پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کا سیکولرزم

آج پتہ چلا کہ محفل پر عصبیت پھیلانے والے عناصر بھی کارفرما رہتے ہیں۔۔
البتہ مسئلہ پنجاب میں ہی ہے۔
اور مزے کی بات ہے باقی ملک کے کسی بھی صوبے میں کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں ۔۔پا جی بات وہیں ہوتی ہے جہاں کو ئی بات ہوتی ہے۔۔۔
 
میری نیت اور نظر میں اس میں کو نفرت پھیلانے والی بات نہیں ہے، عشروں سے یہ سیاسی رویہ موجود ہے، اس پہ بات ہی نہ کرنے سے ابتک تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
رویہ گر موجود ہے تو کیا کرنا چاہتے ہیں آپ بجھی آگ پے پیڑول ڈال کر تماشہ دیکھنا ہے ۔۔گھر جلیں گے لوگوں کے دل جلیں گے یہی تبدیلی دیکھنی ہے اسی کے خواہاں ہیں۔۔؟
 
آج اندازہ ہوا اور نہایت دکھ کے ساتھ ہوا کہ محفل پر نسلی عصبیت کا کوئی عنصر بھی کارفرما رہتا ہے۔ میں نے چودھری صاحب کے مراسلے کو ایک معروضی نگاہ سے دیکھا تھا اور وہ مجھے کافی صائب معلوم ہوا تھا۔ بلکہ اب تک ہوتا ہے۔ مگر غالباً اس کا کوئی پس منظر بھی ایسا ہے جس سے میں واقف نہیں اور جس کے باعث احباب نے زیادہ تر اسے کسی اور نظر سے دیکھا ہے اور دکھی ہوئے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ چودھری صاحب کے ملفوظات کو اس تکلیف دہ تناظر سے نکال کر دیکھا جائے تو وہ بڑے معنیٰ خیز ہیں۔ یعنی ہجرت کے عمل کے مضمرات واقعی وہی ہونے چاہئیں جو انھوں نے بیان کیے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مسلمان تعلیمی اور معاشی اعتبار سے پس ماندہ تھے۔ اسی باعث تو مسلم لیگ کو الگ سیاسی جدوجہد کی ضرورت پیش آئی تھی۔ پھر یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان کے علاقے بااثر ہندوؤں سے خالی ہو جانے کے باعث مقامیوں اور بالخصوص پنجابیوں کو فائدہ پہنچا اور ان کے ہاں تقسیم کی نسبت ایک اچھی رائے قائم ہوئی۔ سندھ میں آباد ہونے والے اردو گو مہاجرین بھی واقعی فوج میں رسوخ حاصل نہ کر پائے اور فوج کے غلبے کے ساتھ ساتھ ان کی حالت پتلی ہوتی گئی۔ یہ ایک ظلم تھا جس کا نتیجہ اگر لسانی سیاست کی صورت میں نکلا، جو لازمی طور پر غیرمذہبی ہونی چاہیے تھی، تو اس میں قصور مہاجرین کا ہرگز نہیں۔ مگر اس حقیقت سے انکار بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔
پھر جن لوگوں نے مہاجرین کی نمائندگی سنبھالی وہ ظالم اپنے ردِ عمل میں حد سے آگے نکل گئے۔ پنجاب میں بسنے والا ایک شخص تو اردو گو مہاجر اور الطاف حسین کو ہم معنیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ اس کے سامنے بدقسمتی سے اس سے زیادہ طاقتور اور بااثر نمائندہ کوئی نہیں ہے۔ دوسری جانب پنجاب میں مذہبی سیاست کا فروغ، جو صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو لے ڈوبا، شاید ممکن نہ ہوتا اگر پنجابی مذہبی بنیادوں پر ہندوستان کی تقسیم سے فائدہ نہ اٹھا چکے ہوتے۔ حالات دونوں طرف ردِ عمل والے رہے ہیں۔ کراچی کے مہاجرین نے زیادہ تر اپنا فائدہ لسانی اور بائیں بازو کی سیاست میں دیکھا اور مقامی پنجابیوں نے نظریاتی اور مذہبی سیاست میں۔ مجرم کوئی نہیں سوائے ریاست کے جو ان افتراقات کا تدارک کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی اور روز بروز ناکام تر ہوتی گئی۔
مہاجرین کے کسی گروہ میں ہجرت سے وابستہ معاشی فائدے کا خیال بھی ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی بری بات نہیں۔ مگر چودھری صاحب کے اس نکتے سے مجھے سخت اختلاف ہے کہ پاکستان ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ مجھے ان کے نظریات کا علم نہیں لیکن اگر ان کے رجحانات سیکولر بھی ہیں تو انھیں اس تاریخی حقیقت کو جھٹلانے سے گریز کرنا چاہیے کہ پاکستان غلط یا صحیح طور پر اسرائیل کی طرح ایک خالصتاً نظریاتی ریاست ہی ہے۔ سیکولر حضرات کا ایک بڑا طبقہ تو اسی بات کو تمام خرابیوں کی جڑ بھی سمجھتا ہے۔
میں اس بات کا کسی حد تک پنجاب میں بھی شاہد ہوں کہ تمام تر وسعتِ قلب کے باوجود مقامی لوگ مہاجرین سے تعصب روا رکھتے ہیں، پیٹھ پیچھے ہی سہی۔ خود میرے خاندان میں اپنے مقامی ہونے پر فخر کیا جاتا ہے اور میری تربیت میں بھی یہ چیز شامل رہی ہے۔ مگر مجھے کہنے دیجیے کہ یہ نہایت نیچ قسم کی ذہنیت ہے جس کے اظہار کی سزا قانوناً مقرر کر دی جائے تو مجھے بےحد خوشی ہو گی۔ وہ لوگ جو نسلاً بعد نسل ایک ہی علاقے میں نباتات کی طرح زندگی کرتے آئے ہیں حرکت اور ہجرت پر انگلی اٹھائیں تو اسے ان کی ذہنی معذوری اور بےاوقاتی گرداننا چاہیے اور ریاست اجازت دے تو کسی ایسے علاقے میں پھینک دینا چاہیے جہاں انھیں ہر وراثت سے محروم ہو کر ایک بالکل نئے آغاز کی مجبوری پیش آئے۔ پھر دیکھیں گے کہ کون مائی کا لعل چودھری بنتا ہے۔
مہاجر کی شناخت کے مسئلے پر میری رائے یہ ہے کہ یہ برقرار رہنی چاہیے۔ انھی قبائل کی طرح جن کا جواز اسلام میں موجود ہے۔ مگر اسی طرح جس کا جواز بھی اسلام میں ہے۔ یعنی محض پہچان کے طور پر۔
ان دونوں باتوں سے انکار میرے لیے بہت مشکل ہے کہ مقامیوں نے علیٰ العموم مہاجرین کے احساسِ محرومی میں اضافہ کیا ہے اور ریاستی سطح پر پنجاب نے باقی پاکستان کے تحفظات کو اکثر ہوا دی ہے۔ یہ مسائل قوم کی سطح پر محض زبانی ہمدردی کی لیپاپوتی سے حل نہیں ہو سکتے۔ نہ ایک دوسرے پر مسلسل الزام تراشی ہی سے کسی فائدے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔ ماضی کے غائر جائزے اور اپنے رویوں اور غلطیوں کے کھلے دل سے اعتراف کے بعد ہمیں اپنی توانائیاں اس قبیح نظام اور ان بےغیرت سیاست دانوں کے خلاف استعمال کرنی چاہئیں جو ہم سب کے کرب کے اصل ذمہ دار ہیں۔
جن احباب نے میری تحریر کو نفرت پر مبنی گرمانا ہے وہ راحیل فاروق صاحب کا یہ مراسلہ پڑھ لیں، انہوں نے بہتر طور پہ اس کو بیان کیا ہے۔ اگر اس میں کوئی بات خلاف حقیقت یا جائزے کی غلطی پاتے ہیں تو اس کی نشاندھی کر دیں۔ میں کم از کم اپنے تئیں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ منطقی بات کو قبول کرنے اور اس کی بنیاد پہ اپنے رائے بدلنے میں مجھے کوئی عار نہیں۔
 
ت کے ساتھ عرض ہے کہ جس طرح آپ پاکستانی ہونے کے باوجود ورک ہیں، لغاری ہیں، مزاری ہیں، اسی طرح ہم پاکستانی ہونے کے باوصف مہاجر ہیں، مہاجروں کی اولاد ہیں، اردو بولنے والے ہیں

یقین جانیے، یہ مہاجروں کی توہین ہے کہ ان سے کہلوایا جائے کہ وہ خود کو پاکستانی کہیں۔

آپ کے خیال میں مہاجر اپنے آپ کو پاکستانی نہیں کہتے تو ہندوستانی کہتے ہیں؟

مہاجر کی شناخت کے مسئلے پر میری رائے یہ ہے کہ یہ برقرار رہنی چاہیے۔ انھی قبائل کی طرح جن کا جواز اسلام میں موجود ہے۔ مگر اسی طرح جس کا جواز بھی اسلام میں ہے۔ یعنی محض پہچان کے طور پر۔
اس ضمن میں میں راحیل بھائی سے بالکل متفق ہوں کہ بطور شناخت مھاجرین بھائیوں کا خود کو مہاجر کہنا بجا ہے مگر مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مہاجر لفظ کو بطور سٹیٹس سمبل استعمال کیا جاتا ہے۔مہاجر مہاجر کا راگ الاپ کر کبھی خود کو مظلوم پینٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی احسان جتایا جاتا ہے۔میں ''ورک'' ہوں ''پنجابی'' ہوں لیکن میں نے کبھی اس بات پر فخر نہیں کیا۔
اب آپ کہیں گے کہ ایم کیو ایم اور ایچ اے خان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تو یہاں میں بھی یہ واضح کر دوں کہ مہاجروں کے ساتھ متعصبانہ رویہ رکھنے والی پست ذہنیت اور گھٹیا سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے لوگوں پر جو خود کو مہاجر بھائیوں سے رائی کے برابر بھی برتر پاکستانی سمجھتے ہیں۔
اور اگر بات کی جائے ظلم اور زیادتیوں کی تو یہ صرف مہاجروں کے ساتھ ہی نہیں ہوئیں۔
احساس محرومی تو بلوچستان کی عوام میں بھی پایا جاتا ہے۔ سندھ میں بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں کے دور حکومت میں تھر میں جو بچے بھوک اور پیاس کے باعث لقمہ اجل بنے کیا وہ مہاجر تھے؟۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک زرعی ملک میں لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جائیں۔پاکستان میں بلا امتیاز تمام کمزور طبقے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ 80 فیصد آبادی استحصال کا شکار ہے۔اور اس سب کے ذمہ دار ہمارے سیاست دان اور حکمران ہیں۔میری ذاتی رائے میں فالوقت ایک بھی سیاست دان حکومت کرنے کے لائق نہیں۔

میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخِ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد"
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

بہت خوب بھائی جان! علامہ کے شعر کا بر محل استعمال کیا ہے آپ نے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جس نظم کا یہ شعر ہے ہے اس کا عنوان بھی ''پنجابی مسلمان'' ہے۔
باقی باتیں بھی آپ نے بہت زبردست کیں جس کے لئے میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
تو اتنی جلدی بھی نہ اتریں کہ خود صیاد حیرت میں پڑ جائے :)
پیارے بھائی! ایسے چھوٹے موٹے شکاریوں کے دام میں آنے والا پنچھی نہیں ہوں میں۔
اگر آپ میرا ابتدائی مراسلہ دیکھیں تو میں نے واضح طور پر چوہدری صاحب کی بات کو رد کیا ہے۔ البتہ اپنی فطری تجسس پسندانہ طبیعت کے باعث سوال کرنا میری سرشت میں شامل ہے۔اور اس پر طرہ یہ کہ لفاظی کا ہنر بھی نہیں جانتا۔
خیر اگر میری کسی بات سے آپ کی یا کسی مہاجر بھائی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں تعصب، بغض، کینہ، فرقہ پرستی، گروہ بندی اور صوبائیت پسندی جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھے!

ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
 
آخری تدوین:
جو بھی ہے اگر کوئی مہاجر سے نفرت کرتا ہے تو اسکی مرضی

پاکستانی اور مسلم مہاجر سے محبت کرتے ہیں کہ احسان کا بدلہ بھی احسان ہے
 

عباس اعوان

محفلین
صاحب نظر ہیں آپ ماشاءاللہ۔۔۔موم کے منے نہیں ہیں سب۔۔۔
اگر آپ اپنا مطمعِ نظر بیان کریں تو مجھے آسانی ہو۔
میں نے ایچ اے خان صاحب کے مراسلے کے جواب میں صرف اتنا لکھا کہ مہاجر اصلی پاکستانی ہیں تو باقی بھی اصلی پاکستانی ہیں، نقلی نہیں ہیں۔ اس میں خدا جانے کیا مضحکہ خیز بات آپ کو دکھائی دی، عنایت فرما کر کچھ شرح کریں تو پتا چلے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اب آپ کہیں گے کہ ایم کیو ایم اور ایچ اے خان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تو یہاں میں بھی یہ واضح کر دوں کہ مہاجروں کے ساتھ متعصبانہ رویہ رکھنے والی پست ذہنیت اور گھٹیا سوچ رکھنے والوں کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
محترم ایچ اے خان کو بے پناہ داد! گویا اُن کی فکر سے الگ ہونا ہر ایک کے لیے ضروری ہے چاہے وہ مہاجر ہو یا نہ ہو۔ :) دراصل ہمیں تعصب روا ہی نہیں رکھنا چاہیے۔ اب یہ رویہ بھی تو غلط ہوتا ہے کہ ہر اگلی پوسٹ میں خود کو مہاجر کہا جائے۔ ہم مانتے ہیں کہ مہاجر برادری کے ہم پر احسانات ہیں تاہم محترم ایچ اے خان نے اس حوالے سے بے جا تکرار کر کے مہاجر برادری کا کیس بھی کمزور کر دیا ہے۔ بہرصورت، آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوئی ہے۔ سلامت رہیں جناب ظہیر عباس ورک صاحب!
 

الف نظامی

لائبریرین
عشق کے رنگ میں رنگ جائیںمہاجر ہو کہ پختون وبلوچی ہو کہپنجابی و سندھی کسی خطے کی قبیلے کی زباں اس سے نہیں کوئی سروکار
جامۂ عشق محمد جو پہن لیتا ہے، ہرخار کو وہ پھول بنا لیتا ہے، دنیا کو جھکا لیتا ہے، کرتا ہے زمانے کو محبت کا شکار

یہ مہاجر کی ہے صف اور یہ پنجابی کی پختون کی سندھی کی بلوچی کی جدا ، پڑھ کے دکھاؤ تو کسی شہر کی مسجد میں کبھی ایسی نماز
حرم کعبہ میں عرفات کے میدان میں یا روضہ سرکار پہ کیوں شانے ملاتے وہاں کرتے نہیں رنگ کا اور نسل کاتم اپنی شمار
 
اگر آپ اپنا مطمعِ نظر بیان کریں تو مجھے آسانی ہو۔
میں نے ایچ اے خان صاحب کے مراسلے کے جواب میں صرف اتنا لکھا کہ مہاجر اصلی پاکستانی ہیں تو باقی بھی اصلی پاکستانی ہیں، نقلی نہیں ہیں۔ اس میں خدا جانے کیا مضحکہ خیز بات آپ کو دکھائی دی، عنایت فرما کر کچھ شرح کریں تو پتا چلے۔
غصہ کیوں کرگئے ہیں لالہ جی ۔۔۔۔پلاسٹک کے بنے پے کہہ دیا اصل یہی ہے کہ سارے ہی اصل ہیں نقل کوئی نہیں ۔۔۔صرف مہاجر ہی پاکستانی نہیں ہیں۔۔۔زیادہ ہی دل پر لے گئے ہیں تو میں ریٹنگ تبدیل کر دیتا ہوں۔۔دھیرج رکھیں میرا موقف۔۔آپ سے مختلف نہیں ہے ۔۔۔
 
آخو، باقی سارے تے پلاسٹک دے بنے ہوئے نیں نا!!!
جی، باقی سب تو پلاسٹک کے بنے ہوئے ہیں نا!!!
اب ٹھیک ہے ۔۔۔؟؟ پر مزح کی ریٹنگ کر دی ہے ۔۔۔تسلا رکھیے جناب والا ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں۔۔۔
 
غصہ کیوں کرگئے ہیں لالہ جی ۔۔۔۔پلاسٹک کے بنے پے کہہ دیا اصل یہی ہے کہ سارے ہی اصل ہیں نقل کوئی نہیں ۔۔۔صرف مہاجر ہی پاکستانی نہیں ہیں۔۔۔زیادہ ہی دل پر لے گئے ہیں تو میں ریٹنگ تبدیل کر دیتا ہوں۔۔دھیرج رکھیں میرا موقف۔۔آپ سے مختلف نہیں ہے ۔۔۔
اب ٹھیک ہے ۔۔۔؟؟ پر مزح کی ریٹنگ کر دی ہے ۔۔۔تسلا رکھیے جناب والا ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں۔۔۔
میری رائے میں سب سے بری ریٹنگ :مضحکہ خیز" ہی ہے۔ بعض اوقات پرمزاح کی ریٹنگ بھی مثبت ہونے کے باوجود "مضحکہ خیز" ہی لگتی ہے۔ بہتر ہے کہ غم ناک دے دی جائے۔ :)
 
میری رائے میں سب سے بری ریٹنگ :مضحکہ خیز" ہی ہے۔ بعض اوقات پرمزاح کی ریٹنگ بھی مثبت ہونے کے باوجود "مضحکہ خیز" ہی لگتی ہے۔ بہتر ہے کہ غم ناک دے دی جائے۔ :)
متفق صاحب ایک سو ایک صد متفق۔۔کبھی خیال نہیں کیا آج آپ نے کہاتو سوچ و فکر کا لولہ لنگڑا خچر دوڑایا۔۔( گھوڑا تو ہے نہیں) بات آپ کی ٹھیک ہے ۔۔۔
 

شاید یہ گزارش بھی اس سے پہلے کہیں کر چکا ہوں کہ انسانی گروہوں کی پہچان کے حوالے سے دو تین طرح کے عام قواعد موجود ہیں ۔ یہ مکمل طور سے ایک عمرانی مسئلہ ہے ۔ عموماََ لوگ اپنے بود وباش کے علاقے، خاندان میں گزری ہوئی کسی بڑی شخصیت یا کسی خاص واقعہ یا افعال سے منسوب ہوتے ہیں جبکہ نظریاتی انتساب ان سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ پہلی مثالوں میں عربی، ہندی، سندھی، انگریز،امریکی اور دیگر نام شامل ہیں جن سے کسی خطہء زمین کا پتا ملتاہے۔ شخصیات کے حوالے سے چاکر، رند، بنو ہاشم، بنو امیہ، رضوی، صدیقی اور دیگر ناموں سے خاندان میں گزری ہوئی معتبر شخصیات کا پتا ملتا ہے۔ واقعات کے حوالے سے بنو خزاعہ، مہاجرین مکہ،انصارِ مدینہ، حوارین عیسیٰ علیہ سلام ، اصحابِ رسول ﷺ ، اور بہت سے دیگر انسانی گروہوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ نظریاتی ناموں میں مارکسی، سرخے، صہیونی، زرتشی ، مانیین، وغیرہ سے اندازہ ہو جاتاہے ۔ یہ وہ مثالیں ہیں جو سرِ دست یہ میسؑر ہیں ذرا غور و فکر سے مزید مثالیں بھی آجائیں گی۔

دہری تہری پہچان بھی انسانوں کے درمیان ایک عام رواج کی بات ہے ۔ ایک مصری سے پوچھیں تم مصری ہو؟ کہے گا جی، پوچھیں اخوانی ہو ، کہے گا جی، پوچھیں شہری ہو؟ کہے گا جی ، پوچھیں مسلمان ہو، کہے گا جی، پوچھیئے سنی ہو کہے گا جی ، اسی نوعیت کے سوال ایک روسی سے کرکے دیکھ لیجئے۔ الغرض یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بہت سے انسانی گروہ ایک سے زیاد پہچان رکھتے ہیں جن میں سے کچھ روایتی ہوتی ہیں ، کچھ خاندانی ، کچھ علاقائی، کچھ نظریاتی کچھ واقعاتی۔ اس اصول کے تحت تو پاکستان میں موجود "مہاجروں" سے کسی نوعیت کا سوال نہیں ہونا چاہیئے ۔ ہاں اس کے علاوہ کچھ بنیادی سوال ضرور ذہن میں آتے ہیں کہ ، الف) اس پہچان کی ضرورت کیا تھی؟ ب) ہجرت تو بہت سے لوگوں نے کی ہے کیا وہ تمام "مہاجر" کی اصطلاح کو پہنچتے ہیں ؟

ان سوالات کا سلسلہ یہیں روک دیں ، ہم اس پر بعد میں بات کریں گے، اب آئیں اس طرف کے کراچی کے سیاسی ، اقتصادی اور جغرافیہ کے مسائل کیا رہے ، ایم کیو ایم کیونکر وجود میں آئی ، کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم کو کیوں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تو وہ لوگ جن کے سن پیدائش میں نو کا ہندسہ ہی نہیں آتا وہ تو حالات سے واقعات سے نابلد ہی ہونگے۔ پچھلی صدی میں پیدا ہونے والے وہ حضرات جنہوں نے اس نئی صدی کے سر پر ہاتھ پھیر کر خوش آمدید کہا ہے وہ یقیناََ تمام معاملات سے از خود واقف بھی ہونگے اور اب تک ہماری طرح چلتی پھرتی کراچی کی تاریخ بن گئے ہوں گے ۔ اس سے پیشتر کہ میں اس حوالے سے اپنی رائے دوں بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے سیاسی رجحانات کا بیان کروں تاکہ کوئی ابہام نہ رہ سکے ۔ بحثیت سیاسی جماعت کے مجھے ایم کیو ایم کی بعض پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور کچھ پالیسوں کی حمائت بھی کرتا ہوں ، یہی معاملہ مسلم لیگ نون کے ساتھ ہے ، ان کی کچھ پالسیوں سے اختلاف ہے اور بہت سی پالیسیوں پر بھرپور حمائت کرتا ہوں ۔ پیپلز پارٹی کی بہت کم پالیسیوں کی حمائت ہے جبکہ بہت ساری پالیسیوں سے شدید اختلاف ہے ، بین بین کا رجحان عمران خان کے ساتھ بھی ہے۔ الغرض سیاسی جماعتوں کو معروضی حالات کے تحت دیکھنے کا قائل ہوں ۔

اب آئیے تقسیم ہند کے معاملے پر ، آپ تمام حضرات تاریخ کا اچھا مطالعہ رکھتے ہیں اس لئے محض اشارہ کردینا ہے کافی ہے کہ تحریک پاکستان کا مرکز موجودہ پاکستان کے کسی ایک صوبے کو نہیں کہا جاسکتا۔ انڈیا سے ہجرت کرنے والوں کی بابت یہ پڑھنا کہ انہیں کوئی اقتصادی دلچسپی ہو سکتی ہے قدرے حیرت انگیز رہا ۔ آج کل کے بچوں نے تو یہ جملہ فقط درسی کتب میں پڑھا ہوگا کہ "پاکستان ہمارے بزرگوں نے بہت سی قربانیوں کے بعد حاصل کیا" لیکن میری عمر کے بہت سے پاکستانی اس جملے میں موجود درد کو ، تکلیف کو محسوس کرسکتے ہیں ۔ یعنی خود راقم السطور نے اپنے گھر میں بچھڑنے والوں کا ماتم دیکھا ہے ، اپنی اولاد کی یاد میں بلکتے سسکتے والدین دیکھیں ہیں، یہ ایسے تکلیف دہ مناظر ہیں کہ جنہیں تحریر کرنا یا یاداشت میں تازہ کرنا بھی دل گردے کا کام ہے ۔ پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے جو قربانیاں دی گئیں کم از کم ہماری نسل کے پاس اس کی براہ راست معلومات اور احساس موجود ہے۔ اب بھی پاکستان میں ایسے بزرگ موجود ہیں جو تقسیم کے وقت جوان تھے ۔ خود ہمارے حلقہء احباب میں کم از کم تین افراد ایسے ہیں جو انیس سو سینتالیس میں مکمل جوان تھے تمام تر حافظہ کے ساتھ آج بھی ہم میں تشریف رکھتے ہیں ۔

تاریخ کا علم رکھنے والوں کیلئے یہ بات سمجھنا کسی بھی درجے میں دشوار نہیں ہوسکتی کہ انڈیا سے ہجرت کرنے والے لوگ کئی کئی نسلوں سے انڈیا میں آباد تھے ۔
 
آپ کی اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ پہچان کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ عام طور پہ لوگ اس بات کا ادراک کم رکھتے ہیں اور پہچان کو ایک ازلی صداقت گردانتے ہیں۔ اس پہ طرہ سیاسی نعرہ بازی اور جنگو ازم اور دوسری قومیتوں کا تفاخر اسے ہوا دیتا ہے۔
پہچان کی مختلف جہتیں حالات کےمطابق کم یا زیادہ اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔ میرے خیال میں اس کا انحصار اس بات پہ ہوتا ہے کہ کونسی جہت انسان کی بنیادی خواہشات کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ اس میں معاش سر فہرست ہے، اس کے علاوہ سماجی تعلقات، عزت، فرحت وغیرہ۔ آج جن سرحدوں، قومیتوں اور نظریات کو لوگ اپنی جان سے زیادہ عزیز مانتے ہیں، چند عشرے پہلے ان کا وجود بھی نہ تھا۔
ہجرت کی تکلیف سے میں بخوبی واقف ہوں، میرے ننھیال نے مشرقی پنجاب سے ہجرت کی، اور جن حالات کا سامنا کیا، وہ روہنگیا اور برما کے مسلمانوں سے کسی طور کم نہیں۔
جہاں تک اقتصادی دلچسبی کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا پہلو ہے جو ہمارے ادیبوں نے مکمل نظر انداز کیا ہے۔ شاید ہماری ناگفتہ بہہ حالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس اہم نقطے کو خدائی نعمت گردانتے ہیں۔ بہرحال میں نے جو تھوڑی بہت تاریخ پڑھی ہے، اس کے مطابق لیاقت علی خان نے مہاجرین کیلئے سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مقرر کیا تھا۔ وسطی ہند سے ہجرت ۵۱ تک جاری رہی، جو کہ وہ وقت تھا جب سرحدوں پہ نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا۔
 
وہ احسانات گنوائیے تو سہی؟؟
پاکستان بنانے کی مہم ۔
1857 کی جنگ ازادی
خلافت تحریک۔ ہر دس سال بعد ایک ازادی کی تحریک
قرارداد پاکستان
1946 کے الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ کوجتوانا جب کہ وہاں یونیسسٹ کی حکمرانی تھی جو کہ کانگریس کی حامی تھی۔ اس کمپین میں لوگ کام کرنے کے لیے یوپی سی پی سے ائے تھے
بالاخر پاکستان کا قیام ۔ یہ سب احسان ہیں مہاجروں کے
 
Top