کس کا رستہ دیکھے اے دل، اے سودائی
میلوں ہے خاموشی ، برسوں ہے تنہائی
بھولی دُنیا کبھی کی تجھے بھی مجھے بھی
پھر کیوں آنکھ بھر آئی
کوئی بھی سایہ نہیں راہوں میں
کوئی بھی نہیں آئے گا بانہوں میں
تہرے لیئے ، میرے لیئے ، کوئی نہیں رونے والا
جُھوٹا بھی ناطہ نہیں چاہوں میں
تُو ہی کیوں ڈُوبا رہے آہوں میں
کوئی کسی سنگ مرے ایسا نہیں ہونے والا
کوئی نہیں جو جہاں میں بانٹے پیر پرائی
تجھے کیا بیتی ہوئی راتوں سے
مجھے کیا کھوئی ہوئی باتوں سے
سج نہیں ، چِتا سہی ، جو بھی ملے سونا ہوگا
گئی جو ڈوری چُھوٹی ہاتھوں سے
لینا کیا ٹُوٹے ہوئے ساتھوں سے
خوشی جہاں مانگی تُو نے، وہیں مجھے رونا ہوگا
نہ کوئی تیرا ، نہ کوئی میرا
پھر کس کی یاد آئی
کس کا رستہ دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ۔۔۔ “ ک “ سے