ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ پر کب آگہی اور سوچ کے در وا ہوئے ، کیا اس کیا وجہ زندگی میں پیش آیا حادثہ ہے یا عمر رواں کے ساتھ ساتھ زمانے کے چلن سے آپ سیکھتی گئیں ؟
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یونہی رونما نہیں ہوتے
حساس تو ہم پیدائشی ہیں ۔ ہمیں وقتِ پیدائش ہی اس بات کا احساس تھا کہ ہمیں آنسو نہیں بہانے۔ نہیں معلوم تھا کہ اس طرح بچوں کو تھپڑ مار کر بھی رلا دیا جاتا ہے کہ فوری طور پر بچے کا رونا لازم ہوتا ہے۔ اللہ پاک جانیں کہ سچ ہے یا نہیں مگر ہمیں تو یہی بتایا گیا۔ اور یقین کے سوا کوئی راہ نہ تھی۔
ہاں تو زندگی لاڈ پیار ، ناز نخرے اٹھوانے میں ہی گزری۔۔ الحمد للہ گزر بھی رہی ہے۔ مگر" پسِ پردہ " ہم بدل گئے ہیں۔
درپردہ یہ سین تب بدلا جب پہلے ابو جان کی وفات ہوئی اور پھر امی جان اور بھائی بھی دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ہمیں تو یوں ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا گیا تھا کہ ذرا سی تکلیف نہ ہو۔ آنکھوں میں آنسو لانے کی اجازت ہی نہ تھی۔ کبھی ہمیں خاموش دیکھتے بھائی یا باقی فیملی والے تو ہر ایک کا یہی کہنا کہ "ہم سب تو ہیں نا" ۔۔۔۔ ہمیں سب کا مان رکھنے کو اپنے آنسو دل میں گرانے پڑتے ۔ اکیلے بیٹھے جب بھائی کی آخری دن کی گفتگو یاد آتی، ان کا خوش مزاجی سے ہم سے بات کرنا اور اپنے صحت مند ہو جانے کی تسلی دینا اور پھر اس کے چند ہی گھنٹے بعد رخصت ہو جانا یاد آتا۔ انھیں ڈاکٹرز نے بولا تھا کہ اب تمہارے پاس وقت نہیں۔ جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔
جب یہ ساری باتیں ذہن میں گھومتیں تو بالآخر اک دن سب برداشت ختم ہو گئی۔ شدید ڈپریشن میں چلے گئے خوب چیخنے چلانے اور سر ٹکرا ٹکرا کر دیواریں توڑنے کی کوشش میں۔۔۔۔ ہاسپٹلائیز رہے، تھراپیز ، میڈیسنز۔۔۔ مگر جیسا کہ پہلے بھی اسی انٹرویو میں تفصیلی سورۃ رحمٰن اور اس سے ہونے والے اثرات کے بارے بتایا۔۔۔ اللہ پاک نے اپنا فضل فرمایا۔ صحت عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو سمجھنے کے بارے بھی سوچ عطا فرمائی۔۔۔ صبر و برداشت کی دولت عطا فرمائی۔
جوں جوں ہم اپنے اندر جھانکتے گئے۔۔۔ معلوم ہوا ہونا وہی ہے جو روزِ ازل سے لوحِ تقدیر پر لکھا جا چکا ہے۔ سب یہیں چھوڑ جانا ہے۔ دنیا سے رغبت کسی کام نہیں آئے گی۔ کچھ کرنا ہے تو وہ کرو کہ سکونِ قلب عطا ہو۔ پھر مان لیا کہ خواہش اور آرزو کچھ نہیں ہوتے۔ جب اپنی ذات کے لئے خواہش کا ذکر ہی نہ رہا تو خوشی اور غم بھی ایک سے لگنے لگے۔ ہنستے ہنستے رو دینا اور روتے روتے ہنس دینا۔۔۔ انھی کیفیات میں دن بیتنے لگے کیونکہ ہم کافی سے زیادہ تنہائی پسند ہو نے لگے تھے۔ تنہائی پسند اس طرح نہیں کہ الگ تھلگ بیٹھ رہنا۔۔۔۔ مگر سب کے ہوتے بھی بس اپنی ذات کے ساتھ رہنا۔۔۔ پھر آنسو بھی خشک ہوتے گئے۔۔۔ یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ اگر کوئی دل میں ہے لیکن آنکھوں سے اوجھل ہے تو وہ تعلق فراق و وصال سے بے نیاز ہے۔ کوئی جدائی نہیں ہے۔ مادی اشیاء سے محبت تو پہلے بھی نہ تھی لیکن اس کے بعد ضروریات مزید کم کر لیں کہ فانی دنیا میں سو برسوں کی آسائشیں جمع کرنے کا کیا فائدہ جب کہ اگلے پل کا بھروسہ نہیں۔
پھر یوں آگہی کے در وا ہوتے گئے کہ اپنی صلاحیتوں کو محروم لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کر دینا قلبی طمانیت اور خوشی کا باعث ہے۔ ہم پہلے بھی کافی حد تک خدمت خلق کرتے تھے کہ یہ عادت ہمارے امی اور ابو سے ہم میں منتقل ہوئی تھی۔ مگر اب ساری توجہ اسی پر مرکوز ہو گئی۔ یوں دوسروں کی دلجوئی کرتے کرتے ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ جان لیا کہ غم نڈھال نہیں کرتے بلکہ انسان کے لئے شخصیت سازی کا کام دیتے ہیں۔
یہ سب ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ محض اپنا محاسبہ کرتے رہنے سے سیکھنے کو ملتا رہا۔ ۔۔۔ پھر ہم نے جانا کہ ادھورا پن نہیں مستقل مزاجی سے کام مکمل کرنا بہترین عمل ہے۔ اور مستقل مزاجی ہی ذریعہ ء مسرت ہے۔ کوئی بھی مشکل ہو ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور انجام پر فکرمند ہونے کی بجائے اللہ کے بھروسے چھوڑنا چاہئیے۔ تب ہی ہم وہ خوشی اور سرشاری حاصل کر سکتے ہیں جہاں خوشی اور غم کا فرق مٹ جاتا ہے۔ آپ سود و زیاں کے چکر سے نکل آتے ہیں۔ دنیا کی حیثیت محض ثانوی رہ جاتی ہے۔ حاصل اور محرومی کا رونا نہیں رویا جاتا۔
اور سب سے بڑی آگہی جو ہمیں ملی وہ اپنی ذات کے متعلق تھی۔۔۔۔ اپنی قدر و قیمت کی۔۔۔ اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی۔۔۔ کہ کس لئے اللہ پاک نے انسان کو اپنی بہترین مخلوق قرار دیا ہے۔۔۔ بس ہمیں اس حق کو ادا کرنا ہے اللہ پاک سے محبت کر کے۔ اور مقدور بھر اس کی مخلوق کے ساتھ انسانیت اور محبت کا حق ادا کر کے۔ تبھی تو زندگی کا مقصد پورا ہو گا۔
یہ کہنا چاہیں گے سب سے۔۔۔مصیبتیں اور پریشانیاں بھی زنگی کا حصہ ہیں۔ ان پر واویلا کرتے ہوئے اپنے نصیب کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس بات کا یقین رکھئیے کہ اگر آپ ایک ذرہ بھی ہیں لیکن اپنے مقام پر ہیں تو آپ مانندِ آفتاب ہیں۔اپنی قدر کیجئیے، زمانہ بھی قدر کرے گا۔
عمر رواں کے ساتھ ساتھ زمانے کے چلن سے آپ سیکھتی گئیں ؟
زمانے سے ہمارا کچھ خاص واسطہ نہیں ہے بھائی۔۔۔ محدود سی دنیا ہے ہماری۔
اپنے ہی اعمال اور رویوں کو انسان پرکھتا رہے تو بہت کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ البتہ جہاں ایکٹیویٹی سینٹر میں ہمارا واسطہ ہے وہاں زیادہ تر لوگ بڑی عمر کے ہیں۔ کچھ ذہنی طور پر معذور ہیں کچھ کینسر جیسی جان لیوا بیماری میں مبتلا موت کے انتظار میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو مختصر سے وقت کے لئے خوشیاں دینے میں بہت طاقت صرف ہوتی ہے۔ مگر قوتِ برداشت کچھ نہ کچھ پرسنٹ بڑھ بھی جاتی ہے۔ البتہ کچھ حساس لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں جب اداسی گھیر لیتی ہے۔
معلوم نہیں کہ اسے ہم اپنا ویک پوائینٹ سمجھیں یا کیا۔۔ لیکن کسی کا دکھ یا تکلیف سنیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہم پر بیت رہا ہو۔
زمانے کا چلن ہم کبھی نہ سیکھ پائیں گے بھائی۔۔۔ اور نہ ہی زمانے کے ساتھ چلنا۔۔۔ ہم جیسے سادہ لوگوں کا مزاج نہیں ملتا زمانے سے۔