IMG-20230215-130748.jpg
ڈھکن کی بھی کیا قسمت ہے کہ ان ڈھکنوں کے ہاتھ آ گیا
 

جاسمن

لائبریرین
پتہ نہیں ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہر طرح کے بڑے لوگ بالآخر چلے ہی گئے۔ رہے نام اللہ کا۔
الحمدللہ ہم نے اپنے ادارے میں امہات المومنین کے ناموں کی تختیاں لگائی ہیں مختلف عمارتوں کی پیشانی اور باغیچوں کے کنارے۔
 

سیما علی

لائبریرین
پتہ نہیں ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہر طرح کے بڑے لوگ بالآخر چلے ہی گئے۔ رہے نام اللہ کا۔
الحمدللہ ہم نے اپنے ادارے میں امہات المومنین کے ناموں کی تختیاں لگائی ہیں مختلف عمارتوں کی پیشانی اور باغیچوں کے کنارے۔
واہ بٹیا یہ تو بہت اچھا کام ہے اس طرح بچے اُنکے ناموں اور کاموں سے آگاہی حاصل کریں گے ۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
کسی نے کئی بار مجھے کہا کہ میڈم فلاں عمارت پہ اپنی تختی لگا لیں۔ یہ سوچ کر ہی عجیب لگا۔ کب تک لگی رہ سکے گی۔ میرے بعد اگلے لوگوں کو میرے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہو گا۔ یا تو یہ تختی میرے دفتر کے باہر لگی تختی کی طرح کوئی ہٹا دے گا یا خود ہی ختم ہو جائے گی۔ جیسے بہت بڑے سیاستدان کی تختی ہمارے ادارے میں لگی تھی تو خود ہی وقت کے ہاتھوں اس کی زندگی میں ہی ختم ہو گئی۔
ایک فلاحی کام کرنے والے مشہور شخص نے ہمارے لیے ایک چھوٹا سا پراجیکٹ بنانے کا وعدہ اس وعدے پہ کیا کہ اس پہ اس کے نام کی تختی لگائی جائے گی۔ ہمیں لالچ تھا، ہم نے وعدہ کر لیا لیکن تختی اور چائے بمعہ لوازمات پہ کافی خرچہ آ گیا تو ہم نے توبہ کر لی۔ یہ توبہ اس وقت ٹوٹی ، جب ایسے ہی ایک دوسرے شخص نے پانی کا بجلی سے چلنے والا کولر لگا کر دیا اور بچوں کو وظائف اس شرط پہ دیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے دیں گے نیز ایک خاص مذہب والوں کو نہیں دیں گے۔ ہمیں مذہب والی بات بری لگی لیکن وہی کہ ہم بچوں اور ادارے کے لیے لالچ کر بیٹھتے ہیں۔ چلو کچھ غریب بچےلوں کا تو بھلا ہو گا۔ دوسرے مذہب والوں کو ہم خود کہیں سے کر دیں گے۔ اس بندے نے اتنے پروٹوکول کی خواہش کی اور غیر حاضر طلبہ کو دوبارہ آ کر دینے کے لیے کہا کہ ہم نے دوبارہ انھیں نہیں بلایا۔
 

عثمان

محفلین
نیز ایک خاص مذہب والوں کو نہیں دیں گے۔ ہمیں مذہب والی بات بری لگی لیکن وہی کہ ہم بچوں اور ادارے کے لیے لالچ کر بیٹھتے ہیں۔ چلو کچھ غریب بچےلوں کا تو بھلا ہو گا۔ دوسرے مذہب والوں کو ہم خود کہیں سے کر دیں گے۔
فرض کریں کہ آئیندہ ایسا ہی ایک ڈونر اس سے بھی کہیں زیادہ پرکشش پیشکش لے کر آئے اس شرط کے ساتھ کہ کسی مخصوص مذہب/فرقہ/جنس کے طلباء اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا سکول انتظامیہ منظور کر لے گی؟ کیا اوپر اختیار کیا گیا استدلال وہاں بھی کارگر نہیں ہوگا؟ یعنی کچھ مستحقین کا تو بھلاہوگا باقیوں کو ہم ایڈجسٹ کر لیں گے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کے اقدامات (نسبتاً آسودہ حال گروہ کے لیے)محض محدوو فوائد ہی رکھیں اور ان کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔ بلکہ ایسے اقدمات دیگر رہ جانے والے افراد کو مقابلے میں مزید پیچھے دھکیلنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مثلاً فرض کریں کہ سکول انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکول کے احاطہ میں نو تعمیر کارپارکنگ میں جگہ محدود ہونے کے سبب صرف مرد اساتذہ کو کار پارکنگ کی سہولت ہے جبکہ خواتین حسب سابق اپنا بندوبست خود کریں۔کیا یہ فیصلہ خواتین ایمپلائیز پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑے گا؟ دراصل اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی جانبدار سہولیات کے باعث ان آسامیوں پر مرد اساتذہ کی تعداد بڑھے گی اور خواتین اساتذہ جو آمدورفت کے معاملے میں پہلے ہی مشکلات کا شکار رہتی ہیں ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی یہاں تک کہ بتدریج ان کی تعداد ادارے میں کم رہ جائے گی۔
سکول اگر بیان کردہ تعلیمی وظیفہ قبول کرلیتا تو معتوب فرقہ/مذہب کے طلباء مقابلےمیں مزیدپیچھے رہ جاتے۔ ناصرف یہ کہ مالی وسائل کے اعتبار سے ان کےلیے راستہ پہلے کی طرح کٹھن ہی رہتا بلکہ دیگرطلباء اس سہولت سے مزید فائدہ اٹھاتے کہ اب مذکورہ فرقہ کے ذہین طلباء ان کے مدمقابل نہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
فرض کریں کہ آئیندہ ایسا ہی ایک ڈونر اس سے بھی کہیں زیادہ پرکشش پیشکش لے کر آئے اس شرط کے ساتھ کہ کسی مخصوص مذہب/فرقہ/جنس کے طلباء اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا سکول انتظامیہ منظور کر لے گی؟ کیا اوپر اختیار کیا گیا استدلال وہاں بھی کارگر نہیں ہوگا؟ یعنی کچھ مستحقین کا تو بھلاہوگا باقیوں کو ہم ایڈجسٹ کر لیں گے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کے اقدامات (نسبتاً آسودہ حال گروہ کے لیے)محض محدوو فوائد ہی رکھیں اور ان کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔ بلکہ ایسے اقدمات دیگر رہ جانے والے افراد کو مقابلے میں مزید پیچھے دھکیلنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مثلاً فرض کریں کہ سکول انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکول کے احاطہ میں نو تعمیر کارپارکنگ میں جگہ محدود ہونے کے سبب صرف مرد اساتذہ کو کار پارکنگ کی سہولت ہے جبکہ خواتین حسب سابق اپنا بندوبست خود کریں۔کیا یہ فیصلہ خواتین ایمپلائیز پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑے گا؟ دراصل اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی جانبدار سہولیات کے باعث ان آسامیوں پر مرد اساتذہ کی تعداد بڑھے گی اور خواتین اساتذہ جو آمدورفت کے معاملے میں پہلے ہی مشکلات کا شکار رہتی ہیں ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی یہاں تک کہ بتدریج ان کی تعداد ادارے میں کم رہ جائے گی۔
سکول اگر بیان کردہ تعلیمی وظیفہ قبول کرلیتا تو معتوب فرقہ/مذہب کے طلباء مقابلےمیں مزیدپیچھے رہ جاتے۔ ناصرف یہ کہ مالی وسائل کے اعتبار سے ان کےلیے راستہ پہلے کی طرح کٹھن ہی رہتا بلکہ دیگرطلباء اس سہولت سے مزید فائدہ اٹھاتے کہ اب مذکورہ فرقہ کے ذہین طلباء ان کے مدمقابل نہیں۔
ہمارا قصہ اور حالات آپ کی دی گئی مثالوں سے مناسبت نہیں رکھتے۔ الحمدللہ ہم اپنے طلبہ کے لیے حکومتی وظائف کے علاؤہ اپنے ادارے کی طرف سے حتی المقدور کوشش کرتے ہیں سب مستحق طلبہ کی مدد کرنے کے لیے۔ پھر بھی ایک کثیر تعداد بچ جاتی ہے تو ہم سٹاف فنڈ سے مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی کئی بچے رہ جاتے ہیں کہ جن کے لیے ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ ہم نے بک بینک، یونیفارم بینک وغیرہ جیسی سہولیات بھی دی ہوئی ہیں لیکن غربت ہے ہی زیادہ۔
ان حضرت سے اسی لیے مدد لینے کو تیار ہو گئے تھے کہ چلیں کچھ طلبہ کی ان کی طرف سے مدد ہو جائے گی اور باقی کی مدد ہم حسب سابق کرتے رہیں گے۔
 

جاسمن

لائبریرین
گڈ ہوگیا...
جس کو جائز طریقہ سے جتنی سہولت پہنچا سکیں بہتر ہے!!!
ایسا ہی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنی پسند اور ناپسند کے خلاف بھی چلنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کی عادات اور رویے پسند نہیں ہوتے، ان لوگوں سے اختلافات ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے ادارے اور بچوں کے لیے ان سے بنا کے رکھتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
ایسا ہی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنی پسند اور ناپسند کے خلاف بھی چلنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کی عادات اور رویے پسند نہیں ہوتے، ان لوگوں سے اختلافات ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے ادارے اور بچوں کے لیے ان سے بنا کے رکھتے ہیں۔
بڑی بات ہے!!!
 

محمد وارث

لائبریرین
فرض کریں کہ آئیندہ ایسا ہی ایک ڈونر اس سے بھی کہیں زیادہ پرکشش پیشکش لے کر آئے اس شرط کے ساتھ کہ کسی مخصوص مذہب/فرقہ/جنس کے طلباء اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا سکول انتظامیہ منظور کر لے گی؟ کیا اوپر اختیار کیا گیا استدلال وہاں بھی کارگر نہیں ہوگا؟ یعنی کچھ مستحقین کا تو بھلاہوگا باقیوں کو ہم ایڈجسٹ کر لیں گے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کے اقدامات (نسبتاً آسودہ حال گروہ کے لیے)محض محدوو فوائد ہی رکھیں اور ان کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔ بلکہ ایسے اقدمات دیگر رہ جانے والے افراد کو مقابلے میں مزید پیچھے دھکیلنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مثلاً فرض کریں کہ سکول انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکول کے احاطہ میں نو تعمیر کارپارکنگ میں جگہ محدود ہونے کے سبب صرف مرد اساتذہ کو کار پارکنگ کی سہولت ہے جبکہ خواتین حسب سابق اپنا بندوبست خود کریں۔کیا یہ فیصلہ خواتین ایمپلائیز پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑے گا؟ دراصل اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی جانبدار سہولیات کے باعث ان آسامیوں پر مرد اساتذہ کی تعداد بڑھے گی اور خواتین اساتذہ جو آمدورفت کے معاملے میں پہلے ہی مشکلات کا شکار رہتی ہیں ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی یہاں تک کہ بتدریج ان کی تعداد ادارے میں کم رہ جائے گی۔
سکول اگر بیان کردہ تعلیمی وظیفہ قبول کرلیتا تو معتوب فرقہ/مذہب کے طلباء مقابلےمیں مزیدپیچھے رہ جاتے۔ ناصرف یہ کہ مالی وسائل کے اعتبار سے ان کےلیے راستہ پہلے کی طرح کٹھن ہی رہتا بلکہ دیگرطلباء اس سہولت سے مزید فائدہ اٹھاتے کہ اب مذکورہ فرقہ کے ذہین طلباء ان کے مدمقابل نہیں۔
عثمان صاحب سادہ الفاظ میں آپ اسے ہماری تضاد بیانی سمجھیں (ایک اور لفظ بھی ہے لیکن وہ شاید زیادہ کڑوا ہے) کہ علمی طور پر ہم ترقی یافتہ معاشروں کےقاعدے قواعد ، عدل و انصاف، تعمیر و ترقی کے گن گاتے ہیں اور خود عملی وقت جب آتا ہے تو مصلحت کوش ہو جاتے ہیں۔ اسی اسکول والے واقعے کو لے لیں، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈونر پاکستان کے اکثریتی مذہب/فرقے سے ہوگا اور اس نے کسی اقلیتی مذہب/فرقے (احمدی، مسیحی یا شیعہ) کے بارے میں یہ کہا ہوگا کہ ان بچوں کی مدد نہ کی جائے۔ اب چونکہ اسکول انتظامیہ بھی اسی اکثریتی گروپ سے ہوگی تو آسانی سے معاملہ طے پا گیا۔ اب اس کا الٹ فرض کر کے دیکھیں، یہی ڈونر اگر اقلیتی گروپ سے ہوتا اور ایسی ہی شرط لگا دیتا کہ اکثریتی گروپ والے بچے کو وظیفہ نہیں ملے گا تو اسکول والے شاید اس کو کبھی اسکول میں بھی نہ گھسنے دیتے۔
 

جاسمن

لائبریرین
عثمان صاحب سادہ الفاظ میں آپ اسے ہماری تضاد بیانی سمجھیں (ایک اور لفظ بھی ہے لیکن وہ شاید زیادہ کڑوا ہے) کہ علمی طور پر ہم ترقی یافتہ معاشروں کےقاعدے قواعد ، عدل و انصاف، تعمیر و ترقی کے گن گاتے ہیں اور خود عملی وقت جب آتا ہے تو مصلحت کوش ہو جاتے ہیں۔ اسی اسکول والے واقعے کو لے لیں، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈونر پاکستان کے اکثریتی مذہب/فرقے سے ہوگا اور اس نے کسی اقلیتی مذہب/فرقے (احمدی، مسیحی یا شیعہ) کے بارے میں یہ کہا ہوگا کہ ان بچوں کی مدد نہ کی جائے۔ اب چونکہ اسکول انتظامیہ بھی اسی اکثریتی گروپ سے ہوگی تو آسانی سے معاملہ طے پا گیا۔ اب اس کا الٹ فرض کر کے دیکھیں، یہی ڈونر اگر اقلیتی گروپ سے ہوتا اور ایسی ہی شرط لگا دیتا کہ اکثریتی گروپ والے بچے کو وظیفہ نہیں ملے گا تو اسکول والے شاید اس کو کبھی اسکول میں بھی نہ گھسنے دیتے۔
تب بھی ہم گھسنے دیتے۔ :)
آپ دونوں صاحبان کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن سر جی! زمینی حقائق بہت مختلف اور تلخ ہوتے ہیں۔ اگر اقلیتی گروہ کے لیے مدد آتی جوکہ آتی بھی ہے، تو ہم انھیں دینے میں مدد کرتے کہ چلیں کچھ بچے تو مستفید ہوں گے۔ کچھ کے مسائل تو حل ہوں گے۔ باقی کے لیے بھی ہم کوشش کرتے رہیں گے۔
ہم نے اپنے بچوں کو پڑھنے کے مواقع دینے ہیں، اپنے اصولوں پہ اڑ کے ان سے یہ مواقع چھین نہیں لینے۔
بہرحال اپنا اپنا نقطہ نظر ہے۔ ہم مطمئن ہیں کہ ہم نے اچھی نیت سے یہ کام کیا۔ اور باقی بچوں کی مدد بھی کی الحمدللہ اور کرتے رہتے ہیں رب کی توفیق سے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک وٹزایپ گروہ ہے کہ جس میں مختلف نوعیت کی نوکریاں، سکالرشپس وغیرہ بچوں سے شریک کرتے ہیں۔ عیسائی بچوں کے لیے ایک سکالرشپ آیا۔ فوراً نوٹس بورڈ پہ لگایا۔ کلرک کو ایک کاپی دی کہ عیسائی بچوں کو فارم دیں ۔
 
اس بنیاد پر اسکولوں ، کالجوں یا کسی بھی ادارے یا شخص کی سطح پر تعصب قابل مذمت عمل ہے ۔ میں قادیانیوں سے اختلاف رکھتا ہوں میری اپنی رائے ہے بحث یا انکے عقائد کو اسلام کے مطابق نہیں سمجھتا یہ بھی الگ بات ہے لیکن مجھے یہ حق ہر گز نہیں ہے کہ میں بچوں کو ان کے قادیانی ، ملحد یا کسی دیگر مذہب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے فلٹر آؤٹ کر دوں ۔ اختلاف رائے یا عقیدہ اپنی جگہ اس پر بات ہو سکتی ہےلیکن اس وجہ سے انہیں معاشرے سے نکال دینا کہ وہ کسی اور دین یا مذہب کے پیروکار ہیں بالکل غلط ہے، اپنی رائے بیان کریں وہ بھی موعظہ حسنہ کے ساتھ، اس سے جو آپ کی بات سمجھ سکتا ہو ۔ غلط موقع پر غلط طریقے سےناحق بھگا دینا آپ اسے کیسے منصفانہ ثابت کر سکتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ایک ماں کے دس بچے ہیں۔ دو کالے اور آٹھ گورے۔ دو کالوں میں سے ایک، آٹھ گوروں میں سے تین سپیشل بچے ہیں۔ انھیں علاج کی ضرورت ہے۔ ماں غریب ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں آپ کے گورے بچوں کا علاج کرا دیتا ہوں لیکن کالے بچے کا علاج نہیں کراؤں گا۔ ماں بہت برا محسوس کرتی ہے۔ اس کے پاس اس امتیاز کے خلاف بہت دلائل ہیں لیکن وہ اپنے دو گورے بچوں کا علاج کرا لیتی ہے اور اس شخص سے ذاتی بات چیت میں اس امتیاز کی مذمت بھی کرتی ہے۔ اب ایک گورا اور ایک کالا بچہ رہ گیا اور ان کے علاج کا بندوبست وہ کسی اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس شخص کی سوچ سے میرے سمیت یہاں موجود بیشتر لوگوں کو اختلاف ہے۔
ماں کے عمل سے کسے اختلاف ہے؟
 

سید عمران

محفلین
ایک ماں کے دس بچے ہیں۔ دو کالے اور آٹھ گورے۔ دو کالوں میں سے ایک، آٹھ گوروں میں سے تین سپیشل بچے ہیں۔ انھیں علاج کی ضرورت ہے۔ ماں غریب ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں آپ کے گورے بچوں کا علاج کرا دیتا ہوں لیکن کالے بچے کا علاج نہیں کراؤں گا۔ ماں بہت برا محسوس کرتی ہے۔ اس کے پاس اس امتیاز کے خلاف بہت دلائل ہیں لیکن وہ اپنے دو گورے بچوں کا علاج کرا لیتی ہے اور اس شخص سے ذاتی بات چیت میں اس امتیاز کی مذمت بھی کرتی ہے۔ اب ایک گورا اور ایک کالا بچہ رہ گیا اور ان کے علاج کا بندوبست وہ کسی اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس شخص کی سوچ سے میرے سمیت یہاں موجود بیشتر لوگوں کو اختلاف ہے۔
ماں کے عمل سے کسے اختلاف ہے؟
جس نے امتیازی رویہ اختیار کیا تھا وہ تو یہاں ہے نہیں لہذا اسے برا بھلا کہنا وقت کا زیاں ہے...
باقی اس نے جو برا کیا اسے تو سب برا کہہ رہے ہیں...
اگرچہ یہ ایک آدمی کی انفرادی سوچ ہے. مگر بڑے ملک بھی یہی سوچ لے کر چلتے ہیں. چھوٹے ملک میں جس کی چاہے حکومت گرائی جسے چاہا قتل کروایا...
تو اس بے چارے نے کون سی نئی بات کردی...
باقی آپ نے جو کیا سو فیصد درست کیا. آئندہ بھی اس پالیسی سے ذرہ برابر روگردانی نہ کیجیے گا. جو اصول کسی کی نفع رسانی میں حائل ہوں ایسے اصول جائیں بھاڑ میں...
ویسے بھی اصول انسان کی نفع رسانی کے لیے بنائے جاتے ہیں. اگر یہ اس کام میں رکاوٹ کا باعث بنیں تو انہیں راہ سے ہٹانے میں پل بھر کی بھی دیر نہ کریں!!!
 
Top