انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اسی سوال میں اضافہ: گُلِ یاسمیں آپ نے سویڈن اور جرمنی کا بھی ذکر کیا تھا تو وہاں کے مقامات بھی بتائیں۔

جی ضرور بھائی۔
سویڈن اور جرمنی کے ساتھ انگلینڈ، ناروے، اٹلی، ترکی اور ہالینڈ کا بھی اضافہ کر لیجئیے۔ لیکن صبح لکھیں گے ان شاء اللہ۔

سلامت رہئیے۔
اس کا جواب رہتا ہے۔ ساتھ کچھ اضافہ:
  • ان میں یہ کوئی ملک ایسا ہے جہاں دوبارہ جانا چاہتی ہیں؟ کونسا اور کیوں؟
  • اگر آپ جو صرف ایک ملک جانے کا موقع ملے تو کہاں جانا پسند کریں گی؟
اگلی فرصت میں ان کے جواب دیں گے بھائی۔۔۔ ابھی باقی والے دے لیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ کی صلاحیتوں کا معترف اور آپ سے متاثر تو پہلے بھی تھا لیکن آپ کا انٹرویو (پورا) پڑھا تو آپ کی ہمت ، انسانیت سے ہمدردی اور زندگی کے مطالعہ کے بارے میں جان کر ایک دفعہ پھر آپ کی صلاحیتوں کو داد دینے کو جی کررہا ہے- اللہ سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور آپ کی خوبیوں سے لوگ مستفید ہوتے رہیں
چونکہ یہ آپ سے انٹرویو کی لڑی ہے تو ایک سوال میری طرف سے بھی- جواب دیں اگر مناسب سمجھیں تو -
موجودہ زندگی جیسے آپ گزار رہی ہیں انسانیت کی خدمت کے حوالے سے قابلِ رشک ہے- آپ دوسروں کے دکھ سکھ سنتی ہیں- ان کا غم بانٹنے اور ان کے کام آنے کی کوشش کرتی ہیں- فطری طور پر ہر انسان یہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو اس کے لیے بھی یہ سب کچھ کرے- کوئی کندھا ایسا ہو جس پر سر رکھ کے اپنے غم کا بوجھ ہلکا کیا جاسکے- سوال یہ ہے کہ دنیا میں کس ہستی کو یہ شرف حاصل ہے جس کے سامنے گلِ یاسمین بہت عالی دماغ اور زبردست صلاحیتوں کی مالک ہونے کی بجائے ایک عام سی عورت یا لڑکی ہوتی ہے اور اس سے اپنا دکھ سکھ شیئر کرتی ہے-
بہت شکریہ آپ کا خورشید کہ اتنے اچھے الفاظ میں آپ نے ہماری صلاحیتوں کو سراہا۔ یہ سب اللہ پاک کی دین ہے جنھوں نے ہمیں اس قابل بنایا۔
ضرور ضرور کیجئیے سوال آپ بھی۔۔
ہیں ایک قابلَ تعریف ، قابلِ احترام ہستی جو ہمارے لئے چارہ گر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے نہ دماغ اونچا اور نہ ہماری کوئی صلاحیت با کمال۔۔۔ عام سے بھی عام سمجھتے ہیں تب ہم خود کو۔ دکھ تو نہیں ، بس سکھ ہی سکھ شئیر کرنے ہیں، پھر دکھ خود بخود ختم ہو جانے ہیں ۔

دعاؤں میں یاد رکھئیے گا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بالکل صحیح بات !!!!!بھٹکنے کے لئیے مغرب جانا ضروری نہیں ہے رضا یہاں رہتے ہوئے صرف پابند نمازی تھے انگلینڈ جاکر تہجد گذار ہوگئے یہ اُنہوں نے ہمیں نہیں بتایا
ہم نے خود دیکھا ۔۔۔۔
یہ کہ ہم نے بے حد اچھے بچے بھی دیکھے ہیں یورپ میں اور بہت بگڑے مشرق میں ۔۔۔۔۔۔
بے شک سیما آپا۔۔۔ سنورنا چاہے کوئی تو سنور جاتا ہے، بگڑنا چاہے تو بگڑ جاتا ہے۔ لوگ خواہ مخواہ معاشرے کو موردِ الزام ٹہرانے کی سعی میں اور بے نقاب ہوئے جاتے ہیں۔ بیج تبھی جڑ پکڑ کر نمو پاتے ہیں جب مٹی زرخیز ہو۔ جڑیں نہ پکڑنے والے پودے کو جتنا بھی پانی دیتے رہیں، کھاد ڈالیں مگر کبھی پروان نہیں چڑھتے ۔ یہی معاملہ بچوں کی شخصیت بنانے کا بھی ہے، بنیاد مضبوط بنائی جائے تو بگڑنے کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں۔ باقی آزمائشیں بھی تو انسانوں ہی کے لئے ہیں ۔
اللہ پاک سب کے معاملات میں خیر و عافیت اور برکت ڈالیں آمین
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہنا! لڑی کہاں سے کہاں نکل گئی، اچھا دوبارہ سے اپنے موضوع پر آتے ہیں
بچپن میں آپ نے گو کہ شرارتیں نہیں کیں پھر بھی کوئی بچپن کا دلچسپ واقعہ تو شیئر کرو
آ چکے ہم تو کب سے اپنے موضوع پر۔۔۔

بچپن کا دلچسپ واقعہ ۔۔۔
ہمارے دادا جان تالاب میں بطخوں کے بچے صبح کے ٹائم چھوڑتے اور شام کو انھیں واپس ٹوکری میں ڈال کر باہر نکال لیتے۔ ہم چار سال کے تھے شاید۔۔۔ دادا ابا کے کندھے کے اوپر سے پانی میں جھانک رہے تھے کہ نجانے کیسے پانی میں جا گرے۔ دادا جان بتاتے ہیں کہ انھیں معلوم نہ تھا کہ کون بچہ گرا ہے پانی میں۔ جھٹ چھلانگ لگا دی ۔۔۔ اور ہمیں نکال لیا۔۔ پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ ہم نے بہنا شروع کر دیا تھا۔ ۔۔۔ اففف۔۔۔ نہ نکالا ہوتا تو آج محفل میں نہ ہوتے۔
اس وقت کے حساب سے خوفناک، ہولناک اور دہشتناک ہی تھا ۔۔ اتنی منتوں مرادوں کے بعد پائی بیٹی کو کھونے کا تصور واقعہ ناپسندیدہ رہا ہو گا سب کے لئے۔ لیکن ہمیں ملی سزا ان سب کے لئے عرصہ ء دراز دلچسپ رہی۔ کہ ہمیں کسی بڑے کی موجودگی میں بھی پانی کے نزدیک پھٹکنے کی اجازت نہ تھی۔ پھر وہ چاہنے والے دادا ، دادی رخصت ہوئے تو سزا میں کمی آئی۔
پانی کو دیکھ کر وہ منظر یاد آ جاتا ہے جب ہمیں باہر نکالنے کے بعد بنا کسی لحاظ کے شاور کے نیچے لے جایا گیا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہماری بٹیا کے مزاج میں شائستگی کا عنصر بہت زیادہ ہے اور اخلاق اور ظاہر و باطن ہم پر عیاں ہے اللّہ ہمشہ آپ کے لئے آسانیاں عطا کرے ۔۔۔بہت سا پیار اور ڈھیروں دعائیں جیتی رہیے ۔۔۔۔۔۔
سیما آپا یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ سب ہمیں یہاں اس اردو محفل کے ذریعہ ملے۔۔۔ یہ ہمیں آپ لوگوں سے ملانے کا سبب ہی رکھا تھا شاید اللہ پاک نے۔ اس کے ہر کام میں مصلحت ہے۔۔۔ اسے ہم کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی سمجھ پاتے ہیں۔
اللہ پاک سب کے لئے آسانیاں عطا فرمائیں آمین
 
بہت شکریہ آپ کا خورشید کہ اتنے اچھے الفاظ میں آپ نے ہماری صلاحیتوں کو سراہا۔ یہ سب اللہ پاک کی دین ہے جنھوں نے ہمیں اس قابل بنایا۔
ضرور ضرور کیجئیے سوال آپ بھی۔۔
ہیں ایک قابلَ تعریف ، قابلِ احترام ہستی جو ہمارے لئے چارہ گر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے نہ دماغ اونچا اور نہ ہماری کوئی صلاحیت با کمال۔۔۔ عام سے بھی عام سمجھتے ہیں تب ہم خود کو۔ دکھ تو نہیں ، بس سکھ ہی سکھ شئیر کرنے ہیں، پھر دکھ خود بخود ختم ہو جانے ہیں ۔

دعاؤں میں یاد رکھئیے گا۔

اللہ پاک آپ کو ہمیشہ سکھ ہی سکھ دے اور دکھوں سے بچائے
اور آپکی قابلِ احترام ہستی کو بھی سلامت رکھے آپکی چارہ گری کے لیے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اچھا۔۔۔۔ یہ گرنے پڑنے والی عادت تب سے ہے :LOL::LOL::LOL:
اوہ یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔

کچھ کچھ ملتا جلتا واقع اور بھی ہوا تھا۔۔۔ ابو اور ان کے پانچ بھائی اور ان کی فیملیز۔۔۔ سب گھر ایک ہی لائین میں ہیں۔ شروع میں بیچ میں دیواریں نہیں تھیں۔۔۔ اب آ کر بن گئی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ کہ سب اپنی سہولت سے صحن وغیرہ کو بھی ساتھ شامل کر کے کمرے بنائے کیا جیسے بھی ۔
یہ پانی والے واقع سے بھی پہلے کا ہے۔۔۔ جب ہم دو یا تین سال کے تھے۔ تب دادا ابا نے ہمیشہ دو یا تین بھینسیں بھی رکھی ہوتی تھیں۔ رہائشی حصہ سے جڑے ہوئے ایک بڑے سے کمرے میں۔ اور ایک سائیڈ پہ دادی جان نے لسی بنانے کا سامان رکھا ہوا تھا۔ یہ حصہ تھوڑا نیچے تھا رہائشی حصہ کے برامدہ سے۔ تو ہماری ایک چچی جان نے ہمیں کچھ بولا جاؤ امی جان سے لے کر آؤ۔ ہم ہمیشہ کے حکم بجالانے والے۔۔۔ وہ اونچائی چڑھنے کی کوشش کی۔ مگر گر گئے۔ اینٹ کا کونہ ٹھوڑی پر لگا۔۔۔ اور خون بہنے لگا۔۔ شاید تین ٹانکے لگے۔

آپ حیران تو نہیں نا کہ ہم نے گھر کا نقشہ کیسے بتایا۔۔۔ جبکہ ہم چھوٹے سے تھے۔ اس کے بعد وہ حصہ بھی تعمیر ہو گیا۔ ہمارے بھائی وغیرہ اتنا باریکی سے اس جگہ کی تفصیل سے نہیں بتا سکتے مگر ہم ایک ایک چیز بتا سکتے ہیں۔ جیسے آنکھوں کے سامنے ہو ابھی۔ یہ بھتنی والی خصوصیات بھی شاید تبھی سے ہمارے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔ :rollingonthefloor:

کس دور میں پہنچا دیا بھائی۔۔۔ آنکھوں میں پھرنے لگا وقت۔ بہت کچھ دماغ کی سکرین پر چل رہا اب تو۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اوہ یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔

کچھ کچھ ملتا جلتا واقع اور بھی ہوا تھا۔۔۔ ابو اور ان کے پانچ بھائی اور ان کی فیملیز۔۔۔ سب گھر ایک ہی لائین میں ہیں۔ شروع میں بیچ میں دیواریں نہیں تھیں۔۔۔ اب آ کر بن گئی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ کہ سب اپنی سہولت سے صحن وغیرہ کو بھی ساتھ شامل کر کے کمرے بنائے کیا جیسے بھی ۔
یہ پانی والے واقع سے بھی پہلے کا ہے۔۔۔ جب ہم دو یا تین سال کے تھے۔ تب دادا ابا نے ہمیشہ دو یا تین بھینسیں بھی رکھی ہوتی تھیں۔ رہائشی حصہ سے جڑے ہوئے ایک بڑے سے کمرے میں۔ اور ایک سائیڈ پہ دادی جان نے لسی بنانے کا سامان رکھا ہوا تھا۔ یہ حصہ تھوڑا نیچے تھا رہائشی حصہ کے برامدہ سے۔ تو ہماری ایک چچی جان نے ہمیں کچھ بولا جاؤ امی جان سے لے کر آؤ۔ ہم ہمیشہ کے حکم بجالانے والے۔۔۔ وہ اونچائی چڑھنے کی کوشش کی۔ مگر گر گئے۔ اینٹ کا کونہ ٹھوڑی پر لگا۔۔۔ اور خون بہنے لگا۔۔ شاید تین ٹانکے لگے۔

آپ حیران تو نہیں نا کہ ہم نے گھر کا نقشہ کیسے بتایا۔۔۔ جبکہ ہم چھوٹے سے تھے۔ اس کے بعد وہ حصہ بھی تعمیر ہو گیا۔ ہمارے بھائی وغیرہ اتنا باریکی سے اس جگہ کی تفصیل سے نہیں بتا سکتے مگر ہم ایک ایک چیز بتا سکتے ہیں۔ جیسے آنکھوں کے سامنے ہو ابھی۔ یہ بھتنی والی خصوصیات بھی شاید تبھی سے ہمارے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔ :rollingonthefloor:

کس دور میں پہنچا دیا بھائی۔۔۔ آنکھوں میں پھرنے لگا وقت۔ بہت کچھ دماغ کی سکرین پر چل رہا اب تو۔
ماشاءاللہ، کیسے کیسے انکشافات ہو رہے ہیں :)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ماشاءاللہ، کیسے کیسے انکشافات ہو رہے ہیں :)
ہاں نا بھائی۔۔۔۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں تو ہوتی ہی تھیں۔۔۔ لیکن پھر بھی انھیں شرارتیں تو نہیں کہا جا سکتا۔ بس ہو جاتا تھا کچھ نہ کچھ۔
ہمیں پچھلے کچھ عرصہ تک چائے کچھ خاص پسند نہ تھی۔۔۔ سب بیٹھ کر پیا کرتے اور ہم سوچتے کہ آخر ہے کیا اس میں خوبی۔
جب ہم نے پینا شروع کی تو بھرا تھرماس صرف ہمارے لئے ہوتا ۔ ورنہ دو مگ ایک وقت میں سامنے رکھ کر ہم چائے پیتے۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ دو تو ہوتے ہیں ہیں۔ تھوڑی زیادہ ہو تو تیسرے کپ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے باوجود ندیدہ پن کچھ ایسا حاوی ہو گیا ہے چائے بارے۔۔ کہ مہمانوں کے آنے پر چائے تو ضرور بنے لیکن وہ پینے سے انکار کر دیں اور ہم ہی ساری چائے پئیں۔ لیکن پاکستان میں ہماری چائے کی عادت یکسر چھوٹ جاتی ہے۔
امی جان بتاتی تھیں کہ جب ہم فیڈر پینے والی عمر میں تھے تو چولھے سے اترتے ساتھ والی ابلی چائے پیتے تھے۔ اب بھی ایسی ہی ابلتی چائے پیتے ہیں ۔ ایک سادہ مگ میں ڈالی ہوتی ہے اور دوسری تھرمو کپ میں۔ تاکہ جلدی ٹھنڈی نہ ہو۔ لیکن صرف صبح سویرے ہی ہیں ۔ باقی دن میں صرف قہوہ۔
 
Top