پارٹ ٹائم جاب کے علاوہ یہ امکان بھی موجود ہے کہ وہ پڑھ لکھ کے بھی بے روزگار ہو اور اس نے ویلے بیٹھنا مناسب نہ سمجھا ہو. یا شاید یہ اس کا آبائی پیشہ ہو اور ابھی سِیٹس نہ آئی ہوں ٹیچرز کی وغیرہ وغیرہ. جہاں یہ تصویر ملکی حالات کے تاریک پہلو کی نمائندگی کرتی ہے, وہیں یہ اس فرد کے عزم و ہمت کی بھی دلیل ہے. پاکستان میں عام دیکھنے میں آتا ہے کہ پڑھنے لکھنے کے بعد نوجوان بہت سے کاموں کو چھوٹا سمجھ کے ان میں ہاتھ ڈالنے میں شرم محسوس کرتے ہیں. پڑھے لکھے ہونا تو دور کی بات , نئی نسل کے بہت سے کم پڑھے لکھے لوگ بھی کوئی چھوٹا کام کرنے کو (جسے پاکستان میں چھوٹا کہا جاتا ہے) عار سمجھتے ہیں اور دوسرے افراد یا ملک پہ بوجھ بنے رہتے ہیں , ٹَور والے کام کے انتظار میں. حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جب باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو مزدوری بھی کرتے ہیں اور بہت بار جمعدار ہونا بھی قابلِ قبول ہوتا ہے.