کالج کا دور تھا ۔ مجھے بیرونِ ملک جانے کی ضرورت پڑی تو ایک ٹریول ایجنسی جانے کا اتفاق ہوا ۔استقبالیے پر ایک انتہائی حسین خاتون کو دیکھ کر سکتے کی حالت میں رہ گیا ( آج تو وہ خاتون ہی ہونگیں ) ۔ ۔۔۔۔ خیر میں نے ٹکٹ وغیرہ خریدا اور واپس ہوا ۔ عادت کے مطابق شرارت سوجھی ۔ وہیں کال ملائی ۔ موصوفہ نے اٹھایا اور کہا " ہیلو " ۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا " دل لے لو " ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اس نے فوراً جواب دیا ۔۔۔ آجایئے لے جایئے ۔ ٹکٹ تو آپ پہلے ہی لے جاچکے ہیں ۔ میں نے گھبرا کر فون فوراً رکھ دیا ۔ پتا نہیں اس نے مجھے کس طرح پہچان لیا تھا ۔ ہاں مگر اس کے بعد پھر ایسی چھیڑ چھاڑ کسی اور سے نہیں کی ۔
چلو یار میں ایک واقعہ بتا دیتا ہوں۔
فیصل آباد میں ایگریکلچرل یونیورسٹی ہے میں اکثر سائیکل پر اس یونیورسٹی سے گذر کر کام پر جایا کرتا ہے۔ قریب ایک سال پہلے کی بات ہے جب میں جا رہا تھا کہ چار لڑکیاں ادھر سے نظر آئیں جو کہ بہت زیادہ فیشن ایبل (بہت ہی پتلے ) کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ سر پر ڈوپٹہ بھی نہیں تھا ۔ بال کھلے ہوئے ، چہروں پر نت نئے انداز کے چشمے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے ہی ایک اور خاتون آرہی تھی جو کہ کافی پڑھی لکھی لگ رہی تھیں اور لباس بھی سادہ تھا سر پر ڈوپٹہ بھی تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان فیشن ایبل لڑکیوں کو سمجھاؤں۔
پھر کیا میں نے جا کر سلام کہا اور یہ بتایا کہ آپ ان ملبوسات میں بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی آپ کو چاہئے کہ سادہ لباس پہنئے جس سے کم از کم جسم کی نمائش نہ ہو ۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ آپ سر پر ڈوپٹہ کیوں نہیں لیتیں؟
ارے کیا شمشاد بھائی !
بس پھر کیا وہ چاروں لڑکیاں جوتیاں اٹھائے میرے پیچھے بھاگنے لگی ۔ میں نے پورے زور سے سائیکل چلانا شروع کر دیا ۔ اتنے میں کیا ہونا تھا مجھے دو جوتیاں لگ گئیں۔ جوتیاں لگتے ہی میں نے سائیکل اور تیز کر لیا۔ آخر جب میرے سائیکل کی رفتار تھوڑی تیز ہوئی تو میں بچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ اگر میں سائیکل پر نہ ہوتا تو وہ چاروں لڑکیاں میرا کچومبر بنا دیتیں۔
بھئی اللہ ہی بچائے ان فیشن ایبل لڑکیوں سے ۔
شمشاد بھائی شکر کیجئے کہ میں ان کے چنگل میں نہیں پھنسا ۔ آپ کو جوتیوں کی پڑی ہے ۔ جب پڑتی ہیں تو یاد نہیں رہتا کہ الگ الگ تھیں یا ایک ہی طرح کی تھیں۔
چلو یار میں ایک واقعہ بتا دیتا ہوں۔
فیصل آباد میں ایگریکلچرل یونیورسٹی ہے میں اکثر سائیکل پر اس یونیورسٹی سے گذر کر کام پر جایا کرتا ہے۔ قریب ایک سال پہلے کی بات ہے جب میں جا رہا تھا کہ چار لڑکیاں ادھر سے نظر آئیں جو کہ بہت زیادہ فیشن ایبل (بہت ہی پتلے ) کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ سر پر ڈوپٹہ بھی نہیں تھا ۔ بال کھلے ہوئے ، چہروں پر نت نئے انداز کے چشمے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے ہی ایک اور خاتون آرہی تھی جو کہ کافی پڑھی لکھی لگ رہی تھیں اور لباس بھی سادہ تھا سر پر ڈوپٹہ بھی تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان فیشن ایبل لڑکیوں کو سمجھاؤں۔
پھر کیا میں نے جا کر سلام کہا اور یہ بتایا کہ آپ ان ملبوسات میں بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی آپ کو چاہئے کہ سادہ لباس پہنئے جس سے کم از کم جسم کی نمائش نہ ہو ۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ آپ سر پر ڈوپٹہ کیوں نہیں لیتیں؟
ارے کیا شمشاد بھائی !
بس پھر کیا وہ چاروں لڑکیاں جوتیاں اٹھائے میرے پیچھے بھاگنے لگی ۔ میں نے پورے زور سے سائیکل چلانا شروع کر دیا ۔ اتنے میں کیا ہونا تھا مجھے دو جوتیاں لگ گئیں۔ جوتیاں لگتے ہی میں نے سائیکل اور تیز کر لیا۔ آخر جب میرے سائیکل کی رفتار تھوڑی تیز ہوئی تو میں بچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ اگر میں سائیکل پر نہ ہوتا تو وہ چاروں لڑکیاں میرا کچومبر بنا دیتیں۔
بھئی اللہ ہی بچائے ان فیشن ایبل لڑکیوں سے ۔
کسی ایسے بندے سے پوچھنا پڑے گا جس نے کھائی ہو