکہ وہ اپنے خلاف ریپ کا مقدمہ پولیس میں لے کر گئی۔ مگر شرعی قوانین کے تحت الٹا انہی کو مجرم بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔
اگر اس وقت انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے حق کیلئے آواز نہ اٹھاتی تو مشرف دور میں بھی حدود آرڈیننس جوں کا توں رہتا۔
حیرت خیز طور پر اس وقت بھی علما کرام اور مذہبی جماعتوں نے حدود آرڈیننس میں ترامیم کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ کیسے ان قوانین کی وجہ سے خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ مگر وہ بضد رہے۔
اسی طرح حالیہ حکومت نے جب کمسن بچوں اور بچیوں کو تحفظ اور انصاف دلانے کی خاطر شادی کی کم سے کم عمر ۱۸ سال رکھنے کی کوشش کی تو علما کرام اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے پھر وہی روایتی شور شرابے کا سامناکرنا پڑا۔
اس تسلسل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ علما کرام اور ان سے منسلکہ مذہبی جماعتوں کو معاشرتی انصاف سے بالکل کوئی غرض نہیں ہے۔ اگر غرض ہے تو صرف اس سے کہ ان کی تشریح کے مطابق ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو رہا ہے یا نہیں۔
اگر آج عمران ناانصافی پر مبنی آرڈیننس ۲۰ ختم کردے تو علما کرام اور مذہبی جماعتیں پھر اپنی گھسی پٹی تاریخ دہرائیں گے۔
اب عارف کریم کے مراسلوں کا وہ دور شروع ہوگیا ہے جہاں سب کو ”آرڈیننس ۲۰ “ ”آرڈیننس ۲۰“ ہی لکھا نظر آئے گا۔ اوپر سے ”عارف کریم والا“ جن بھی بوتل سے باہر آگیا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اچھا پھر ان چنیدہ علما کرام کا نام ہی بتا دیں جنہوں نے قرار داد مقاصد، قادیانیوں سے متعلق آئینی ترامیم، اسلامی حدود آرڈیننس وغیرہ کی مخالفت کی ہو۔ تاکہ علما کرام سے متعلق اعتماد بحال ہو سکے۔
بغض معاویہ کا کوئی علاج نہیں۔ مسلمانوں کو ”ٹھیک“ کرنے کے بجائے قادیانی خود ہی کیوں نہ ٹھیک ہوجائے؟
 

جاسم محمد

محفلین
بغض معاویہ کا کوئی علاج نہیں۔ مسلمانوں کو ”ٹھیک“ کرنے کے بجائے قادیانی خود ہی کیوں نہ ٹھیک ہوجائے؟
ریاست مدینہ کے قیام کے وقت رسول اللہ کی سربراہی میں میثاق المدینہ نافذ کیا گیا تھا۔ اس وقت وہاں یہودی اور دیگر اقلیتیں بھی موجود تھیں۔ مجال ہے جو کسی ایک نے بھی اس شہرہ آفاق میثاق کی شقوں پر اعتراض کیا ہو کہ یہ ناانصافی پر مبنی ہیں۔
جبکہ ادھر اسلام اور مسلمانوں کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان میں:
  • قرارداد مقاصد پاس کرتے وقت ہندو اراکین اسمبلی تنگ آ کر بھارت چلے گئے تھے
  • آرڈیننس ۲۰ کے وقت قادیانی لیڈران تنگ آ کر انگلستان چلے گئے تھے
  • حدود آرڈیننس کے وقت انسانی حقوق کی تنظیمیں بل بلا اٹھی تھیں
مسئلہ کہیں اور نہیں موجودہ مسلمانوں کی قیادت میں ہی ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں غیر انصافی پر مبنی اسلامی شرعی قوانین نافذ ہوتے رہے اور اسلام کے نمائندہ علما کرام ان کو سپورٹ کرتے رہے۔
Constitution-of-Medina.jpg
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
جبکہ ادھر اسلام اور مسلمانوں کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان میں:
  • قرارداد مقاصد پاس کرتے وقت ہندو اراکین اسمبلی تنگ آ کر بھارت چلے گئے تھے
  • آرڈیننس ۲۰ کے وقت قادیانی لیڈران تنگ آ کر انگلستان چلے گئے تھے
  • حدود آرڈیننس کے وقت انسانی حقوق کی تنظیمیں بل بلا اٹھی تھیں
وضاحت کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
قرارداد مقاصد: بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے محض 6 ماہ بعد وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد اسمبلی میں پیش کی۔ جسے اسمبلی کے تمام ہندو اراکین نے یکسرمسترد کر دیا۔ اور تمام مسلم اراکین اسمبلی بشمول قادیانی اراکین (جو اس وقت تک غیرمسلم قرار نہیں دئے گئے تھے) نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
پاکستان کے قانونی مستقبل کی بربادی کا آغاز اسی قرارداد سے ہوا تھا۔
حوالہ

دوسری آئینی ترمیم 1974: بانی جمہوریت پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے دوسری آئینی ترمیم 1974 میں مسلمان ہونے کی تعریف وضع کر کے ملک کے تمام قادیانیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ۔ اس آئینی ترمیم کی بھی تمام مسلم اراکین نے حمایت کی جبکہ قادیانی مخالفت کرتے رہے۔
حوالہ

حدود آرڈیننس 1979: بانی جہاد و شریعت پاکستان جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں حدود آرڈیننس پاس کر کے ہزاروں بے گناہ خواتین کو زنا بالجبر کا انصاف مانگنے پر بدکاری کا مقدمہ دائر کر کے سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا ۔ یہ نا انصافیوں کا سلسلہ جنرل مشرف کے حقوق نسواں بل 2006 تک جاری رہا۔
حوالہ

اور وضاحت کروں؟
 

سید عمران

محفلین
یہ تو میں نے کہیں کہا ہی نہیں۔ میں نے یہ کہا تھا کہ اگر آج عمران خان لیاقت علی خان، بھٹو، ضیاء الحق دور کی طرح ان علما کرام کے تشریح کردہ اسلام کا نفاذ شروع کر دے تو یہی علما جو تنقید کر ر ہے ہیں اس کے سب سے بڑے حامی بن جائیں گے۔
کس کا تشریح کردہ اسلام نافذ کیا جائے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
عمران خان جب ریاست مدینہ اور اسلامی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کیونکہ قوم کو جو ان علما کرام نے اس سے متعلق پڑھا رکھا ہے وہ عمرانی نظریہ سے مختلف ہے۔
خود آپ ہی کے مطابق واضح ہوگیا کہ مذہب اسلام اور ہے اور عمرانی نظریہ اور!!!
 

سید عمران

محفلین
واقعی۔ ملک میں اصل اسلامی فلاحی ریاست تو ضیا دور میں نافذ ہوئی تھی۔ جب بینکوں سے سودی نظام کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔ ناچ، گانا، فحاشی کے اڈے ختم ہو چکے تھے۔ اسلامی شرعی حدود قوانین کا نفاذ ہو چکا تھا۔ آرڈیننس 20 کے تحت قادیانیوں پر شعائر اسلام استعمال کرنے کی پابندی لگ چکی تھی۔
وہ دور واقعتا پاکستان میں جنت نظیر اسلامی معاشرہ کی تاریخی مثال تھا۔
ہمیشہ کی طرح اصل جواب گول۔۔۔
کیا اسلامی ریاست کا قیام گانے بجانے اور بے پردہ عورتوں کو کھلے عام غیر مردوں کے ساتھ سڑکوں پرنچانے سے ہوگا؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
یہ تاریخ پاکستان سے صرف چند مثالیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسلامی شرعی قوانین کا نفاذ کرکے بھی ملک اسلامی فلاحی ریاست نہ بن سکا۔ کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک جہاں آج فلاحی ریاستیں قائم ہیں۔ وہاں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہے۔ بلکہ وہاں اسلامی اصول انصاف پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔
اسلامی شریعت اور اسلامی اصول کے درمیان فرق واضح کیا جائے!!!
 

آصف اثر

معطل
قرارداد مقاصد: بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے محض 6 ماہ بعد وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد اسمبلی میں پیش کی۔ جسے اسمبلی کے تمام ہندو اراکین نے یکسرمسترد کر دیا۔ اور تمام مسلم اراکین اسمبلی بشمول قادیانی اراکین (جو اس وقت تک غیرمسلم قرار نہیں دئے گئے تھے) نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
پاکستان کے قانونی مستقبل کی بربادی کا آغاز اسی قرارداد سے ہوا تھا۔
حوالہ
ہندو اراکین کا قرار داد مقاصد مسترد کرنا بےوقوفی اور چال تھا۔ اور نہ ہی کم و بیش ایک فیصد ہندوؤں کا کسی اسلامی ملک کی ایک ایسی قرار داد جس میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو، مسترد کرنا کوئی معنی رکھتا ہے۔

دوسری آئینی ترمیم 1974: بانی جمہوریت پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے دوسری آئینی ترمیم 1974 میں مسلمان ہونے کی تعریف وضع کر کے ملک کے تمام قادیانیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ۔ اس آئینی ترمیم کی بھی تمام مسلم اراکین نے حمایت کی جبکہ قادیانی مخالفت کرتے رہے۔
حوالہ
قادیانیوں کو کافر دلوانا بھٹو، اسمبلی اور علماءکرام کا ایک عظیم کارنامہ ہے جس پر امتِ مسلمہ ان کی تاقیامت ممنون رہے گی۔ قادیانی وہ گروہ ہے جن کے اپنے ہی اصول نہیں لہذا ایسے لوگ ہر جگہ مسترد کردیے جاتے ہیں، یہودی ان کو اپنے مقاصد کے لیے پال رہے ہیں۔

حدود آرڈیننس 1979: بانی جہاد و شریعت پاکستان جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں حدود آرڈیننس پاس کر کے ہزاروں بے گناہ خواتین کو زنا بالجبر کا انصاف مانگنے پر بدکاری کا مقدمہ دائر کر کے سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا ۔ یہ نا انصافیوں کا سلسلہ جنرل مشرف کے حقوق نسواں بل 2006 تک جاری رہا۔
حوالہ
یہ نفاذ کی کمزوری تھی حدود کی نہیں۔
 

سید عمران

محفلین
جس دور میں آرڈیننس ۲۰ آیا اسی دور میں شرعی حدود آرڈیننس بھی آیا تھا۔ کیا کسی کو یاد بھی ہے کہ اس آرڈیننس کی وجہ سے کتنی بے گناہ خواتین کو سالہا سال جیلوں میں ڈالا جاتا رہا کیونکہ وہ اپنے خلاف ریپ کا مقدمہ پولیس میں لے کر گئی۔ مگر شرعی قوانین کے تحت الٹا انہی کو مجرم بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔
اگر اس وقت انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے حق کیلئے آواز نہ اٹھاتی تو مشرف دور میں بھی حدود آرڈیننس جوں کا توں رہتا۔
حیرت خیز طور پر اس وقت بھی علما کرام اور مذہبی جماعتوں نے حدود آرڈیننس میں ترامیم کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ کیسے ان قوانین کی وجہ سے خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ مگر وہ بضد رہے۔
اس بارے میں اسی فورم پر سیر حاصل بحث ہوچکی ہے۔۔۔
(اگر فلسفی بھائی کو زحمت نہ ہو تو وہ لڑی تلاش کرکے پیش کرسکتے ہیں)
کم از کم اس قانون کی وجہ سے کسی عورت کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔۔۔
یہ محض آپ جیسوں کی ہرزہ سرائی ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
اس تسلسل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ علما کرام اور ان سے منسلکہ مذہبی جماعتوں کو معاشرتی انصاف سے بالکل کوئی غرض نہیں ہے۔ اگر غرض ہے تو صرف اس سے کہ ان کی تشریح کے مطابق ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو رہا ہے یا نہیں۔
اسلام معاشرتی انصاف فراہم کرنے کے خلاف ہے؟؟؟
 
Top