ہماری تک بندیاں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لاجواب سعود بھیا
ایک سے بڑھ کر ایک
کیوں اب تک محروم رکھا ہے اس خوبصورت کلام کو ایک عدد کتاب سے۔
جلدی سے ایک آدھ ای بک ہی بنا دیں تاکہ دلِ بے قرار کو قرار مل سکے۔
:):):)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
صبا سبک خرام ہے، کہ شب شبینہ کام ہے
رگوں میں راگ و رنگ کا رواں یہ دورِ جام ہے

خلش خلش ہے چار سو، جنوں جنوں گلی گلی
نویدِ نیشِ دائمی، کہ عشقِ نا تمام ہے

گئے دنوں کی یاد بھی، رلاتی ہے، ہنساتی ہے
کہیں پہ غم، کہیں خوشی، حیات اسی کا نام ہے

یہ آ کے جاتی روشنی، یہ جا کے آتی تیرگی
کسے یہاں ثبات ہے، کسے یہاں دوام ہے

اصول فاصلے جنے، مفاہمت وصال ہے
حصول قاتلِ طلب، ادائے بے مرام ہے

لبوں سے گویا چھو لیا، شرار سا اڑا دیا
وہ عارضِ شفق نما، نگاہِ رنگِ شام ہے

--
ابنِ سعید


:musical-note: آڈیو ریکارڈنگ! :) :) :)
:happy: :happy: :happy:
 

عمر سیف

محفلین
لبوں سے گویا چھو لیا، شرار سا اڑا دیا
وہ عارضِ شفق نما، نگاہِ رنگِ شام ہے

لاجواب ابن سعید ۔۔
آڈیو بھی اچھا تھا۔
 

عمر سیف

محفلین
تک بندی: کتاب کی واپسی


آج کئ دن بعد اس نے
کتاب مجھے لوٹائی تھی
نیچی پلکوں بوجھل قدموں
سے وہ میرے پاس آئی تھی
یوں تو کوئی بات نہیں تھی
جانے کیوں وہ گھبرآئی تھی۔


گھر لا کر جب اس کو کھولا
عجب سی خوشبو بسی ہوئی تھی
ہر صفحے پر اسکے لمس کی
نرمی جیسے رچی ہوئی تھی
کیا اس نے چوما تھا اس کو
لبوں کی گرمی بسی ہوئی تھی۔


سرخ گلابوں کے کچھ پتے
کچھ ورقوں میں دبے ملے تھے
نازک نازک ننھے ننھے
شاید پورے نہیں کھلے تھے
رنگ اور خوش بو تو باقی تھے
لیکن پتے سوکھ چلے تھے۔


پینسل کی کچھ مٹی مٹی سی
کچھ گوشوں میں تحریریں تھیں
کچھ پنوں پر پھول بنے تھے
کہیں کہیں پر تصویریں تھیں
طرح طرح کے نقش میں پنہاں
میرے نام کی تحریریں تھیں۔


ایک ورق پہ کچھ دھبے تھے
گولائی میں شکن پڑے تھے
کیا ہو سکتے تھے وہ آخر
شاید کچھ قطرے ٹپکے تھے
آخر ان قطروں میں کیا تھا
شاید کچھ نازک جذبے تھے۔


پاگل لڑکی تم نے مجھ کو
کیسے یہ پیغام دیے ہیں
میں بیچارہ خزاں رسیدہ
کب میں نے یہ کام کیے ہیں
کیسے تم کو اپناؤں میں
راہ میں میرے بجھے دیے ہیں۔


میری راہیں بہت کٹھن ہیں
اپنے نازک قدم نہ ڈالو
مت میرے ہمراہ چلو تم
اپنا گھروندا الگ بنا لو
تھوڑا خود کو اور رلا لو
اپنے ان جذبوں کو سلا لو۔



سعود عالم ابن سعید
(y)
 

فاتح

لائبریرین
صبا سبک خرام ہے، کہ شب شبینہ کام ہے
رگوں میں راگ و رنگ کا رواں یہ دورِ جام ہے

خلش خلش ہے چار سو، جنوں جنوں گلی گلی
نویدِ نیشِ دائمی، کہ عشقِ نا تمام ہے

گئے دنوں کی یاد بھی، رلاتی ہے، ہنساتی ہے
کہیں پہ غم، کہیں خوشی، حیات اسی کا نام ہے

یہ آ کے جاتی روشنی، یہ جا کے آتی تیرگی
کسے یہاں ثبات ہے، کسے یہاں دوام ہے

اصول فاصلے جنے، مفاہمت وصال ہے
حصول قاتلِ طلب، ادائے بے مرام ہے

لبوں سے گویا چھو لیا، شرار سا اڑا دیا
وہ عارضِ شفق نما، نگاہِ رنگِ شام ہے

--
ابنِ سعید


:musical-note: آڈیو ریکارڈنگ! :) :) :)
واہ واہ واہ کیا ہی خوب اشعار ہیں جناب۔
انھیں تک بندیوں میں ہرگز نہیں ہونا چاہیے
 
لاجواب سعود بھیا
ایک سے بڑھ کر ایک
کیوں اب تک محروم رکھا ہے اس خوبصورت کلام کو ایک عدد کتاب سے۔
جلدی سے ایک آدھ ای بک ہی بنا دیں تاکہ دلِ بے قرار کو قرار مل سکے۔
:):):)
اوئے بچے! یہ کس سزا کا فرمان جاری کر دیا۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب اسی لڑی میں قید ہیں، علیحدہ سے کتاب کا الزام کیوں دینا؟ بہت خوش رہیں شہزادے۔۔۔ :) :) :)
 
Top