کیا آپ نے کبھی کسی کو چھیڑا

میں نے بجلی سے چھیڑ چھاڑ کی بات نہیں کی۔ راہ چلتے چھیڑ چھاڑ کی بات کی ہے۔

سمجھتے سارے ہیں لیکن بھولے بن رہے ہیں۔

میں نے ایک ہی دفعہ ایک لڑکی کو چھیڑا تھا، اس نے گھر میں آ کر شکایت لگا دی۔ گھر والوں نے میرا اس سے نکاح کروا دیا۔ اس کے بعد کسی کو چھیڑنے کی ہمت ہی نہ رہی۔ اگر دوبارہ کسی کو چھیڑتا اور وہ بھی گھر آ کر شکایت لگا دیتی تو سوچیئے کیا ہوتا۔ اس لیے پہلی چھیڑ کے بعد ہی توبہ کر لی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن پھر کسی کو نہیں چھیڑا۔
اللہ ایسے گھر والے سب کو دے:grin:
 

آفت

محفلین
ہاہاہاہاہاہا بھائی شکر کریں کہ آپ نے لڑکیوں کے گروپ کو نہیں چھیڑ دیا ورنہ آپ کا تو نہیں ہاں آپ کے گھر والوں کو مسئلہ ہو جاتا ۔ ویسے سزا اچھی تجویز کی آپ کے گھر والوں نے ۔
میں نے بجلی سے چھیڑ چھاڑ کی بات نہیں کی۔ راہ چلتے چھیڑ چھاڑ کی بات کی ہے۔

سمجھتے سارے ہیں لیکن بھولے بن رہے ہیں۔

میں نے ایک ہی دفعہ ایک لڑکی کو چھیڑا تھا، اس نے گھر میں آ کر شکایت لگا دی۔ گھر والوں نے میرا اس سے نکاح کروا دیا۔ اس کے بعد کسی کو چھیڑنے کی ہمت ہی نہ رہی۔ اگر دوبارہ کسی کو چھیڑتا اور وہ بھی گھر آ کر شکایت لگا دیتی تو سوچیئے کیا ہوتا۔ اس لیے پہلی چھیڑ کے بعد ہی توبہ کر لی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن پھر کسی کو نہیں چھیڑا۔
 

شمشاد

لائبریرین
چلیں جی پھر سے شروع ہو جائیں اور جو اراکین اس دھاگے پر پہلے نہیں آئے وہ آئیں اور اپنے تجربات سے آگاہ کریں۔
 

محمد امین

لائبریرین
ہمممم کافی واقعات ہونگے، مگر اس قسم کے نہیں کہ جن میں ہم نے کسی کو "چھیڑا" ہو۔۔۔ایک واقعہ یاد آیا۔۔

نویں جماعت کا ذکر ہے۔ ہم شام میں کوچنگ سینٹر میں پڑھتے تھے۔ مغرب کے بعد کا وقت تھا، ہم کوچنگ میں داخل ہی ہوئے تھے کہ بجلی نے داغِ مفارقت دے دیا۔ اب سامنے گھپ اندھیرا اور ایک عدد زینہ درپیش تھا اور ہم لڑکے قطار بنا کر اندر جا رہے تھے۔
اور اس قطارِ بے مہار کی قیادت ہمارے ہاتھوں میں تھی۔ اچانک ہمیں سامنے کے رخ سے صنفِ مخالف کی بو آتی محسوس ہوئی۔ ہم ہمیشہ ہی سے شرمیلے واقع ہوئے ہیں اور صنفِ نازک کے سامنے تو آواز، بدن اور ٹانگوں پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔
ہم لجاتے ہوئے سمٹ کر زینے کے پہلو سے چمٹ گئے کہ نہ پیش قدمی کرسکتے تھے اور نہ پسپائی اختیار کرنے کا چارہ تھا۔ یکلخت ہماری آنکھوں میں تارے ناچ گئے کیوں کہ ایک نازک سے ہاتھ نے ہمارا گال ذرا زور سے سہلا دیا تھا۔
واقعہ یہ تھا کہ سمٹنے اور لجانے میں ہمارا ہاتھ انجانے میں دشمن کے ہراوّل دستے کی سپہ سالار کے ہاتھ پر پڑ گیا تھا۔ یہ وار کر کے وہ تو آگے بڑھ گئیں اور دوست ہم سے یہ پوچھتے رہ گئے کہ کیا ہوا یہ آواز کیسی تھی؟؟
ایک ستم ہم پر تھپڑ کی صورت میں ہوا۔۔۔اور دوسرا ستم یہ کہ ہم اس جفا پیشہ کی صورت اور نام تک سے واقف نہیں۔

جب دوستوں کو یہ قصہ بتایا تو سب ہی نے اس نازک سے ہاتھ کا حظ اپنے اپنے گال پر محسوس کیا اور طرح طرح کے مشورے دیے:
"ابے تو بھی گھما کے چماٹ لگا دیتا"۔۔۔۔۔"ابے ہاتھ پکڑ کر مروڑ دیتا"۔۔۔
اور باقی مشورے نہ ہی ہمارے لیے قابلِ عمل تھے اور نہ ہی قابلِ اشاعت۔

ہم بھی ایک مدت تک اس لمس کے خمار میں رہے اور امید کی کہ کبھی تو وہ ستمگر ملے اور کہے "ہم سے بھول ہوگئی۔۔۔ہم کا مافی دئی دو"

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی :)۔۔ انسان چاہے کتنا ہی شرمیلا ہو، دلِ ناداں کی امیدیں بڑی ہوتی ہیں :noxxx:
 
Top