کیا آپ پکے مسلمان ہیں؟

ظفری

لائبریرین
بھائی ! اپنی آخری پوسٹ میں میرے کوٹ کیئے ہوئےآخری حصے کو میری سب سے پہلی پوسٹ سے پس منظر میں دیکھو تو معلوم ہوگا کہ میں دراصل کیا کہہ رہا تھا ۔
چلو میں اپنی آخری کوشش کرلوں ۔
تم نے یہاں اعتراض اٹھایا ہے ۔
لہذا اگر قیامت کے دن یہ تمام دین ماننے والے اپنے دین پر اصرار کریں گے تو اللہ فرما دے گا کہ میرا دین تو شروع سے ہی اسلام ہے ۔ یہ دین تمہارے بنائے ہوئے ہیں ۔
اس تناظر میں قرآن کی اس آیت پر غور کریں تو ساری بات کا متن سمجھ آجائے گا ۔
" اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہا ،تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا ۔
یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ دراصل یہ آخری بات ( قرآن کی آیت ) پر ہی میں نےاپنی پہلی بات کہی تھی ۔ کیونکہ جب اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے تو عموماً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے جو کہ عثمان نے اٹھایا ۔ اس پر مجھے تفصیل سے لکھنا پڑا کہ اللہ اس آیت میں واضع کررہے ہیں کہ " دین وہ نہیں ہے جو تم نے خود سے بنا لیئے ہیں ۔ بلکہ دین وہ ہے جو آدم سے آخری پیغمبر تک چلا آرہا ہے ۔" پھر مجھے لکھنا پڑا کہ لوگوں نے اپنی اصطلاح میں اللہ کے دین کو جو نام دے دیئے ہیں ۔ اس کو اللہ قیامت کے دن ہرگز قبول نہیں کرے گا ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔
تم نے میری مشکل آسان کردی ، تم نے لکھا ،
نصرانیت بطور رومی سلطنت کے سرکاری مذہب آغاز یقیناً وفات عیسیٰؑ کے تین سو سال بعد ہوا تھا، البتہ اول دن سے مسیحی اپنے آپکو یہودیوں سے الگ مذہبی گروہ تسلیم کرتے آئے ہیں۔ نصرانیت کے اوائل میں مسیحی بننے کیلئے پہلے یہودیت تسلیم کرنا شرط تھا۔ پھر رفتہ رفتہ سیدھا عیسائی بنایا جانے لگا۔ جس کے بعد یہ مذہب زیادہ تیزی سے یورپ و ایشیائے وسطیٰ میں پھیلا۔

مگر یہاں چند گذارشات ہیں۔ پہلی بات یہ کہ عیسائیت کے لیئے یہودیت کو تسلیم کرنا، غیر تاریخی حقائق ہیں کہ اس وقت گردوپیش سبھی یہودی تھے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر نصرانیت کے اوائل میں مسیحی بننے کے لیئے یہودیت قبول کرنا شرط تھا ۔ اور پھر بعد میں اس سے کیوں انحراف ہوا ۔ تو اس طرح نصرانیت سے کیا ایک نیا گروہ یا مذہب نہیں پیدا ہوگیا ۔اگر پیدا ہوگیا تو اوائل والا مذہب کیا تھا ۔ اس طرح ایک خود ساختہ دین کی بنیاد نہیں پڑی کہ نصرانیت کے ایک بنیادی رکن کو نظر انداز کردیا گیا ۔ مثال کے طور پر بلکل اسی طرح آج کوئی مسلمانوں میں آخری نبی کے حوالے سے اپنا کوئی نیا نبی بنالے تو کیا اس طرح اصل دین کی ساخت وہی رہے گی یا پھر یہ ایک نیا دین یا مذہب قرار پائے گا ۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کی آیت اپنے صحیح مفہوم میں واضع ہوجاتی ہے کہ " " اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہا ،تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا ۔"
تو جو دین کی ساخت بگاڑے اور اس میں کمی و بیشی کرے تو کہ یہ اللہ کا دین قرار پائے گا ۔؟ ہر گز نہیں ۔ سو میرا استدلال پھر ویلیڈ رہ جاتا ہے کہ " لہذا اگر قیامت کے دن یہ تمام دین ماننے والے اپنے دین پر اصرار کریں گے تو اللہ فرما دے گا کہ میرا دین تو شروع سے ہی اسلام ہے ۔ یہ دین تمہارے بنائے ہوئے ہیں ۔"
اگر یہودیوں اور نصرانیوں کے جنت میں جانے کے لیئے مسلمان اعتراضات اٹھاتے ہیں تو پھر ان میں بھی کئی گروہ قابل اعتراض ہیں ۔ جو کہ دین میں اپنے تئیں کئی تبدیلی کر بیٹھے ہیں ۔ ان پر بھی قرآن کی اسی آیت کا اطلاق ہوگا ۔ خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں ۔

میرا خیال ہے کہ میں اپنی بات ختم کرچکا ۔ آپ اپنی بحث جاری رکھیئے ۔:praying:
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
بہت اچھا سوال ہے ۔ دراصل میں اس بات کی وضاحت اپنی پچھلی پوسٹ میں بھی کرسکتا تھا ۔ مگر میں نے توقف کیا کہ میری بات کو کہاں تک سمجھا جاسکتا ہے ۔
ہم دنیا میں اپنی زندگی گذارتے ہیں ۔ مذہب سے قطع نظریہ تصور کرلیں کہ ہم کسی ریاست میں رہتے ہیں ۔ اس ریاست میں رہتے ہوئے اس ریاست کے قانون اوراس کے بنائے ہوئے اصولوں پر ہم چلنے کے پابند ہوتے ہیں ۔اگر اس ریاست میں رہتے ہوئےکسی طور ، اس کے کسی قانون سے انحراف یا قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔تو ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ وہ قانون شکنی کی پاداش میں کوئی سزا دے ۔ سزا کی نوعیت ، جرم کے حوالے سے کیا ہوگی ۔ یہ بھی ریاست کے دستور پر منحصر ہوگا ۔میں کسی مسلم ملک کے حوالے سے بات نہیں کروں گا کہ پھر اس پر تحفظات اٹھ کھڑے ہونگے ۔ لہذا اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ کسی غیر مسلم ریاست میں کوئی شخص کسی شخص کو ناحق قتل کر ڈالتا ہے تو پھر وہ ریاست کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس شخص کو کیفر کردار تک پہنچائے ۔ اس کے لیئے اس شخص کو موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم ریاستوں میں یہ اقدم اب بھی اٹھایا جاتا ہے ۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والا شخص ، معاشرے میں کتنا ہی اثر رسوخ رکھتا ہو ۔ پروفیسر ہو ، سائنٹس ہو ، ادیب ہو یا پھر کوئی بھی اعلی عہدہ رکھتا ہو ۔ یہاں تک کہ اس کا کردار بے داغ بھی رہا ہو۔ مگر ریاست انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس کو موت کی سزا " بھی " دے سکتی ہے ۔جب ایک ریاست کا نظام اس طرح کا قدام کرسکتا ہے تو پھر مذہب بھی اس طرح کے معاملات مذہبی طور پر حل کرنے پر حق بجانب ہوگا ۔ ( واضع رہے کہ میں یہاں قیامت ( کورٹ ) اور دنیا ( ریاست ) کے حوالے سے مذہبی جرائم پر بات کر رہا ہوں ۔

اب میں اپنی پچھلی بات کو تسلسل قائم رکھتے ہوئے بات پھر یہاں سے شروع کرتا ہوں کہ ، کوئی مسلمان ہو ،نصرانی ہو ،یہودی ہو ، صابی ہو ۔اس کے لیئے اللہ کے ہاں فیصلے کا انحصار کہ وہ اللہ کی جنت کے لیئے قبول کر لیا جائے ۔ ان تین بنیادوں پر ہوگا ۔ یعنی اللہ پر سچا ایمان ، آخرت میں جواب دہی کا احساس اور اچھا عمل یعنی عملِ صالح ۔ یہ تو ہوئی مثبت اور بنیادی بات ۔ مگر اس کے ساتھ اتنی بات مضمر ہےکہ کوئی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کررہا ہو ۔ جو جرم قیامت کے دن قابلِ مواخدہ بن جائے ۔ مثال کے طور پر قرآن نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ایک مسلمان اللہ پر سچا ایمان بھی رکھتا ہے ۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس بھی رکھتا ہے ۔ اور عمل صالح کا بھی مالک ہے ۔مگر اس نے کسی مسلمان کو ناحق قتل کردیا ۔ اور مذید آگے قرآن کہتا ہے کہ یہ اس کاا تنا بڑا جرم ہے کہ اس کے لیئے ابدی جہنم کا فیصلہ کردیا جائے گا ۔یہ ایک مثال تھی ۔ جو دنیاوی جرم کی پاداشت میں کیا صورت اختیار کرسکتی ہے ۔ بلکل اسی طرح جب ایک شخص کے سامنے اللہ کے کسی پیغمبر کی دعوت آئی ۔ اور اس شخص نے یہ سمجھنے کے باوجود کہ یہ اللہ کے پیغمبر ہیں اور یہ اللہ کی دعوت ہے ۔اس پیغمبر اور اس دعوت کا انکار کردیا ۔ تو اس جرم کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ اس کے لیئے ابدی جہنم کا فیصلہ سنا دیا جائے ۔یہ جرائم ہیں وہا ں ان کا تذکرہ نہیں مگران جرائم کا ارتکاب مسلمان ، یہودی ، نصرانی یا کوئی اور کرے ۔ وہ خدا کے ہاں ماخوذ ہوگا ۔اور اس پر اس کامواخذہ کیا جائے گا ۔مگر مثبت اور بنیادی طور پر سب کے لیئے وہی تین چیزیں دیکھیں جائیں گی ۔ جن کا تذکرہ پہلے کیا گیا ہے ۔
اب کسی شخص تک دعوت نہیں پہنچی ، اس پر کسی پیغمبر اور اللہ کی دعوت کے بارے میں حق ہی واضع نہیں ہوا ۔تو وہ انہی تین چیزوں کے بارے میں جواب طلب ہوگا ۔ یہ قرآن مجید کا انتہائی منصفانہ قاعدہ ہے ۔ کیونکہ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں ۔ جو تمام انبیاء علیہ السلام کی تعلیمات میں موجود ہیں ۔جن کا فطرت تقاضا کرتی ہے ۔ جن کے لیئے انسانی عقل بھی اپنا استدلال رکھتی ہے ۔ لہذا ان بنیاد پر اللہ نے ایک عمومی قانون کا قاعدہ بنادیا ہے ۔مگر کسی خاص پیغمبر کے ماننے یا نہ ماننے کا انحصار ، اس کے تعارف ، اس کی دعوت کے پہنچنے اور پھر اتمامِ حجت کے درجے میں یہ واضع ہونے پر ہوتا ہے کہ یہ خدا کے سچے پیغمبر ہیں ۔ اس لیئے اس معاملے کو جرائم کی فہرست میں رکھنا چاہیئے ۔ یعنی حقیقتاً ایسا ہوگیا ہے اور اس کا انکارکردیا گیا ہے ۔ تو پھر وہ اسی طرح جوابدہ ہوگا جس طرح ایک مسلمان تمام تینوں بنیادی چیزوں پر عمل پیرا ہونے کے باوجود کسی کو قتل کردینے کے معاملے میں جوابدہ ہوگا ۔
کوئی بھی جرم چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیوں نہ ہو۔ کیا اس کی سزا ایک ابدی اور دائمی تکلیف سے پر جہنم ایک منصفانہ سزا ہے ؟
ایک شخص پر خدا کے وجود کی حقیقت اور پیغام واضح کیا گیا۔ لیکن اس نے اپنے شعور اور منطق سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
کیا یہ ایک ایسا جرم ہے کہ وہ شخص اب دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرا ؟
آخر اس نے کسی دوسرے کا کیا بگاڑا؟ اس نے خدا کا کیا بگاڑا کہ خدا نے اسے دائمی اذیت دینے کا فیصلہ کر دیا؟
آپ کا تصور کردہ خدا لوگوں میں اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ کیا آپ ایک ایسی ریاست کا دفاع کریں گے جو اعتقاد کی بنیاد پر لوگوں میں فیصلہ کرے ؟
خدا اپنے چاہنے والوں کو بھلے ابدی بہشت سے نوازے۔ نہ ماننے والوں سے ایسی بیزاری کیسی کہ ان پر دائمی تکلیف نافذ کردے؟
آخر انھوں نے اس کائنات میں خدا سمیت کسی کا کیا بگاڑا ؟
 
اب رہا آپ کا سوال کہ میرے نزدیک ایمان کیا ہے اور ایمان کی حیثیت کیا ہے تو اگر آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم تو آپ کے علم میں اضافے کی غرض سے اپنا وقت برباد کرتے ہوئے عرض کرتا چلوں کہ ایمان اپنے ثلاثی مجرد مادے الف میم اور نون یعنی امن سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے کسی ڈر خوف سے اپنے یقین کے باعث امن میں آنا۔
مزید جاننا چاہیں تو آن لائن بے شمار عربی سے اردو ڈکشنریاں میسر ہیں، ان سے استفادہ کیجیے اور اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو یہاں محفل پر سائل بن کر آ جائیں۔ امید ہے یہاں سے آپ کی تسلی ہو جائے گی۔ :)
جنت اور جہنم میں جانے پر آپ کا ایمان ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب دیں۔ آپ نے میرے ایمان کے متعلق پوچھا، سو مجھے آپ کے ایمان کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے۔
 
یہی تو مسئلہ ہے جناب کہ ہر مذہب کا خدا اس مذہب کے علاوہ باقی سب مذاہب کو جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے کے ایمان کا حصہ ہے کہ باقی سب جہنمی ہیں۔



کسی بھی فکر نظریے یا سوچ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کیلئے جو واسطے انسانی دنیا میں استعمال ہوتے ہیں ان کا تعلق عقل انسانی سے ہے یعنی جو بات کسی دور میں ایک بڑے گروہ کی عقل کو متاثر کر جاوے اسے اعتقاد کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے یہ (Quantitative Approach) مقداری نظریہ تحقیق ہے دوسری جانب گروہ انسانی کے عقلا کے نزدیک کوئی بات حق ثابت ہو جاوے یا تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد کسی بات کا حق ثابت ہو جانا (Qualitative Research) کے زمرے میں آوے گا ....

حق تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی انسانی طریق اختیار کیا جاوے اس میں غلطی کی گنجائش موجود رہے گی ....
کائناتی امور پر سائنس کے میدان سے متعلق لوگوں کے تجربات سے بہت پہلے فلسفہ نے الہیات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی چاہے وہ ہزاروں سال پہلے کا ہیوم (Homer) ہو یا ارسطو یا افلاطون سب نے الہیات کے باب میں اپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا ئے کچھ کے پاس سے چند توجیہات برآمد ہو سکیں اور کچھ نے سرے سے الہیات کا انکار فرما دیا .....

دوسری طرف ایک طبقہ روحانیات کے میدان سے متعلق تھا کہ جنہوں نے عقل کے بجائے وحی الہی، کشف اور الہام کو مدار بنایا یہ طبقہ انبیاء، اولیاء اتقیاء کا طبقہ تھا ........

اب چاہے وہ انسانی تجربہ (Human Experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افکار و نظریات
یا روحانی تجربہ ہو (spiritual experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مذاہب انسانوں کو دو بنیادی طبقات میں منقسم کر سکتے ہیں ......

١.الہیات کو ماننے والے
٢. الہیات کا انکار کرنے والے

دوسری جانب الہیات کو ماننے والوں کا طبقہ چونکہ اس دنیا کا غالب ترین طبقہ رہا ہے اور اس طبقے میں دنیا میں موجود ہر شعبے سے متعلق اور منسلک افراد کثیر تعداد میں موجود رہے ہیں سو اس طبقے کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ........

اب اس روحانی یا الہی طبقے کو مزید طبقات میں منقسم کیا جا سکتا
کتابی اور غیر کتابی

اہل کتاب جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کے ان کے پاس کلام الہی تحریری شکل میں نازل ہوا یا وہ اس روحانی تجربے کو ضبط تحریر میں لائے ......
دوسرے وہ کہ جن سے منسلک مذاہب صرف روحانی تجربات تک محدود رہے اور ان مذاہب نے ادیان کی شکل اختیار نہ کی ........

اب اگر قانوی اعتبار سے دیکھا جاوے تو مزید تفصیل سامنے آتی ہے

مراسم عبودیت اور عقائد دنیا کے ہر ہر مذہب کا جزو لا ینفک ہیں
اخلاقیات ہر ہر مذھب میں موجود ہیں

لیکن قوانین آپ کو صرف اور صرف اہل کتاب کے ہاں مل سکتے ہیں سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کتابی مذاہب ہی در اصل قانونی طور پر ادیان ہیں اور زیادہ تر ان کا ہی مقابلہ اہل فلسفہ کے ساتھ رہا ہے جیسے دور جدید میں (creationist vs evolutionist) کا مکالمہ ........

پھر ان کتابی مذاہب میں ہم منطق اور دلیل کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب کے متکلمین اپنے مذھب کو دوسروں کے سامنے زیادہ درست اور مظبوط ترین دلائل سے ثابت کر سکے ہیں ......

اب بحث کے دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں جو کہ تصور " جزا و سزا " سے منسلک

یہ بات مکمل وثوق اور تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ تصور فطرت انسانی میں موجود بلکہ ودیعت کردہ ہے چاہے ایک نظریے کے مطابق وہ الله نے انسانی فطرت میں رکھا ہو یا دوسرے گروہ کے مطابق وہ از خود بننے والی فطرت انسانی میں موجود ہو ........

مذاہب کی فکر اور ان کے فلسفے سے ہٹ کر بھی پوری دنیا کے قوانین کی بنیاد اسی فطری تقاضے پر رکھی گئی ہے

ایک جانب اگر انسانی عقل یہ اشکالات پیدا کرتی ہے کہ .....

کوئی بھی جرم چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیوں نہ ہو۔ کیا اس کی سزا ایک ابدی اور دائمی تکلیف سے پر جہنم ایک منصفانہ سزا ہے ؟
ایک شخص پر خدا کے وجود کی حقیقت اور پیغام واضح کیا گیا۔ لیکن اس نے اپنے شعور اور منطق سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
کیا یہ ایک ایسا جرم ہے کہ وہ شخص اب دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرا ؟
آخر اس نے کسی دوسرے کا کیا بگاڑا؟ اس نے خدا کا کیا بگاڑا کہ خدا نے اسے دائمی اذیت دینے کا فیصلہ کر دیا؟
آپ کا تصور کردہ خدا لوگوں میں اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ کیا آپ ایک ایسی ریاست کا دفاع کریں گے جو اعتقاد کی بنیاد پر لوگوں میں فیصلہ کرے ؟
خدا اپنے چاہنے والوں کو بھلے ابدی بہشت سے نوازے۔ نہ ماننے والوں سے ایسی بیزاری کیسی کہ ان پر دائمی تکلیف نافذ کردے؟
آخر انھوں نے اس کائنات میں خدا سمیت کسی کا کیا بگاڑا ؟

تو دوسری طرف وہی انسانی عقل ان سوالات کے جواب کی بھی طالب ہے ......

١.کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے کسی قاتل کو صرف ایک بار سزائے موت دے دینا انصاف ہے یا اگر وہ ہمیشہ طاقت میں رہے اور آخر تک ظلم پر ہی کھڑا رہے تو کیا اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق اس کی کوئی سزا ہو سکتا ہے کہ جب آپ بے اختیار بھی ہوں ...... ؟

٢.ایک شخص پر عدالت میں کوئی جرم کسی وکیل کے مستدلات کے نتیجے میں منصف کی عقل کے مطابق ثابت ہو جاوے اور وہ انتہائی خلوص سے اپنی عقل کے مطابق منصف کے فیصلے سے متفق نہ ہو تو کیا عدالت کا اسے سزا دینا انصاف ہے ...... ؟

٣.پھر یہ سوال کہ خدا کسی کو عذاب کیوں دیتا ہے (عجیب یہ ہے کہ کسی معاشرے یا کسی ادارے میں موجود افراد وہاں کے قانون کی پاسداری نہ کر سکیں تو انکو دی جانے والی سزا عین فطری اور منطقی قرار دی جاتی ہے) سوال یہ ہے کہ انسان کو یہ حق کیونکر اور کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دنیا کو قومی اور وطنی سرحدات میں منقسم کرے زمینی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے قانون سازی کرے ایک ریاست کی حد بندیوں میں افراد کو ملکی قوانین کے شکنجوں میں کسے ...... ؟

٤. پھر انتہائی عجیب بات یہ کہ اگر خدا کے قوانین کو یہ اختیار حاصل ہونا کہ وہ لوگوں کے حوالے سے فیصلے کرے غیر منطقی ہے تو پھر انسان کے بنائے ہوے قوانین کو یہ حق کس منطق کے اعتبار سے مل سکتا ہے ...... ؟

پھر اس تمام بحث سے ہٹ کر کہ جو مذاہب کے ماننے والوں اور لا مذہبوں کے درمیان ہو یا مذاہب کے ماننے والوں کے مابین ہی کیوں نہ ہو .......

کیا اس کائنات میں کوئی حق ہے بھی یا نہیں
کیا یہ کائنات ازخود تخلیق ہوئی یا اس کو بنانے والا اور خالق کوئی ہے بھی یا نہیں
کیا دنیا کے تمام مذاہب کا تصور خدا ، اعتقادات ، مسائل و معاملات حق ہیں یا ان میں سے کوئی ایک درست ترین ہے .......

عقل انسانی اور فلسفہ یہ کہتا ہے کہ حق صرف ایک ہوتا ہے متعدد نہیں کسی بھی امر سے متعلق سچائی صرف ایک ہوتی ہے لاتعداد نہیں اور منزل تک پہنچنے کا درست ترین راستہ صرف ایک ہو سکتا ہے بے شمار نہیں ......

اب جہاں تک اس سوال تعلق ہے

" ہر مذہب کا خدا اس مذہب کے علاوہ باقی سب مذاہب کو جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے کے ایمان کا حصہ ہے کہ باقی سب جہنمی ہیں "

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بحث کو صاف کر دینا ضروری ہے کہ کیا کوئی خدا ہے اور کیا اس خدا نے جزاء و سزا کے حوالے سے کوئی قانون بنا رکھا ہے

اگر حقیقت میں کوئی خدا ہے تو وہ ایک ہی ہوگا
اور اگر اسکا کوئی ازلی و ابدی قانون ہوگا تو وہ بھی ایک ہی ہوگا

اب یہاں صرف یہ امر باقی رہ جاتا ہے کہ کس مذھب نے خدا کو درست سمجھا
اور کس دین تک خدا کا قانون درست ترین حالت میں پہنچا ..... ؟

ہم اہل مذہب کا ماننا یہ ہے کہ جب اس مادی دنیا میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی خالق (manufacturer ) موجود ہے تو بے شک اس دنیا کا خالق (CREATOR) بھی ہے اور جب اس دنیا کا کوئی خالق موجود ہے تو بے شک اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط بھی موجود ہے اور اگر اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط موجود ہے تو بے شک وہ کچھ اصول و قوانین کا بھی اپنی مخلوق سے طالب ہوگا اور بلا شبہ اس نے ان اصول و قوانین کو اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام بھی کر رکھا ہوگا اور یہ بات بھی انتہائی منطقی ہے کہ اس انتظام کا کوئی نہ کوئی اعتبار بھی لوگوں میں ضرور موجود ہوگا .....

اس گفتگو کی جس قدر بھی تفصیل میں جائیں بات ایک نکتے پر آکر رک جاتی ہے کہ باقی تو سب فروعات ہیں حقیقی سوال یہ ہے کہ آپ الہی معاملات کو ٹھیٹ مادی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا آپ کے پاس وہ روحانی آنکھ موجود ہے کہ جو ان کی حقیقت کو پا سکے .....

اور پھر ان تمام مذاہب کے اندر کوئی درست ترین مذھب کوئی صحیح ترین دین بھی موجود ہے اور اس درست ترین مذھب اور صحیح ترین دین تک لوگوں کا پہنچ جانا بھی عین ممکن ہے .
بات صرف یہ ہے کہ آپ کے اندر وہ استعداد اور صلاحیت موجود ہے بھی یا نہیں .. !
 
کسی بھی فکر نظریے یا سوچ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کیلئے جو واسطے انسانی دنیا میں استعمال ہوتے ہیں ان کا تعلق عقل انسانی سے ہے یعنی جو بات کسی دور میں ایک بڑے گروہ کی عقل کو متاثر کر جاوے اسے اعتقاد کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے یہ (Quantitative Approach) مقداری نظریہ تحقیق ہے دوسری جانب گروہ انسانی کے عقلا کے نزدیک کوئی بات حق ثابت ہو جاوے یا تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد کسی بات کا حق ثابت ہو جانا (Qualitative Research) کے زمرے میں آوے گا ....

حق تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی انسانی طریق اختیار کیا جاوے اس میں غلطی کی گنجائش موجود رہے گی ....
کائناتی امور پر سائنس کے میدان سے متعلق لوگوں کے تجربات سے بہت پہلے فلسفہ نے الہیات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی چاہے وہ ہزاروں سال پہلے کا ہیوم (Homer) ہو یا ارسطو یا افلاطون سب نے الہیات کے باب میں اپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا ئے کچھ کے پاس سے چند توجیہات برآمد ہو سکیں اور کچھ نے سرے سے الہیات کا انکار فرما دیا .....

دوسری طرف ایک طبقہ روحانیات کے میدان سے متعلق تھا کہ جنہوں نے عقل کے بجائے وحی الہی، کشف اور الہام کو مدار بنایا یہ طبقہ انبیاء، اولیاء اتقیاء کا طبقہ تھا ........

اب چاہے وہ انسانی تجربہ (Human Experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افکار و نظریات
یا روحانی تجربہ ہو (spiritual experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مذاہب انسانوں کو دو بنیادی طبقات میں منقسم کر سکتے ہیں ......

١.الہیات کو ماننے والے
٢. الہیات کا انکار کرنے والے

دوسری جانب الہیات کو ماننے والوں کا طبقہ چونکہ اس دنیا کا غالب ترین طبقہ رہا ہے اور اس طبقے میں دنیا میں موجود ہر شعبے سے متعلق اور منسلک افراد کثیر تعداد میں موجود رہے ہیں سو اس طبقے کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ........

اب اس روحانی یا الہی طبقے کو مزید طبقات میں منقسم کیا جا سکتا
کتابی اور غیر کتابی

اہل کتاب جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کے ان کے پاس کلام الہی تحریری شکل میں نازل ہوا یا وہ اس روحانی تجربے کو ضبط تحریر میں لائے ......
دوسرے وہ کہ جن سے منسلک مذاہب صرف روحانی تجربات تک محدود رہے اور ان مذاہب نے ادیان کی شکل اختیار نہ کی ........

اب اگر قانوی اعتبار سے دیکھا جاوے تو مزید تفصیل سامنے آتی ہے

مراسم عبودیت اور عقائد دنیا کے ہر ہر مذہب کا جزو لا ینفک ہیں
اخلاقیات ہر ہر مذھب میں موجود ہیں

لیکن قوانین آپ کو صرف اور صرف اہل کتاب کے ہاں مل سکتے ہیں سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کتابی مذاہب ہی در اصل قانونی طور پر ادیان ہیں اور زیادہ تر ان کا ہی مقابلہ اہل فلسفہ کے ساتھ رہا ہے جیسے دور جدید میں (creationist vs evolutionist) کا مکالمہ ........

پھر ان کتابی مذاہب میں ہم منطق اور دلیل کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب کے متکلمین اپنے مذھب کو دوسروں کے سامنے زیادہ درست اور مظبوط ترین دلائل سے ثابت کر سکے ہیں ......

اب بحث کے دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں جو کہ تصور " جزا و سزا " سے منسلک

یہ بات مکمل وثوق اور تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ تصور فطرت انسانی میں موجود بلکہ ودیعت کردہ ہے چاہے ایک نظریے کے مطابق وہ الله نے انسانی فطرت میں رکھا ہو یا دوسرے گروہ کے مطابق وہ از خود بننے والی فطرت انسانی میں موجود ہو ........

مذاہب کی فکر اور ان کے فلسفے سے ہٹ کر بھی پوری دنیا کے قوانین کی بنیاد اسی فطری تقاضے پر رکھی گئی ہے

ایک جانب اگر انسانی عقل یہ اشکالات پیدا کرتی ہے کہ .....

کوئی بھی جرم چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیوں نہ ہو۔ کیا اس کی سزا ایک ابدی اور دائمی تکلیف سے پر جہنم ایک منصفانہ سزا ہے ؟
ایک شخص پر خدا کے وجود کی حقیقت اور پیغام واضح کیا گیا۔ لیکن اس نے اپنے شعور اور منطق سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
کیا یہ ایک ایسا جرم ہے کہ وہ شخص اب دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرا ؟
آخر اس نے کسی دوسرے کا کیا بگاڑا؟ اس نے خدا کا کیا بگاڑا کہ خدا نے اسے دائمی اذیت دینے کا فیصلہ کر دیا؟
آپ کا تصور کردہ خدا لوگوں میں اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ کیا آپ ایک ایسی ریاست کا دفاع کریں گے جو اعتقاد کی بنیاد پر لوگوں میں فیصلہ کرے ؟
خدا اپنے چاہنے والوں کو بھلے ابدی بہشت سے نوازے۔ نہ ماننے والوں سے ایسی بیزاری کیسی کہ ان پر دائمی تکلیف نافذ کردے؟
آخر انھوں نے اس کائنات میں خدا سمیت کسی کا کیا بگاڑا ؟

تو دوسری طرف وہی انسانی عقل ان سوالات کے جواب کی بھی طالب ہے ......

١.کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے کسی قاتل کو صرف ایک بار سزائے موت دے دینا انصاف ہے یا اگر وہ ہمیشہ طاقت میں رہے اور آخر تک ظلم پر ہی کھڑا رہے تو کیا اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق اس کی کوئی سزا ہو سکتا ہے کہ جب آپ بے اختیار بھی ہوں ...... ؟

٢.ایک شخص پر عدالت میں کوئی جرم کسی وکیل کے مستدلات کے نتیجے میں منصف کی عقل کے مطابق ثابت ہو جاوے اور وہ انتہائی خلوص سے اپنی عقل کے مطابق منصف کے فیصلے سے متفق نہ ہو تو کیا عدالت کا اسے سزا دینا انصاف ہے ...... ؟

٣.پھر یہ سوال کہ خدا کسی کو عذاب کیوں دیتا ہے (عجیب یہ ہے کہ کسی معاشرے یا کسی ادارے میں موجود افراد وہاں کے قانون کی پاسداری نہ کر سکیں تو انکو دی جانے والی سزا عین فطری اور منطقی قرار دی جاتی ہے) سوال یہ ہے کہ انسان کو یہ حق کیونکر اور کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دنیا کو قومی اور وطنی سرحدات میں منقسم کرے زمینی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے قانون سازی کرے ایک ریاست کی حد بندیوں میں افراد کو ملکی قوانین کے شکنجوں میں کسے ...... ؟

٤. پھر انتہائی عجیب بات یہ کہ اگر خدا کے قوانین کو یہ اختیار حاصل ہونا کہ وہ لوگوں کے حوالے سے فیصلے کرے غیر منطقی ہے تو پھر انسان کے بنائے ہوے قوانین کو یہ حق کس منطق کے اعتبار سے مل سکتا ہے ...... ؟

پھر اس تمام بحث سے ہٹ کر کہ جو مذاہب کے ماننے والوں اور لا مذہبوں کے درمیان ہو یا مذاہب کے ماننے والوں کے مابین ہی کیوں نہ ہو .......

کیا اس کائنات میں کوئی حق ہے بھی یا نہیں
کیا یہ کائنات ازخود تخلیق ہوئی یا اس کو بنانے والا اور خالق کوئی ہے بھی یا نہیں
کیا دنیا کے تمام مذاہب کا تصور خدا ، اعتقادات ، مسائل و معاملات حق ہیں یا ان میں سے کوئی ایک درست ترین ہے .......

عقل انسانی اور فلسفہ یہ کہتا ہے کہ حق صرف ایک ہوتا ہے متعدد نہیں کسی بھی امر سے متعلق سچائی صرف ایک ہوتی ہے لاتعداد نہیں اور منزل تک پہنچنے کا درست ترین راستہ صرف ایک ہو سکتا ہے بے شمار نہیں ......

اب جہاں تک اس سوال تعلق ہے

" ہر مذہب کا خدا اس مذہب کے علاوہ باقی سب مذاہب کو جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے کے ایمان کا حصہ ہے کہ باقی سب جہنمی ہیں "

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بحث کو صاف کر دینا ضروری ہے کہ کیا کوئی خدا ہے اور کیا اس خدا نے جزاء و سزا کے حوالے سے کوئی قانون بنا رکھا ہے

اگر حقیقت میں کوئی خدا ہے تو وہ ایک ہی ہوگا
اور اگر اسکا کوئی ازلی و ابدی قانون ہوگا تو وہ بھی ایک ہی ہوگا

اب یہاں صرف یہ امر باقی رہ جاتا ہے کہ کس مذھب نے خدا کو درست سمجھا
اور کس دین تک خدا کا قانون درست ترین حالت میں پہنچا ..... ؟

ہم اہل مذہب کا ماننا یہ ہے کہ جب اس مادی دنیا میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی خالق (manufacturer ) موجود ہے تو بے شک اس دنیا کا خالق (CREATOR) بھی ہے اور جب اس دنیا کا کوئی خالق موجود ہے تو بے شک اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط بھی موجود ہے اور اگر اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط موجود ہے تو بے شک وہ کچھ اصول و قوانین کا بھی اپنی مخلوق سے طالب ہوگا اور بلا شبہ اس نے ان اصول و قوانین کو اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام بھی کر رکھا ہوگا اور یہ بات بھی انتہائی منطقی ہے کہ اس انتظام کا کوئی نہ کوئی اعتبار بھی لوگوں میں ضرور موجود ہوگا .....

اس گفتگو کی جس قدر بھی تفصیل میں جائیں بات ایک نکتے پر آکر رک جاتی ہے کہ باقی تو سب فروعات ہیں حقیقی سوال یہ ہے کہ آپ الہی معاملات کو ٹھیٹ مادی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا آپ کے پاس وہ روحانی آنکھ موجود ہے کہ جو ان کی حقیقت کو پا سکے .....

اور پھر ان تمام مذاہب کے اندر کوئی درست ترین مذھب کوئی صحیح ترین دین بھی موجود ہے اور اس درست ترین مذھب اور صحیح ترین دین تک لوگوں کا پہنچ جانا بھی عین ممکن ہے .
بات صرف یہ ہے کہ آپ کے اندر وہ استعداد اور صلاحیت موجود ہے بھی یا نہیں .. !


بہت اچھی گفتگو ہوئی. اس اندازِ گفتگو پر میری طرف سے داد قبول کیجئے۔
احباب اگر نعرے بازی کے بجائے احسن انداز میں گفتگو کریں تو ہر موضوع پر اچھی گفتگو کی جاسکتی ہے
 
کسی بھی فکر نظریے یا سوچ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کیلئے جو واسطے انسانی دنیا میں استعمال ہوتے ہیں ان کا تعلق عقل انسانی سے ہے یعنی جو بات کسی دور میں ایک بڑے گروہ کی عقل کو متاثر کر جاوے اسے اعتقاد کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے یہ (Quantitative Approach) مقداری نظریہ تحقیق ہے دوسری جانب گروہ انسانی کے عقلا کے نزدیک کوئی بات حق ثابت ہو جاوے یا تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد کسی بات کا حق ثابت ہو جانا (Qualitative Research) کے زمرے میں آوے گا ....

حق تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی انسانی طریق اختیار کیا جاوے اس میں غلطی کی گنجائش موجود رہے گی ....
کائناتی امور پر سائنس کے میدان سے متعلق لوگوں کے تجربات سے بہت پہلے فلسفہ نے الہیات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی چاہے وہ ہزاروں سال پہلے کا ہیوم (Homer) ہو یا ارسطو یا افلاطون سب نے الہیات کے باب میں اپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا ئے کچھ کے پاس سے چند توجیہات برآمد ہو سکیں اور کچھ نے سرے سے الہیات کا انکار فرما دیا .....

دوسری طرف ایک طبقہ روحانیات کے میدان سے متعلق تھا کہ جنہوں نے عقل کے بجائے وحی الہی، کشف اور الہام کو مدار بنایا یہ طبقہ انبیاء، اولیاء اتقیاء کا طبقہ تھا ........

اب چاہے وہ انسانی تجربہ (Human Experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افکار و نظریات
یا روحانی تجربہ ہو (spiritual experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مذاہب انسانوں کو دو بنیادی طبقات میں منقسم کر سکتے ہیں ......

١.الہیات کو ماننے والے
٢. الہیات کا انکار کرنے والے

دوسری جانب الہیات کو ماننے والوں کا طبقہ چونکہ اس دنیا کا غالب ترین طبقہ رہا ہے اور اس طبقے میں دنیا میں موجود ہر شعبے سے متعلق اور منسلک افراد کثیر تعداد میں موجود رہے ہیں سو اس طبقے کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ........

اب اس روحانی یا الہی طبقے کو مزید طبقات میں منقسم کیا جا سکتا
کتابی اور غیر کتابی

اہل کتاب جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کے ان کے پاس کلام الہی تحریری شکل میں نازل ہوا یا وہ اس روحانی تجربے کو ضبط تحریر میں لائے ......
دوسرے وہ کہ جن سے منسلک مذاہب صرف روحانی تجربات تک محدود رہے اور ان مذاہب نے ادیان کی شکل اختیار نہ کی ........

اب اگر قانوی اعتبار سے دیکھا جاوے تو مزید تفصیل سامنے آتی ہے

مراسم عبودیت اور عقائد دنیا کے ہر ہر مذہب کا جزو لا ینفک ہیں
اخلاقیات ہر ہر مذھب میں موجود ہیں

لیکن قوانین آپ کو صرف اور صرف اہل کتاب کے ہاں مل سکتے ہیں سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کتابی مذاہب ہی در اصل قانونی طور پر ادیان ہیں اور زیادہ تر ان کا ہی مقابلہ اہل فلسفہ کے ساتھ رہا ہے جیسے دور جدید میں (creationist vs evolutionist) کا مکالمہ ........

پھر ان کتابی مذاہب میں ہم منطق اور دلیل کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب کے متکلمین اپنے مذھب کو دوسروں کے سامنے زیادہ درست اور مظبوط ترین دلائل سے ثابت کر سکے ہیں ......

اب بحث کے دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں جو کہ تصور " جزا و سزا " سے منسلک

یہ بات مکمل وثوق اور تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ تصور فطرت انسانی میں موجود بلکہ ودیعت کردہ ہے چاہے ایک نظریے کے مطابق وہ الله نے انسانی فطرت میں رکھا ہو یا دوسرے گروہ کے مطابق وہ از خود بننے والی فطرت انسانی میں موجود ہو ........

مذاہب کی فکر اور ان کے فلسفے سے ہٹ کر بھی پوری دنیا کے قوانین کی بنیاد اسی فطری تقاضے پر رکھی گئی ہے

ایک جانب اگر انسانی عقل یہ اشکالات پیدا کرتی ہے کہ .....

کوئی بھی جرم چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیوں نہ ہو۔ کیا اس کی سزا ایک ابدی اور دائمی تکلیف سے پر جہنم ایک منصفانہ سزا ہے ؟
ایک شخص پر خدا کے وجود کی حقیقت اور پیغام واضح کیا گیا۔ لیکن اس نے اپنے شعور اور منطق سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
کیا یہ ایک ایسا جرم ہے کہ وہ شخص اب دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرا ؟
آخر اس نے کسی دوسرے کا کیا بگاڑا؟ اس نے خدا کا کیا بگاڑا کہ خدا نے اسے دائمی اذیت دینے کا فیصلہ کر دیا؟
آپ کا تصور کردہ خدا لوگوں میں اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ کیا آپ ایک ایسی ریاست کا دفاع کریں گے جو اعتقاد کی بنیاد پر لوگوں میں فیصلہ کرے ؟
خدا اپنے چاہنے والوں کو بھلے ابدی بہشت سے نوازے۔ نہ ماننے والوں سے ایسی بیزاری کیسی کہ ان پر دائمی تکلیف نافذ کردے؟
آخر انھوں نے اس کائنات میں خدا سمیت کسی کا کیا بگاڑا ؟

تو دوسری طرف وہی انسانی عقل ان سوالات کے جواب کی بھی طالب ہے ......

١.کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے کسی قاتل کو صرف ایک بار سزائے موت دے دینا انصاف ہے یا اگر وہ ہمیشہ طاقت میں رہے اور آخر تک ظلم پر ہی کھڑا رہے تو کیا اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق اس کی کوئی سزا ہو سکتا ہے کہ جب آپ بے اختیار بھی ہوں ...... ؟

٢.ایک شخص پر عدالت میں کوئی جرم کسی وکیل کے مستدلات کے نتیجے میں منصف کی عقل کے مطابق ثابت ہو جاوے اور وہ انتہائی خلوص سے اپنی عقل کے مطابق منصف کے فیصلے سے متفق نہ ہو تو کیا عدالت کا اسے سزا دینا انصاف ہے ...... ؟

٣.پھر یہ سوال کہ خدا کسی کو عذاب کیوں دیتا ہے (عجیب یہ ہے کہ کسی معاشرے یا کسی ادارے میں موجود افراد وہاں کے قانون کی پاسداری نہ کر سکیں تو انکو دی جانے والی سزا عین فطری اور منطقی قرار دی جاتی ہے) سوال یہ ہے کہ انسان کو یہ حق کیونکر اور کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دنیا کو قومی اور وطنی سرحدات میں منقسم کرے زمینی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے قانون سازی کرے ایک ریاست کی حد بندیوں میں افراد کو ملکی قوانین کے شکنجوں میں کسے ...... ؟

٤. پھر انتہائی عجیب بات یہ کہ اگر خدا کے قوانین کو یہ اختیار حاصل ہونا کہ وہ لوگوں کے حوالے سے فیصلے کرے غیر منطقی ہے تو پھر انسان کے بنائے ہوے قوانین کو یہ حق کس منطق کے اعتبار سے مل سکتا ہے ...... ؟

پھر اس تمام بحث سے ہٹ کر کہ جو مذاہب کے ماننے والوں اور لا مذہبوں کے درمیان ہو یا مذاہب کے ماننے والوں کے مابین ہی کیوں نہ ہو .......

کیا اس کائنات میں کوئی حق ہے بھی یا نہیں
کیا یہ کائنات ازخود تخلیق ہوئی یا اس کو بنانے والا اور خالق کوئی ہے بھی یا نہیں
کیا دنیا کے تمام مذاہب کا تصور خدا ، اعتقادات ، مسائل و معاملات حق ہیں یا ان میں سے کوئی ایک درست ترین ہے .......

عقل انسانی اور فلسفہ یہ کہتا ہے کہ حق صرف ایک ہوتا ہے متعدد نہیں کسی بھی امر سے متعلق سچائی صرف ایک ہوتی ہے لاتعداد نہیں اور منزل تک پہنچنے کا درست ترین راستہ صرف ایک ہو سکتا ہے بے شمار نہیں ......

اب جہاں تک اس سوال تعلق ہے

" ہر مذہب کا خدا اس مذہب کے علاوہ باقی سب مذاہب کو جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے کے ایمان کا حصہ ہے کہ باقی سب جہنمی ہیں "

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بحث کو صاف کر دینا ضروری ہے کہ کیا کوئی خدا ہے اور کیا اس خدا نے جزاء و سزا کے حوالے سے کوئی قانون بنا رکھا ہے

اگر حقیقت میں کوئی خدا ہے تو وہ ایک ہی ہوگا
اور اگر اسکا کوئی ازلی و ابدی قانون ہوگا تو وہ بھی ایک ہی ہوگا

اب یہاں صرف یہ امر باقی رہ جاتا ہے کہ کس مذھب نے خدا کو درست سمجھا
اور کس دین تک خدا کا قانون درست ترین حالت میں پہنچا ..... ؟

ہم اہل مذہب کا ماننا یہ ہے کہ جب اس مادی دنیا میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی خالق (manufacturer ) موجود ہے تو بے شک اس دنیا کا خالق (CREATOR) بھی ہے اور جب اس دنیا کا کوئی خالق موجود ہے تو بے شک اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط بھی موجود ہے اور اگر اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط موجود ہے تو بے شک وہ کچھ اصول و قوانین کا بھی اپنی مخلوق سے طالب ہوگا اور بلا شبہ اس نے ان اصول و قوانین کو اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام بھی کر رکھا ہوگا اور یہ بات بھی انتہائی منطقی ہے کہ اس انتظام کا کوئی نہ کوئی اعتبار بھی لوگوں میں ضرور موجود ہوگا .....

اس گفتگو کی جس قدر بھی تفصیل میں جائیں بات ایک نکتے پر آکر رک جاتی ہے کہ باقی تو سب فروعات ہیں حقیقی سوال یہ ہے کہ آپ الہی معاملات کو ٹھیٹ مادی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا آپ کے پاس وہ روحانی آنکھ موجود ہے کہ جو ان کی حقیقت کو پا سکے .....

اور پھر ان تمام مذاہب کے اندر کوئی درست ترین مذھب کوئی صحیح ترین دین بھی موجود ہے اور اس درست ترین مذھب اور صحیح ترین دین تک لوگوں کا پہنچ جانا بھی عین ممکن ہے .
بات صرف یہ ہے کہ آپ کے اندر وہ استعداد اور صلاحیت موجود ہے بھی یا نہیں .. !
ماشاء اللہ، آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔
 

زیک

مسافر
ہم اہل مذہب کا ماننا یہ ہے کہ جب اس مادی دنیا میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی خالق (manufacturer ) موجود ہے تو بے شک اس دنیا کا خالق (CREATOR) بھی ہے اور جب اس دنیا کا کوئی خالق موجود ہے تو بے شک اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط بھی موجود ہے اور اگر اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط موجود ہے تو بے شک وہ کچھ اصول و قوانین کا بھی اپنی مخلوق سے طالب ہوگا اور بلا شبہ اس نے ان اصول و قوانین کو اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام بھی کر رکھا ہوگا اور یہ بات بھی انتہائی منطقی ہے کہ اس انتظام کا کوئی نہ کوئی اعتبار بھی لوگوں میں ضرور موجود ہوگ
اہل مذہب کی یہ بہت تنگ نظر تعریف ہے
 

زیک

مسافر
کسی بھی فکر نظریے یا سوچ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کیلئے جو واسطے انسانی دنیا میں استعمال ہوتے ہیں ان کا تعلق عقل انسانی سے ہے یعنی جو بات کسی دور میں ایک بڑے گروہ کی عقل کو متاثر کر جاوے اسے اعتقاد کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے یہ (Quantitative Approach) مقداری نظریہ تحقیق ہے دوسری جانب گروہ انسانی کے عقلا کے نزدیک کوئی بات حق ثابت ہو جاوے یا تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد کسی بات کا حق ثابت ہو جانا (Qualitative Research) کے زمرے میں آوے گا ....

حق تک پہنچنے کیلئے کوئی بھی انسانی طریق اختیار کیا جاوے اس میں غلطی کی گنجائش موجود رہے گی ....
کائناتی امور پر سائنس کے میدان سے متعلق لوگوں کے تجربات سے بہت پہلے فلسفہ نے الہیات کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی چاہے وہ ہزاروں سال پہلے کا ہیوم (Homer) ہو یا ارسطو یا افلاطون سب نے الہیات کے باب میں اپنی اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا ئے کچھ کے پاس سے چند توجیہات برآمد ہو سکیں اور کچھ نے سرے سے الہیات کا انکار فرما دیا .....

دوسری طرف ایک طبقہ روحانیات کے میدان سے متعلق تھا کہ جنہوں نے عقل کے بجائے وحی الہی، کشف اور الہام کو مدار بنایا یہ طبقہ انبیاء، اولیاء اتقیاء کا طبقہ تھا ........

اب چاہے وہ انسانی تجربہ (Human Experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افکار و نظریات
یا روحانی تجربہ ہو (spiritual experience) ہو اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مذاہب انسانوں کو دو بنیادی طبقات میں منقسم کر سکتے ہیں ......

١.الہیات کو ماننے والے
٢. الہیات کا انکار کرنے والے

دوسری جانب الہیات کو ماننے والوں کا طبقہ چونکہ اس دنیا کا غالب ترین طبقہ رہا ہے اور اس طبقے میں دنیا میں موجود ہر شعبے سے متعلق اور منسلک افراد کثیر تعداد میں موجود رہے ہیں سو اس طبقے کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ........

اب اس روحانی یا الہی طبقے کو مزید طبقات میں منقسم کیا جا سکتا
کتابی اور غیر کتابی

اہل کتاب جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کے ان کے پاس کلام الہی تحریری شکل میں نازل ہوا یا وہ اس روحانی تجربے کو ضبط تحریر میں لائے ......
دوسرے وہ کہ جن سے منسلک مذاہب صرف روحانی تجربات تک محدود رہے اور ان مذاہب نے ادیان کی شکل اختیار نہ کی ........

اب اگر قانوی اعتبار سے دیکھا جاوے تو مزید تفصیل سامنے آتی ہے

مراسم عبودیت اور عقائد دنیا کے ہر ہر مذہب کا جزو لا ینفک ہیں
اخلاقیات ہر ہر مذھب میں موجود ہیں

لیکن قوانین آپ کو صرف اور صرف اہل کتاب کے ہاں مل سکتے ہیں سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کتابی مذاہب ہی در اصل قانونی طور پر ادیان ہیں اور زیادہ تر ان کا ہی مقابلہ اہل فلسفہ کے ساتھ رہا ہے جیسے دور جدید میں (creationist vs evolutionist) کا مکالمہ ........

پھر ان کتابی مذاہب میں ہم منطق اور دلیل کے اعتبار سے دیکھتے ہیں کہ کس مذہب کے متکلمین اپنے مذھب کو دوسروں کے سامنے زیادہ درست اور مظبوط ترین دلائل سے ثابت کر سکے ہیں ......

اب بحث کے دوسرے حصے کی جانب آتے ہیں جو کہ تصور " جزا و سزا " سے منسلک

یہ بات مکمل وثوق اور تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ تصور فطرت انسانی میں موجود بلکہ ودیعت کردہ ہے چاہے ایک نظریے کے مطابق وہ الله نے انسانی فطرت میں رکھا ہو یا دوسرے گروہ کے مطابق وہ از خود بننے والی فطرت انسانی میں موجود ہو ........

مذاہب کی فکر اور ان کے فلسفے سے ہٹ کر بھی پوری دنیا کے قوانین کی بنیاد اسی فطری تقاضے پر رکھی گئی ہے

ایک جانب اگر انسانی عقل یہ اشکالات پیدا کرتی ہے کہ .....

کوئی بھی جرم چاہے وہ کتنا ہی قبیح کیوں نہ ہو۔ کیا اس کی سزا ایک ابدی اور دائمی تکلیف سے پر جہنم ایک منصفانہ سزا ہے ؟
ایک شخص پر خدا کے وجود کی حقیقت اور پیغام واضح کیا گیا۔ لیکن اس نے اپنے شعور اور منطق سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
کیا یہ ایک ایسا جرم ہے کہ وہ شخص اب دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرا ؟
آخر اس نے کسی دوسرے کا کیا بگاڑا؟ اس نے خدا کا کیا بگاڑا کہ خدا نے اسے دائمی اذیت دینے کا فیصلہ کر دیا؟
آپ کا تصور کردہ خدا لوگوں میں اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ کیا آپ ایک ایسی ریاست کا دفاع کریں گے جو اعتقاد کی بنیاد پر لوگوں میں فیصلہ کرے ؟
خدا اپنے چاہنے والوں کو بھلے ابدی بہشت سے نوازے۔ نہ ماننے والوں سے ایسی بیزاری کیسی کہ ان پر دائمی تکلیف نافذ کردے؟
آخر انھوں نے اس کائنات میں خدا سمیت کسی کا کیا بگاڑا ؟

تو دوسری طرف وہی انسانی عقل ان سوالات کے جواب کی بھی طالب ہے ......

١.کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے کسی قاتل کو صرف ایک بار سزائے موت دے دینا انصاف ہے یا اگر وہ ہمیشہ طاقت میں رہے اور آخر تک ظلم پر ہی کھڑا رہے تو کیا اس مادی دنیا کے قوانین کے مطابق اس کی کوئی سزا ہو سکتا ہے کہ جب آپ بے اختیار بھی ہوں ...... ؟

٢.ایک شخص پر عدالت میں کوئی جرم کسی وکیل کے مستدلات کے نتیجے میں منصف کی عقل کے مطابق ثابت ہو جاوے اور وہ انتہائی خلوص سے اپنی عقل کے مطابق منصف کے فیصلے سے متفق نہ ہو تو کیا عدالت کا اسے سزا دینا انصاف ہے ...... ؟

٣.پھر یہ سوال کہ خدا کسی کو عذاب کیوں دیتا ہے (عجیب یہ ہے کہ کسی معاشرے یا کسی ادارے میں موجود افراد وہاں کے قانون کی پاسداری نہ کر سکیں تو انکو دی جانے والی سزا عین فطری اور منطقی قرار دی جاتی ہے) سوال یہ ہے کہ انسان کو یہ حق کیونکر اور کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دنیا کو قومی اور وطنی سرحدات میں منقسم کرے زمینی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے قانون سازی کرے ایک ریاست کی حد بندیوں میں افراد کو ملکی قوانین کے شکنجوں میں کسے ...... ؟

٤. پھر انتہائی عجیب بات یہ کہ اگر خدا کے قوانین کو یہ اختیار حاصل ہونا کہ وہ لوگوں کے حوالے سے فیصلے کرے غیر منطقی ہے تو پھر انسان کے بنائے ہوے قوانین کو یہ حق کس منطق کے اعتبار سے مل سکتا ہے ...... ؟

پھر اس تمام بحث سے ہٹ کر کہ جو مذاہب کے ماننے والوں اور لا مذہبوں کے درمیان ہو یا مذاہب کے ماننے والوں کے مابین ہی کیوں نہ ہو .......

کیا اس کائنات میں کوئی حق ہے بھی یا نہیں
کیا یہ کائنات ازخود تخلیق ہوئی یا اس کو بنانے والا اور خالق کوئی ہے بھی یا نہیں
کیا دنیا کے تمام مذاہب کا تصور خدا ، اعتقادات ، مسائل و معاملات حق ہیں یا ان میں سے کوئی ایک درست ترین ہے .......

عقل انسانی اور فلسفہ یہ کہتا ہے کہ حق صرف ایک ہوتا ہے متعدد نہیں کسی بھی امر سے متعلق سچائی صرف ایک ہوتی ہے لاتعداد نہیں اور منزل تک پہنچنے کا درست ترین راستہ صرف ایک ہو سکتا ہے بے شمار نہیں ......

اب جہاں تک اس سوال تعلق ہے

" ہر مذہب کا خدا اس مذہب کے علاوہ باقی سب مذاہب کو جہنم میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والے کے ایمان کا حصہ ہے کہ باقی سب جہنمی ہیں "

اس سوال کے جواب سے پہلے اس بحث کو صاف کر دینا ضروری ہے کہ کیا کوئی خدا ہے اور کیا اس خدا نے جزاء و سزا کے حوالے سے کوئی قانون بنا رکھا ہے

اگر حقیقت میں کوئی خدا ہے تو وہ ایک ہی ہوگا
اور اگر اسکا کوئی ازلی و ابدی قانون ہوگا تو وہ بھی ایک ہی ہوگا

اب یہاں صرف یہ امر باقی رہ جاتا ہے کہ کس مذھب نے خدا کو درست سمجھا
اور کس دین تک خدا کا قانون درست ترین حالت میں پہنچا ..... ؟

ہم اہل مذہب کا ماننا یہ ہے کہ جب اس مادی دنیا میں ہر شے کا کوئی نہ کوئی خالق (manufacturer ) موجود ہے تو بے شک اس دنیا کا خالق (CREATOR) بھی ہے اور جب اس دنیا کا کوئی خالق موجود ہے تو بے شک اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط بھی موجود ہے اور اگر اس خالق کا اپنی مخلوق سے ربط موجود ہے تو بے شک وہ کچھ اصول و قوانین کا بھی اپنی مخلوق سے طالب ہوگا اور بلا شبہ اس نے ان اصول و قوانین کو اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام بھی کر رکھا ہوگا اور یہ بات بھی انتہائی منطقی ہے کہ اس انتظام کا کوئی نہ کوئی اعتبار بھی لوگوں میں ضرور موجود ہوگا .....

اس گفتگو کی جس قدر بھی تفصیل میں جائیں بات ایک نکتے پر آکر رک جاتی ہے کہ باقی تو سب فروعات ہیں حقیقی سوال یہ ہے کہ آپ الہی معاملات کو ٹھیٹ مادی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا آپ کے پاس وہ روحانی آنکھ موجود ہے کہ جو ان کی حقیقت کو پا سکے .....

اور پھر ان تمام مذاہب کے اندر کوئی درست ترین مذھب کوئی صحیح ترین دین بھی موجود ہے اور اس درست ترین مذھب اور صحیح ترین دین تک لوگوں کا پہنچ جانا بھی عین ممکن ہے .
بات صرف یہ ہے کہ آپ کے اندر وہ استعداد اور صلاحیت موجود ہے بھی یا نہیں .. !
یہ پوسٹ assumptions سے بھری پڑی ہے
 

فاتح

لائبریرین
جنت اور جہنم میں جانے پر آپ کا ایمان ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب دیں۔ آپ نے میرے ایمان کے متعلق پوچھا، سو مجھے آپ کے ایمان کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے۔
آپ نے جو وجہ بیان کی ہے وہ غلط ہے کہ چونکہ "آپ" سے پوچھا گیا تھا۔اقتباسات بیک ٹریک کرتے ہوئے اصل سوال پر واپس پہنچیں اور دوبارہ غور کریں کہ کیا وہ سوال آپ سے کیا گیا تھا۔ آپ تو بلا وجہ ہی بن بلائے مہمان کے طور پر بیچ میں کود پڑے تھے۔ :)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
خلاصہ: سب جہنمی، دوزخی، زندیق، جھوٹے، کذاب، فلاں ڈھمکاں ہیں، صرف میں جنتی اور میرا مذہب سچا ہے۔ حق حق حق :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

ربیع م

محفلین
کسی بھی فکر نظریے یا سوچ کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کیلئے جو واسطے انسانی دنیا میں استعمال ہوتے ہیں ان کا تعلق عقل انسانی سے ہے یعنی جو بات کسی دور میں ایک بڑے گروہ کی عقل کو متاثر کر جاوے اسے اعتقاد کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے یہ (Quantitative Approach) مقداری نظریہ تحقیق ہے دوسری جانب گروہ انسانی کے عقلا کے نزدیک کوئی بات حق ثابت ہو جاوے یا تجربات کی بھٹی سے گزرنے کے بعد کسی بات کا حق ثابت ہو جانا (Qualitative Research) کے زمرے میں آوے گا ....

بہت خوب حسیب احمد حسیب آپ نے حق ادا کر دیا۔
 

ربیع م

محفلین
یہ پوسٹ assumptions سے بھری پڑی ہے

محترم جو غلط مفروضات ہیں ان کی وضاحت بھی فرما دیجئے۔

خلاصہ: سب جہنمی، دوزخی، زندیق، جھوٹے، کذاب، فلاں ڈھمکاں ہیں، صرف میں جنتی اور میرا مذہب سچا ہے۔ حق حق حق :rollingonthefloor::rollingonthefloor:

آپ نے تو سستے میں ہی جان چھڑوا لی مبارک
 
آپ نے جو وجہ بیان کی ہے وہ غلط ہے کہ چونکہ "آپ" سے پوچھا گیا تھا۔اقتباسات بیک ٹریک کرتے ہوئے اصل سوال پر واپس پہنچیں اور دوبارہ غور کریں کہ کیا وہ سوال آپ سے کیا گیا تھا۔ آپ تو بلا وجہ ہی بن بلائے مہمان کے طور پر بیچ میں کود پڑے تھے۔ :)
یہ ایک کھلا فورم ہے، جہاں سب ارکان اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے اور متعلقہ مسئلے پر بحث کرتے ہیں، اگر آپ کی بن بلائے مہمان والی بات کو صحیح مان لیا جائے تو پھر محترم آپ خود پہلے اس کی زد میں آتے ہیں، اقتباسات بیک ٹریک کرتے ہوئے اصل سوال پر تشریف لائیں اور پھر بتائیں کہ آپ کو حسیب احمد حسیب صاحب نے کب دعوت نامہ ارسال کیا تھا کہ آپ ان کے مراسلے پر آ کر اُن سے سوال کریں۔ اگر کوئی ایسا دعوت نامہ ہے تو دیکھا دیں ۔۔۔ ویسے کس چیز کی ہے اتنی پردہ داری کہ اپنا ایمان ظاہر کرنے کی بجائے لایعنی جوابات سے وقت گزاری کر رہے ہو ؟
 

فاتح

لائبریرین
یہ ایک کھلا فورم ہے، جہاں سب ارکان اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے اور متعلقہ مسئلے پر بحث کرتے ہیں، اگر آپ کی بن بلائے مہمان والی بات کو صحیح مان لیا جائے تو پھر محترم آپ خود پہلے اس کی زد میں آتے ہیں، اقتباسات بیک ٹریک کرتے ہوئے اصل سوال پر تشریف لائیں اور پھر بتائیں کہ آپ کو حسیب احمد حسیب صاحب نے کب دعوت نامہ ارسال کیا تھا کہ آپ ان کے مراسلے پر آ کر اُن سے سوال کریں۔ اگر کوئی ایسا دعوت نامہ ہے تو دیکھا دیں ۔۔۔ ویسے کس چیز کی ہے اتنی پردہ داری کہ اپنا ایمان ظاہر کرنے کی بجائے لایعنی جوابات سے وقت گزاری کر رہے ہو ؟
کیا "آپ" سے پوچھا تھا میں نے؟ میں ایمان ظاہر کروں یا چھپاؤں آپ کو اس سے اتنی پریشانی کیوں ہے ؟
اور شاید آپ کو سمجھانا میرے بس سے باہر ہےکہ میں کسی کے مراسلے پر آیا تھا یا کسی اور نے میرے مراسلے پر جواب دیا تھا۔
اس لڑی کا مراسلہ نمبر 172 دیکھیں اور اس کے بعد میں مودبانہ درخواست کروں گا کہ مجھے مخاطب مت کریں۔ محفل میں اور بہتیرے ہیں جو آپ سے بات کرنا چاہیں گے لیکن میں ان میں سے نہیں۔ شکریہ
 
کیا "آپ" سے پوچھا تھا میں نے؟ میں ایمان ظاہر کروں یا چھپاؤں آپ کو اس سے اتنی پریشانی کیوں ہے ؟
اور شاید آپ کو سمجھانا میرے بس سے باہر ہےکہ میں کسی کے مراسلے پر آیا تھا یا کسی اور نے میرے مراسلے پر جواب دیا تھا۔
اس لڑی کا مراسلہ نمبر 172 دیکھیں اور اس کے بعد میں مودبانہ درخواست کروں گا کہ مجھے مخاطب مت کریں۔ محفل میں اور بہتیرے ہیں جو آپ سے بات کرنا چاہیں گے لیکن میں ان میں سے نہیں۔ شکریہ
مراسلہ نمبر 170 یہ ثابت کرتا ہے کہ جناب بنا دعوت کے اس لڑی پر تشریف فرما ہوئے تھے :p:p۔ تو پھر ہم سے دعوت نامے کا تقاضا کیوں ؟؟
کیا "آپ" سے پوچھا تھا میں نے؟
جی ہاں، پوچھا تھا۔ ذرا غور سے پڑھیں۔۔۔۔
بڑا سادہ سا سوال تھا کہ آپ کا بھی یہ ایمان ہے یا نہیں؟ بس، اس سے زیادہ نہ مجھے درکار تھا اور نہ ہے
ویسے جب جناب نے "ہمارے ہاں" اور "اپنے ہاں" کا واضع فرق بیان کیا ہے
آپ کے ہاں پیارے کی نجانے کیا ڈیفینیشن ہے لیکن یقین مانیے، ہمارے ہاں اسے پیارا نہیں بلکہ کچھ ارو کہتے ہیں، خیر جانے دیجیے۔۔۔
تو پھر تقاضاء عقل ہے کہ جناب سے "آپ کے ہاں" کے بارے میں جانا جائے، یقین کریں اس سے میرے سمیت بہت سوں کے مستقبل کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور جناب کی بھی مستقبل میں "آپ کے ہاں" کے بارے ہونے والے بہت سے سوالوں سے جان چھُوٹ جائے گی۔
اسی" آپ کے ہاں" کے بارے میں ہی جاننے کی جستجو ہے۔ لیکن آپ تو ایسے ڈر رہے ہیں جیسے سرِ بازار نقاب اُلٹ جائے گا۔ جناب کا جواب ہمارے لیے مددگار ثابت ہو گا اور اگلی دفعہ جناب سے بات کرنے سے پہلے مجھے معلوم ہو گا کہ " آپ کے ہاں" کے دستور و قوانین کیا ہیں :p:p۔ امید ہے جناب بنا غصہ کیے جواب عنایت کریں گے۔ ویسے اسی سے ملتا جُلتا ایک سوال بدر الفاتح بھائی نے بھی کیا تھا، لیکن جناب وہاں بھی غصہ فرما گئے، حیرت ہے
 
آخری تدوین:
میں ایمان ظاہر کروں یا چھپاؤں آپ کو اس سے اتنی پریشانی کیوں ہے ؟
جب جناب کو دوسروں کے ایمانوں کو جاننے کی بڑی جستجو ہے تو لامحالہ دوسرے بھی جناب سے اُسی طرح کا سوال کریں گے(ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے)۔ جناب اوروں سے پوچھنا چھوڑ دیں، تو کوئی آپ سے سوال نہیں کرے گا۔
 
Top