جاسمن
لائبریرین
نیا ڈھکن ہے۔ اوپر ریپر ہے۔مجھے تو یہ ڈھکن اتروائی کی تقریب لگتی ہے۔ ذرا ڈھکن کی حالت تو ملاحظہ ہو۔
نیا ڈھکن ہے۔ اوپر ریپر ہے۔مجھے تو یہ ڈھکن اتروائی کی تقریب لگتی ہے۔ ذرا ڈھکن کی حالت تو ملاحظہ ہو۔
ڈھکن کی بھی کیا قسمت ہے کہ ان ڈھکنوں کے ہاتھ آ گیا
واپڈا کی چوکی فتح کرنا کیا جنرل صاحب کا کوئی معمولی کارنامہ ہے؟
واہ بٹیا یہ تو بہت اچھا کام ہے اس طرح بچے اُنکے ناموں اور کاموں سے آگاہی حاصل کریں گے ۔۔پتہ نہیں ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہر طرح کے بڑے لوگ بالآخر چلے ہی گئے۔ رہے نام اللہ کا۔
الحمدللہ ہم نے اپنے ادارے میں امہات المومنین کے ناموں کی تختیاں لگائی ہیں مختلف عمارتوں کی پیشانی اور باغیچوں کے کنارے۔
فرض کریں کہ آئیندہ ایسا ہی ایک ڈونر اس سے بھی کہیں زیادہ پرکشش پیشکش لے کر آئے اس شرط کے ساتھ کہ کسی مخصوص مذہب/فرقہ/جنس کے طلباء اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا سکول انتظامیہ منظور کر لے گی؟ کیا اوپر اختیار کیا گیا استدلال وہاں بھی کارگر نہیں ہوگا؟ یعنی کچھ مستحقین کا تو بھلاہوگا باقیوں کو ہم ایڈجسٹ کر لیں گے۔نیز ایک خاص مذہب والوں کو نہیں دیں گے۔ ہمیں مذہب والی بات بری لگی لیکن وہی کہ ہم بچوں اور ادارے کے لیے لالچ کر بیٹھتے ہیں۔ چلو کچھ غریب بچےلوں کا تو بھلا ہو گا۔ دوسرے مذہب والوں کو ہم خود کہیں سے کر دیں گے۔
ہمارا قصہ اور حالات آپ کی دی گئی مثالوں سے مناسبت نہیں رکھتے۔ الحمدللہ ہم اپنے طلبہ کے لیے حکومتی وظائف کے علاؤہ اپنے ادارے کی طرف سے حتی المقدور کوشش کرتے ہیں سب مستحق طلبہ کی مدد کرنے کے لیے۔ پھر بھی ایک کثیر تعداد بچ جاتی ہے تو ہم سٹاف فنڈ سے مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی کئی بچے رہ جاتے ہیں کہ جن کے لیے ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ ہم نے بک بینک، یونیفارم بینک وغیرہ جیسی سہولیات بھی دی ہوئی ہیں لیکن غربت ہے ہی زیادہ۔فرض کریں کہ آئیندہ ایسا ہی ایک ڈونر اس سے بھی کہیں زیادہ پرکشش پیشکش لے کر آئے اس شرط کے ساتھ کہ کسی مخصوص مذہب/فرقہ/جنس کے طلباء اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا سکول انتظامیہ منظور کر لے گی؟ کیا اوپر اختیار کیا گیا استدلال وہاں بھی کارگر نہیں ہوگا؟ یعنی کچھ مستحقین کا تو بھلاہوگا باقیوں کو ہم ایڈجسٹ کر لیں گے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کے اقدامات (نسبتاً آسودہ حال گروہ کے لیے)محض محدوو فوائد ہی رکھیں اور ان کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔ بلکہ ایسے اقدمات دیگر رہ جانے والے افراد کو مقابلے میں مزید پیچھے دھکیلنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مثلاً فرض کریں کہ سکول انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکول کے احاطہ میں نو تعمیر کارپارکنگ میں جگہ محدود ہونے کے سبب صرف مرد اساتذہ کو کار پارکنگ کی سہولت ہے جبکہ خواتین حسب سابق اپنا بندوبست خود کریں۔کیا یہ فیصلہ خواتین ایمپلائیز پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑے گا؟ دراصل اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی جانبدار سہولیات کے باعث ان آسامیوں پر مرد اساتذہ کی تعداد بڑھے گی اور خواتین اساتذہ جو آمدورفت کے معاملے میں پہلے ہی مشکلات کا شکار رہتی ہیں ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی یہاں تک کہ بتدریج ان کی تعداد ادارے میں کم رہ جائے گی۔
سکول اگر بیان کردہ تعلیمی وظیفہ قبول کرلیتا تو معتوب فرقہ/مذہب کے طلباء مقابلےمیں مزیدپیچھے رہ جاتے۔ ناصرف یہ کہ مالی وسائل کے اعتبار سے ان کےلیے راستہ پہلے کی طرح کٹھن ہی رہتا بلکہ دیگرطلباء اس سہولت سے مزید فائدہ اٹھاتے کہ اب مذکورہ فرقہ کے ذہین طلباء ان کے مدمقابل نہیں۔
گڈ ہوگیا...ان حضرت سے اسی لیے مدد لینے کو تیار ہو گئے تھے کہ چلیں کچھ طلبہ کی ان کی طرف سے مدد ہو جائے گی اور باقی کی مدد ہم حسب سابق کرتے رہیں گے۔
ایسا ہی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنی پسند اور ناپسند کے خلاف بھی چلنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کی عادات اور رویے پسند نہیں ہوتے، ان لوگوں سے اختلافات ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے ادارے اور بچوں کے لیے ان سے بنا کے رکھتے ہیں۔گڈ ہوگیا...
جس کو جائز طریقہ سے جتنی سہولت پہنچا سکیں بہتر ہے!!!
بڑی بات ہے!!!ایسا ہی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنی پسند اور ناپسند کے خلاف بھی چلنا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کی عادات اور رویے پسند نہیں ہوتے، ان لوگوں سے اختلافات ہوتے ہیں لیکن ہم اپنے ادارے اور بچوں کے لیے ان سے بنا کے رکھتے ہیں۔
عثمان صاحب سادہ الفاظ میں آپ اسے ہماری تضاد بیانی سمجھیں (ایک اور لفظ بھی ہے لیکن وہ شاید زیادہ کڑوا ہے) کہ علمی طور پر ہم ترقی یافتہ معاشروں کےقاعدے قواعد ، عدل و انصاف، تعمیر و ترقی کے گن گاتے ہیں اور خود عملی وقت جب آتا ہے تو مصلحت کوش ہو جاتے ہیں۔ اسی اسکول والے واقعے کو لے لیں، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈونر پاکستان کے اکثریتی مذہب/فرقے سے ہوگا اور اس نے کسی اقلیتی مذہب/فرقے (احمدی، مسیحی یا شیعہ) کے بارے میں یہ کہا ہوگا کہ ان بچوں کی مدد نہ کی جائے۔ اب چونکہ اسکول انتظامیہ بھی اسی اکثریتی گروپ سے ہوگی تو آسانی سے معاملہ طے پا گیا۔ اب اس کا الٹ فرض کر کے دیکھیں، یہی ڈونر اگر اقلیتی گروپ سے ہوتا اور ایسی ہی شرط لگا دیتا کہ اکثریتی گروپ والے بچے کو وظیفہ نہیں ملے گا تو اسکول والے شاید اس کو کبھی اسکول میں بھی نہ گھسنے دیتے۔فرض کریں کہ آئیندہ ایسا ہی ایک ڈونر اس سے بھی کہیں زیادہ پرکشش پیشکش لے کر آئے اس شرط کے ساتھ کہ کسی مخصوص مذہب/فرقہ/جنس کے طلباء اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ کیا سکول انتظامیہ منظور کر لے گی؟ کیا اوپر اختیار کیا گیا استدلال وہاں بھی کارگر نہیں ہوگا؟ یعنی کچھ مستحقین کا تو بھلاہوگا باقیوں کو ہم ایڈجسٹ کر لیں گے۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس قسم کے اقدامات (نسبتاً آسودہ حال گروہ کے لیے)محض محدوو فوائد ہی رکھیں اور ان کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔ بلکہ ایسے اقدمات دیگر رہ جانے والے افراد کو مقابلے میں مزید پیچھے دھکیلنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
مثلاً فرض کریں کہ سکول انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکول کے احاطہ میں نو تعمیر کارپارکنگ میں جگہ محدود ہونے کے سبب صرف مرد اساتذہ کو کار پارکنگ کی سہولت ہے جبکہ خواتین حسب سابق اپنا بندوبست خود کریں۔کیا یہ فیصلہ خواتین ایمپلائیز پر کوئی منفی اثر نہیں چھوڑے گا؟ دراصل اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی جانبدار سہولیات کے باعث ان آسامیوں پر مرد اساتذہ کی تعداد بڑھے گی اور خواتین اساتذہ جو آمدورفت کے معاملے میں پہلے ہی مشکلات کا شکار رہتی ہیں ان کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی یہاں تک کہ بتدریج ان کی تعداد ادارے میں کم رہ جائے گی۔
سکول اگر بیان کردہ تعلیمی وظیفہ قبول کرلیتا تو معتوب فرقہ/مذہب کے طلباء مقابلےمیں مزیدپیچھے رہ جاتے۔ ناصرف یہ کہ مالی وسائل کے اعتبار سے ان کےلیے راستہ پہلے کی طرح کٹھن ہی رہتا بلکہ دیگرطلباء اس سہولت سے مزید فائدہ اٹھاتے کہ اب مذکورہ فرقہ کے ذہین طلباء ان کے مدمقابل نہیں۔
تب بھی ہم گھسنے دیتے۔عثمان صاحب سادہ الفاظ میں آپ اسے ہماری تضاد بیانی سمجھیں (ایک اور لفظ بھی ہے لیکن وہ شاید زیادہ کڑوا ہے) کہ علمی طور پر ہم ترقی یافتہ معاشروں کےقاعدے قواعد ، عدل و انصاف، تعمیر و ترقی کے گن گاتے ہیں اور خود عملی وقت جب آتا ہے تو مصلحت کوش ہو جاتے ہیں۔ اسی اسکول والے واقعے کو لے لیں، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈونر پاکستان کے اکثریتی مذہب/فرقے سے ہوگا اور اس نے کسی اقلیتی مذہب/فرقے (احمدی، مسیحی یا شیعہ) کے بارے میں یہ کہا ہوگا کہ ان بچوں کی مدد نہ کی جائے۔ اب چونکہ اسکول انتظامیہ بھی اسی اکثریتی گروپ سے ہوگی تو آسانی سے معاملہ طے پا گیا۔ اب اس کا الٹ فرض کر کے دیکھیں، یہی ڈونر اگر اقلیتی گروپ سے ہوتا اور ایسی ہی شرط لگا دیتا کہ اکثریتی گروپ والے بچے کو وظیفہ نہیں ملے گا تو اسکول والے شاید اس کو کبھی اسکول میں بھی نہ گھسنے دیتے۔
معاشرے میں امتیازی رویے عام ہیں مگر مجبوری میں بہت کچھ روا ہوتا ہے۔ خدا آسانی کا معاملہ کرے۔ماں کے عمل سے کسے اختلاف ہے؟
جس نے امتیازی رویہ اختیار کیا تھا وہ تو یہاں ہے نہیں لہذا اسے برا بھلا کہنا وقت کا زیاں ہے...ایک ماں کے دس بچے ہیں۔ دو کالے اور آٹھ گورے۔ دو کالوں میں سے ایک، آٹھ گوروں میں سے تین سپیشل بچے ہیں۔ انھیں علاج کی ضرورت ہے۔ ماں غریب ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں آپ کے گورے بچوں کا علاج کرا دیتا ہوں لیکن کالے بچے کا علاج نہیں کراؤں گا۔ ماں بہت برا محسوس کرتی ہے۔ اس کے پاس اس امتیاز کے خلاف بہت دلائل ہیں لیکن وہ اپنے دو گورے بچوں کا علاج کرا لیتی ہے اور اس شخص سے ذاتی بات چیت میں اس امتیاز کی مذمت بھی کرتی ہے۔ اب ایک گورا اور ایک کالا بچہ رہ گیا اور ان کے علاج کا بندوبست وہ کسی اور طریقے سے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس شخص کی سوچ سے میرے سمیت یہاں موجود بیشتر لوگوں کو اختلاف ہے۔
ماں کے عمل سے کسے اختلاف ہے؟
صد فی صد درست بات ۔ویسے بھی اصول انسان کی نفع رسانی کے لیے بنائے جاتے ہیں. اگر یہ اس کام میں رکاوٹ کا باعث بنیں تو انہیں راہ سے ہٹانے میں پل بھر کی بھی دیر نہ کریں!!!