"یاد" کے موضوع پر اشعار!

تیشہ

محفلین
میں جسکا ذکر کسی سے نہ کرنے والا تھا
وہ چاند سب کی چھتوں پر ابھرنےُ والا تھا

تیری ہی یاد نے دورانیہ بڑھا ڈالا
وگرنہ ہجر کا محشر گزرنے والا تھا

اگر تو اپنے تصور میں ڈھالتا نہ مجھے
میں موجِ رنگ کی صورت بکھرنے والا تھا

عبث تو درد کی موجوں سے ڈر گیا راضی
کہ عنقریب یہ دریا اترنے والا تھا ۔
 

تیشہ

محفلین
منظر بدل جاتے ہیں باتیں یاد رہتی ہیں
تنہائی بےقراری کی ملاقاتیں یاد رہتی ہیں

گئے ساون میں بھیگے تھے یہ بھول گئے ہیں وہ
بادل بھول جاتے ہیں برساتیں یاد رہتی ہیں

شب تاریک میں ہم نے سبھی سپنے دیکھے ہیں
دن تو بھول جاتے ہیں راتیں یاد رہتی ہیں

اپنے آپ سے ڈر کے ہم نے جو بھی دیکھا ہے
انہی گمنام لمحوں کی احتیاطیں یاد رہتی ہیں

جب بھی ہنستا ہوں زخم تازہ ہوتے ہیں
معجزے یاد آتے ہیں کراماتیں یاد رہتی ہیں ۔
 

تیشہ

محفلین
شکریہ ضبط ،





تمھاری یاد کی لو ' تن سے جب اترتی ہے
بڑی خاموشی سے آنگن میں شب اترتی ہے

تمھارا ساتھ تسلسل سے چاہئیے مجھکو
تھکن زمانوں کی لمحوں میں کب اترُتی ہے

تجھے میں جانتا ہوں چھاؤں کے حوالے سے
یہ دل میں دھوپ سی کس کے سبب اترتی ہے

عجیب شکل میں شب کی منڈیر سے اکثر
میرے وجود میں تیری طلب اترُتی ہے

دیے کی لو تو ہواؤں سے بجھُ گئی
یہ کیسی روشنی آنکھوں میں اب اترُتی ہے ۔ ۔
 

تیشہ

محفلین
ستارہ ہوں مگر یوں ہے ، چمکنا بھول بیٹھا ہوں ۔ ۔
میں خود اپنے تعارف کا حوالہ بھول بیٹھا ہوں ۔ ۔

جسے مدنظر رکھ کر چلا تھا جانب ِ منزل
سفر کے درمیاں میںَ وہ ستارہ بھول بیٹھا

ابھی مصروف ہوں کافی کبھی فرصت میں سوچوں گا
کہ تجھکو '' یاد '' رکھنے میں میںُ کیا کیا بھولُ بیٹھا

نہ جانے کیا دکھائے گی یہ میری کم نگاہی بھی
گزشتہ یاد رکھنے میں ، میں َ فرداً بھول بیٹھا

فراموشی بھی نمعت ہے مگر یہ کیا ہوا تیمور
کہ میں تیری جدائی ُ کا خسارا بھول بیٹھا ہوں ۔
 

سارہ خان

محفلین
کوئی موسم ہو دل میں ہے تمھاری یاد کا موسم
کہ بدلا ہی نہیں جاناں تمھارے بعد کا موسم

نہیں تو ازما کے دیکھ لو کیسے بدلتا ہے
تمھارے مسکرانے سے دِلِ ناشاد کا موسم

صدا تیشے سے جو نکلے ، دلِ شیریں سے اُٹھی تھی
چمن خسرو کا تھا مگر رہا فرہاد کا موسم

پرندوں کی زباں بدلی کہیں سے ڈھونڈ لے تو بھی
نئی طرزِ فغاں اِئے دل کہ ہے ایجاد کا موسم

رُتوں کا قاعدہ ہے وقت پہ یہ آتی جاتی ہیں
ہمارے شہر میں رُک گیا فریاد کا موسم

کہیں سے اُس حسیں آواز کی خوشبو پکارے گی
تو اُس کے بعد بدلے گا دلِ برباد کا موسم

قفس کے بام و در میں روشنی سی آتی جاتی ہے
چمن میں آ گیا شاید لبِ آزاد کا موسم

نہ کوئی کام خزاں کا ہے نہ خواہش ہے بہاروں کی
ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم
 

عمر سیف

محفلین
خوب۔ سارہ اور باجو ۔۔۔۔

کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں‌ ہجرت کا سبب
یونہی بس یادوں کی چادر تانتا کوئی نہیں
 

ثناءاللہ

محفلین
مجھے بس تری رہگزر چاہیے
نہ جنت نہ جنت میں گھر چاہیے

تری سانس مہکے جہاں ہر گھڑی
وہ کٹیا مجھے عمر بھر چاہیے

کسی اور شے سے نہیں ہے غرض
جو دیکھے تجھے وہ نظر چاہیے

مجھے کچھ امیری کی رغبت نہیں
تری "یاد" میں چشم تر چاہیے

ایک مسافر کی یہ خاص پہچان ہے
اس کے دامن پہ گرد سفر چاہیے

دل گرفتہ نہ ہو دل شکستہ نہ ہو
تیرے ہاتھ میں کچھ ہنر چاہیے

دامن آرزو تیرا بھر جائے گا
تیرے حرف دعا میں اثر چاہیے
(حسین محی الدین)
 

الف عین

لائبریرین
ہزار یادوں نے محفل یہاں سجائی۔ ۔۔ پر
جو نیند آتی ہے سولی پہ بھی، سو آئی ۔۔ پر
اعجاز عبید
 

عمر سیف

محفلین
چاچو بہت خوب ۔۔۔۔

حقیقت کھل گئی حسرت تیری ترکِ محبت پر
تجھے تو وہ اب پہلے سے بڑھ کر یاد آتے ہیں
 

ہما

محفلین
ہے دُعا یاد ، مگر حرف دُعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
اور کچھ دیر گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں
(فیض)
 
Top