جو بھی فیملی سے جا چکے ہیں اللہ پاک کے پاس۔۔۔ ہمیں اکثر خواب میں ملتے رہتے ہیں۔
آپ کو کس "احساس " سے اسکے " سچے " ہونے کا احساس ہوتا ہے؟کیا پتا واہمہ ہو؟
احساسات لفظوں میں ہو بہو ویسے بیان نہیں کئے جا سکتے جیسے محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ وہ زندگی میں تحلیل ہوئے رہتے ہیں۔ ان کی پیغام رسانی بہت مشکل ہے۔ خرد و جنوں کی سرحدوں پر ظاہر ہونے والے خوابوں کے یہ جلوے صرف وہی محسوس کر پاتا ہے جو محوِ سفر ہوتا ہے۔ شاید اپنوں سے بے پناہ وارفتگی ہی اس کا سبب ہوتی ہے کہ انسان فراق و وصال کو یکساں کیفیات سمجھنے لگتا ہے۔ موجود اور غیر موجود کا فرق ہی نہیں رکھ پاتا۔ خاموشیاں بھی کلام کرنے لگتی ہیں، تنہائی کا احساس مٹ جاتا ہے ۔ اور قرب کا احساس یوں حاوی ہوتا ہے جیسے کہ ابدی جدائی بیچ میں آئی ہی نہیں۔ محفل سی جم جاتی ہے ۔ جانے والے جا چکے ہیں، مگر پاس ہی ہیں ہنستے بولتے، کبھی کچھ کہتے ہوئے کبھی کچھ سنتے ہوئے۔
نہیں واہمہ نہیں۔۔۔ واہمے بے چین کرتے ہیں۔ خوف طاری کرتے ہیں۔ ادھورے پن کا احساس دلاتے ہیں۔ جب کہ ہمیں ایک بھرپور ملاقات کا تاثر ملتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر سہی مگر بہت ہوتے ہیں با ہمت کرنے کے لئے اور "سبق" دینے کے لئے بھی
ایسے خواب سکھاتے ہیں کہ " جو تمہیں حاصل ہے ، اس پر ہمیشہ کے لئے قابض رہنے کی خواہش دل میں مت پالنا۔ تم سے پہلے والے بھی چلے گئے ، تم نے بھی چلے جانا ہے"
بعد میں کچھ دن ان کیفیات کے بیچ جیسے یہاں اور وہاں ہونے کا احساس رہتا ہے کچھ کچھ۔۔ خود کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ کبھی جلدی کامیابی ہوتی ہے اور کبھی تھوڑا ٹائم لگ جاتا ہے ۔ اورپھر سکون سا دل میں اتر آتا ہے۔ نہیں معلوم کہ ان کیفیات کو کیا نام دیں، جو محسوس ہوتا ہے بتا دیا بس۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ہم نے امی جان کو خواب میں دیکھا کہ اکیلی (پاکستان) گھر کے دروازے کی دہلیز پہ اداس سی بیٹھی ہیں ۔ ہم نے پوچھا کیوں اداس ہیں۔تو منہ پھیرتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہیں کیوں بتاؤں، تم تو اتنی دور ہو۔
اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہمیں ہمیشہ خوش مزاجی سے ہی ملتی رہی ہیں لیکن اس دن کا ان کا چہرہ آنکھوں میں پھرتا رہا۔ بہت ذہن دوڑایا کہ کس لئے ایسا ہے۔ لیکن سمجھ نہ آئی۔ پھر بھابی سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ خالہ جان نے تمہیں کچھ کام ذمہ لگانا تھا، اب بیٹھ کر سوچو کہ کیا ہو سکتا ہے۔ آخر کار تمام اطراف کا جائزہ لے کر سمجھ آئی کہ ان کا اشارہ کیا تھا۔ امی کے میکے یعنی ننھیال میں ایک لڑکی کواس کےخاوند کی طرف سے اپنے گھر والوں سے ملنے کی اجازت نہ تھی جس پر وہ بہت پریشان تھی۔ بھائیوں سے مشورہ کیا کہ اب کیا کریں۔ بالآخر ان بھائی صاحب سے رابطہ کیا گیا کانفرس کال پہ جس میں ہم تین سے چار لوگ شامل تھے۔ آخر کار انھیں اس بات پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت دیں۔ مان گئے اور یوں اللہ پاک نے عزت رکھی۔ ٹھیک اسی دن امی جان ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ اسی جگہ بیٹھے ملیں اور ہمارا دل مطمئن ہوا۔ اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔
بتانے کا مقصد یہ کہ۔۔۔۔ اب چاہے ہمارا مغز آدھا سمجھیں یا بالکل ہی خالی۔۔۔ مگر جو ہے سو ہے۔۔۔ ہم اس سب کو نہیں بدل سکتے جو جو ہوتا جا رہا ہے۔ کسی وقت واقعی میں اس کیفیت سے الجھن بھی ہوتی ہے ہلکی سی۔۔۔ مگر کون ہے جو کچھ سمجھا پائے۔
غم یا پریشانی نہیں ہے مگر پھر بھی ۔۔۔۔۔۔ الفاظ نہیں ہیں بتانے کو۔ کوئی سمجھ پائے تو سمجھا دے ہمیں بھی۔