اپنے اندر ہی ایک نئی دنیا آباد لگی
کیا انکشافات ہوئے؟
یہ دنیا باہر کی دنیا جیسی ہے؟
جیسا کہ ڈپریشن اور پھر اس سے باہر نکلنا، ہسپتال میں ہی سورۃ رحمٰن اور ترجمہ کا سوچ کا محور بننا پچھلے بہت سے مراسلات میں بارہا ذکر کر چکے ہیں۔
مختصر یہ کہ " تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" اسی کے پیشِ نظر زندگی کے ہر پہلو کو جانچنا شروع کیا۔ اپنے اندر کو پرکھا۔ جیسے جیسے سوچ میں گہرائی آتی گئی، اپنے بارے ، زندگی کے بارے سمجھ بڑھتی گئی۔ آس پاس کی چیزوں کے مقصد پر غور و فکر بڑھنے لگا اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ یہ سب اشیاء انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہیں۔
جب ہر چیز کے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسان کی خدمت میں مصروف رہنے والی بات سمجھ آ گئی تو پھر ذہن خود بخود ہی اس بات کی طرف متوجہ ہوتا گیا کہ انسان جسے تمام مخلوق سے برتر اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے تو اس کے وجود کا مقصد کیا ہے۔
کیا زندگی یہ ہے جو ہم گزار رہے ہیں۔۔۔ آسائشوں سے پُر۔۔۔ ؟؟؟
حیات بعد الموت کیا ہے؟؟؟؟
جزا و سزا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
طرح طرح کی باتیں، سوال ذہن میں آتے گئے۔۔ کچھ باتوں پہ تسلی ہوئی ، کچھ ہنوز تشنہ بھی ہیں۔
مگر زندگی اس ڈگر پر چل پڑی کہ اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پسندیدہ ظاہری و باطنی اعمال و اقوال زندگی میں شامل رکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ پاک ہمت عطا کئے رکھیں۔ آمین۔
نہیں باہر کی دنیا جیسی بالکل نہیں ہے
دیکھا جائے تو ہماری ذات کا سب سے بڑا حریف ہماری اپنی ہی ذات ہوتی ہے۔ دنیا کی رنگینیاں، زندگی کی آسائشیں۔۔۔ ہماری ذات ہی ہمیں للچاتی ہے کہ ہمارے پاس یہ بھی ہو، وہ بھی ہو۔۔۔ اگر ہم اس لالچ یا خواہش پر قابو پا لیتے ہیں تو ہمارا حریف ہمارے تابع ہو جاتا ہے۔ پھر چاہے یہ ہمیں دنیا میں کوئی عروج والا مقام نہ بھی دے پائے مگر ہر طرح کے حالات میں خوش رہنے میں ضرور مددگار ثابت ہوتا ہے۔ میانہ روی کا سبق سیکھ جاتا ہے انسان۔
اپنی ذات، اپنے اندر کی خوبیوں اور خامیوں کو ہم خود جانتے ہیں اور خود ہی ان کی تصحیح کر سکتے ہیں۔ہمارے اندر کی دنیا میں، من کی دنیا میں سوز و گداز بھی پوشیدہ ہے اور زندگی کی حقیقی مسرتیں بھی اسی میں چھپی ہیں۔وہ سب موجود ہے جس کی روحِ انسانی کو طلب ہے۔ بس ضرورت انھیں کھوجنے کی ہوتی ہے ۔تنہائی جتنی گہری ہوتی جائے گی، کھوج اتنی کامیاب ہوتی جائے گی، بے چینیاں دور ہو کر طمانیت بڑھتی جائے گی۔
من کی دنیا ۔۔۔سوز و گداز میں ڈوبی دنیا ہے ایک جذب و مستی کی دنیا۔
تن کی دنیا سود و زیاں کے چکر میں پڑی دنیا ہے ، مکر و فریب گھات میں رہتے ہیں
من کی دولت ہاتھ آ جائے تو جاتی نہیں ہے، غم بھی جاگیر لگتے ہیں
تن کی دولت ڈھلتی چھایا۔۔ بہار ہے تو خزاں بھی چھا جائے گی
"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی"
سُراغ پا جانا مشکل نہیں۔۔من میں جھانکتے رہنے کی ضرورت ہے۔ مگر عملی طور پر توازن قائم رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔
آسان جھیلنا تھا کہاں کربِ آگہی
میں خود شناس ہو کر پریشان ہو گئی