میرے پاس نہ تو شرارتیں کرنے کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی اتنا فتین اور شرارتی دماغ رکھتا ہوں۔ اس کے باوجود کبھی کبھار دوسروں کی شرارتوں کا شکار ہو ہی جاتا ہوں۔
تقریباً ایک ماہ پہلے اپنی کلاس کا ٹرپ گوا لے گیا تھا۔ سنجیدہ اور ذمہ دار ترین ہونے کا خطاب دیکر مجھے میر کارواں منتخب کیا گیا۔ وہاں دو روز بعد ہوٹل کے کلرک نے سبھی کا شناخت نامہ طلب کیا اور انکی فوٹو کاپی کرنے کیلئے ان کے کناروں پر ٹیپ چسپاں کر دیئے۔ ان میں کچھ غیر مجلد (unlaminated) بھی تھے جو ٹیپ چپکنے کے باعث خراب سے لگنے لگے۔ اس بات کو لیکر میں کلرک کو ڈانٹنے لگا۔ تب تک میرے خلاف سبھی بچوں (مع اساتذہ) نے پرگرام ترتیب دے لیا۔ اور خاموشی سے مجھے لان میں طلب کرکے ایک صاحب نے فون کرنے کے بہانے میرا فون مانگ لیا۔ اور سب لوگ کہنے لگے کہ لاؤ گروپ فوٹو لیتے ہیں سوئمنگ پول کے کنارے۔ پھر ایک صاحب میرے پینٹ کی جیب ٹٹولنے لگے تو مجھے کچھ شک گزرا۔
بہر کیف جب کئی لوگوں نے مجھے اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینکنے کی کوشش کی تو میرے احتجاج کے باعث ناکام ہوکر رہ گئے۔
میرے پاؤں کے وار سے ایک صاحب کو تھوڑی سی چوٹ بھی آگئی۔
بعد میں سب کہنے بھی لگے کہ سعود بھائی آپ تو اس میں اکثر تیرتے رہتے ہیں پر اس بار جب ہم نے چاہا تو اتنا ہاتھ پاؤں کیوں مارنے لگے۔ میں نے کہا ایک تو میں ان کپڑوں کو تر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر ایسا کوئی ارادہ تھا تو بتا کے کرتے میں کپڑے تبدیل کر لیتا اور پھر یکے بعد دیگرے جس جس کو چاہتے پھینکتے رہتے۔ تو لوگ کہنے لگے کہ بتا کے پھینکتے تو سازش کا مزہ کہاں رہ جاتا۔
اس پر مجھے بھی لگا کہ میری ذات سے کچھ لوگوں کو تھوڑی سی خوشی اور متوقع تھی تو مجھے اتنا احتجاج نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بے ضرر سی تو حرکت تھی۔