بھائی ! اپنی آخری پوسٹ میں میرے کوٹ کیئے ہوئےآخری حصے کو میری سب سے پہلی پوسٹ سے پس منظر میں دیکھو تو معلوم ہوگا کہ میں دراصل کیا کہہ رہا تھا ۔
چلو میں اپنی آخری کوشش کرلوں ۔
تم نے یہاں اعتراض اٹھایا ہے ۔
لہذا اگر قیامت کے دن یہ تمام دین ماننے والے اپنے دین پر اصرار کریں گے تو اللہ فرما دے گا کہ میرا دین تو شروع سے ہی اسلام ہے ۔ یہ دین تمہارے بنائے ہوئے ہیں ۔
اس تناظر میں قرآن کی اس آیت پر غور کریں تو ساری بات کا متن سمجھ آجائے گا ۔
" اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہا ،تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا ۔
یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ دراصل یہ آخری بات ( قرآن کی آیت ) پر ہی میں نےاپنی پہلی بات کہی تھی ۔ کیونکہ جب اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے تو عموماً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے جو کہ عثمان نے اٹھایا ۔ اس پر مجھے تفصیل سے لکھنا پڑا کہ اللہ اس آیت میں واضع کررہے ہیں کہ " دین وہ نہیں ہے جو تم نے خود سے بنا لیئے ہیں ۔ بلکہ دین وہ ہے جو آدم سے آخری پیغمبر تک چلا آرہا ہے ۔" پھر مجھے لکھنا پڑا کہ لوگوں نے اپنی اصطلاح میں اللہ کے دین کو جو نام دے دیئے ہیں ۔ اس کو اللہ قیامت کے دن ہرگز قبول نہیں کرے گا ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔
تم نے میری مشکل آسان کردی ، تم نے لکھا ،
نصرانیت بطور رومی سلطنت کے سرکاری مذہب آغاز یقیناً وفات عیسیٰؑ کے تین سو سال بعد ہوا تھا، البتہ اول دن سے مسیحی اپنے آپکو یہودیوں سے الگ مذہبی گروہ تسلیم کرتے آئے ہیں۔ نصرانیت کے اوائل میں مسیحی بننے کیلئے پہلے یہودیت تسلیم کرنا شرط تھا۔ پھر رفتہ رفتہ سیدھا عیسائی بنایا جانے لگا۔ جس کے بعد یہ مذہب زیادہ تیزی سے یورپ و ایشیائے وسطیٰ میں پھیلا۔
مگر یہاں چند گذارشات ہیں۔ پہلی بات یہ کہ عیسائیت کے لیئے یہودیت کو تسلیم کرنا، غیر تاریخی حقائق ہیں کہ اس وقت گردوپیش سبھی یہودی تھے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر نصرانیت کے اوائل میں مسیحی بننے کے لیئے یہودیت قبول کرنا شرط تھا ۔ اور پھر بعد میں اس سے کیوں انحراف ہوا ۔ تو اس طرح نصرانیت سے کیا ایک نیا گروہ یا مذہب نہیں پیدا ہوگیا ۔اگر پیدا ہوگیا تو اوائل والا مذہب کیا تھا ۔ اس طرح ایک خود ساختہ دین کی بنیاد نہیں پڑی کہ نصرانیت کے ایک بنیادی رکن کو نظر انداز کردیا گیا ۔ مثال کے طور پر بلکل اسی طرح آج کوئی مسلمانوں میں آخری نبی کے حوالے سے اپنا کوئی نیا نبی بنالے تو کیا اس طرح اصل دین کی ساخت وہی رہے گی یا پھر یہ ایک نیا دین یا مذہب قرار پائے گا ۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کی آیت اپنے صحیح مفہوم میں واضع ہوجاتی ہے کہ " " اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہا ،تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا ۔"
تو جو دین کی ساخت بگاڑے اور اس میں کمی و بیشی کرے تو کہ یہ اللہ کا دین قرار پائے گا ۔؟ ہر گز نہیں ۔ سو میرا استدلال پھر ویلیڈ رہ جاتا ہے کہ " لہذا اگر قیامت کے دن یہ تمام دین ماننے والے اپنے دین پر اصرار کریں گے تو اللہ فرما دے گا کہ میرا دین تو شروع سے ہی اسلام ہے ۔ یہ دین تمہارے بنائے ہوئے ہیں ۔"
اگر یہودیوں اور نصرانیوں کے جنت میں جانے کے لیئے مسلمان اعتراضات اٹھاتے ہیں تو پھر ان میں بھی کئی گروہ قابل اعتراض ہیں ۔ جو کہ دین میں اپنے تئیں کئی تبدیلی کر بیٹھے ہیں ۔ ان پر بھی قرآن کی اسی آیت کا اطلاق ہوگا ۔ خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں ۔
میرا خیال ہے کہ میں اپنی بات ختم کرچکا ۔ آپ اپنی بحث جاری رکھیئے ۔
چلو میں اپنی آخری کوشش کرلوں ۔
تم نے یہاں اعتراض اٹھایا ہے ۔
لہذا اگر قیامت کے دن یہ تمام دین ماننے والے اپنے دین پر اصرار کریں گے تو اللہ فرما دے گا کہ میرا دین تو شروع سے ہی اسلام ہے ۔ یہ دین تمہارے بنائے ہوئے ہیں ۔
اس تناظر میں قرآن کی اس آیت پر غور کریں تو ساری بات کا متن سمجھ آجائے گا ۔
" اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہا ،تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا ۔
یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ دراصل یہ آخری بات ( قرآن کی آیت ) پر ہی میں نےاپنی پہلی بات کہی تھی ۔ کیونکہ جب اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے تو عموماً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے جو کہ عثمان نے اٹھایا ۔ اس پر مجھے تفصیل سے لکھنا پڑا کہ اللہ اس آیت میں واضع کررہے ہیں کہ " دین وہ نہیں ہے جو تم نے خود سے بنا لیئے ہیں ۔ بلکہ دین وہ ہے جو آدم سے آخری پیغمبر تک چلا آرہا ہے ۔" پھر مجھے لکھنا پڑا کہ لوگوں نے اپنی اصطلاح میں اللہ کے دین کو جو نام دے دیئے ہیں ۔ اس کو اللہ قیامت کے دن ہرگز قبول نہیں کرے گا ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔
تم نے میری مشکل آسان کردی ، تم نے لکھا ،
نصرانیت بطور رومی سلطنت کے سرکاری مذہب آغاز یقیناً وفات عیسیٰؑ کے تین سو سال بعد ہوا تھا، البتہ اول دن سے مسیحی اپنے آپکو یہودیوں سے الگ مذہبی گروہ تسلیم کرتے آئے ہیں۔ نصرانیت کے اوائل میں مسیحی بننے کیلئے پہلے یہودیت تسلیم کرنا شرط تھا۔ پھر رفتہ رفتہ سیدھا عیسائی بنایا جانے لگا۔ جس کے بعد یہ مذہب زیادہ تیزی سے یورپ و ایشیائے وسطیٰ میں پھیلا۔
مگر یہاں چند گذارشات ہیں۔ پہلی بات یہ کہ عیسائیت کے لیئے یہودیت کو تسلیم کرنا، غیر تاریخی حقائق ہیں کہ اس وقت گردوپیش سبھی یہودی تھے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر نصرانیت کے اوائل میں مسیحی بننے کے لیئے یہودیت قبول کرنا شرط تھا ۔ اور پھر بعد میں اس سے کیوں انحراف ہوا ۔ تو اس طرح نصرانیت سے کیا ایک نیا گروہ یا مذہب نہیں پیدا ہوگیا ۔اگر پیدا ہوگیا تو اوائل والا مذہب کیا تھا ۔ اس طرح ایک خود ساختہ دین کی بنیاد نہیں پڑی کہ نصرانیت کے ایک بنیادی رکن کو نظر انداز کردیا گیا ۔ مثال کے طور پر بلکل اسی طرح آج کوئی مسلمانوں میں آخری نبی کے حوالے سے اپنا کوئی نیا نبی بنالے تو کیا اس طرح اصل دین کی ساخت وہی رہے گی یا پھر یہ ایک نیا دین یا مذہب قرار پائے گا ۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کی آیت اپنے صحیح مفہوم میں واضع ہوجاتی ہے کہ " " اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہا ،تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا ۔"
تو جو دین کی ساخت بگاڑے اور اس میں کمی و بیشی کرے تو کہ یہ اللہ کا دین قرار پائے گا ۔؟ ہر گز نہیں ۔ سو میرا استدلال پھر ویلیڈ رہ جاتا ہے کہ " لہذا اگر قیامت کے دن یہ تمام دین ماننے والے اپنے دین پر اصرار کریں گے تو اللہ فرما دے گا کہ میرا دین تو شروع سے ہی اسلام ہے ۔ یہ دین تمہارے بنائے ہوئے ہیں ۔"
اگر یہودیوں اور نصرانیوں کے جنت میں جانے کے لیئے مسلمان اعتراضات اٹھاتے ہیں تو پھر ان میں بھی کئی گروہ قابل اعتراض ہیں ۔ جو کہ دین میں اپنے تئیں کئی تبدیلی کر بیٹھے ہیں ۔ ان پر بھی قرآن کی اسی آیت کا اطلاق ہوگا ۔ خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں ۔
میرا خیال ہے کہ میں اپنی بات ختم کرچکا ۔ آپ اپنی بحث جاری رکھیئے ۔
آخری تدوین: