اب آپ
مقدس بٹیا رانی کو یہ بھی بتائیں کہ آپ کو "غم جاناں" کا عارضہ کب لاحق ہوا؟ اور اس کے علاج کے لئے آپ نے اب تک کیا اقدامات اٹھائے؟ کسی ڈاکٹر(نی) سے رابطہ کیا؟
میرا انٹرویو کرنے کے لیے الگ دھاگہ کھول لو
وہ غمِ جاناں ہو کہ بمِ جاناں۔۔۔ جب لگ جاتا ہے تو آدم زاد کو کھا جاتا ہے، بقول امجد اسلام امجد:
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
اس شعر (اور فلسفے) کی رو سے دیکھا جائے تو ہمیں غم لگ ہی نہیں سکا، نگلنا تو دور کی بات۔۔۔ اور نگل نہیں سکا تو ہضم بھی کیسے کرتا اور ڈکار بھی کیسے لیتا پھر؟؟ اور یوں بھی ڈکارنے کے لیے اسے "ہاجمولا" کی ضرورت ہوتی۔ کہ اس قدر زود ہضم تو ہم ہیں نہیں۔ یہ تو رہی بات غم کی۔۔اب جہاں تک تعلق ہے جاناں کا، تو وہ ہمیں تو ہوائے درِ یار کی مانند چھو کر بھی نہیں گزری۔ ورنہ تو ہم یہی گنگنا رہے ہوتے:
چھو کر میرے من کو کِیا تو نے کیا اشارہ،
بدلا یہ موسم، لگے پیارا جگ سارا۔۔۔
جگ تو ویسے ہی پیارا ہے۔۔کسی کے چھو کر گزرنے سے کیا پیارا لگنا ہے؟ ہمیں تو جگ اسی وقت سے پیارا لگنے لگا تھا جب ہم خود بھی پیارے ہوتے تھے (واضح رہے یہ پانی کا جگ نہیں ہے)۔ اپنے اسی پیارے پن کا زعم تھا (اور ہے) کہ ہم نے کسی کو اجازت نہیں دی کہ ہمیں (یا من کو) چھو کر گزرے۔
اب جست لگا کر آئیے عارضے کی طرف۔ اللہ کا شکر ہے کہ عوارض و لواحق سے ہم قدرے محفوظ و مامون ہیں۔ اور آئندہ بھی یہ مطلع صاف رہنے کا امکان ہے۔ ہاں کبھی کبھار افق پر بادلوں کی ہلکی سی لکیر نمودار ہوتی ہے تو مطلع ابر آلود کا لگنے لگتا ہے مگر بن برسے ساون کے مہینے بیت جاتے ہیں۔
ڈاکٹر (نی) سے تو نہیں ۔۔ البتہ ڈاکٹر (نیوں) سے تو ہم رابطے میں رہے ہیں، کہ یہ رابطے کی بات ہے چلتی رہے اگر۔ مگر یہ ربط و ضبط علاج و معالجے کے بجائے فقط تشخیص و تشویش تک ہی محدود رہا ہے