آیت کے اس حصے میں دو عدد ممنوع ہیں جن کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی ہے۔
1۔ "فرسٹ کزن سسٹرز" سے نکاح کی خاص اجازت
2۔ "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" سے نکاح کی خاص اجازت۔
سوال یہ ہے کہ باقی مومنین کو کس "ممنوع" سے روکا گیا ہے؟
کچھ لوگوں کا یہ نظریہ بھی ہے کہ -- اس خاص اجازت کا اطلاق صرف اور صرف دوسرے نمبر کے "ممنوع" ---- وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا --- پر ہوتا ہے
ایسا ممکن نہیں ۔ اس کے دو عدد جواز ہیں۔
1۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے اور درست ہے کہ کم از کم دوسرا "ممنوع" عام مومنین کے لئے نہیں ہے ۔ لیکن اس جملے میں رسول اکرم صلعم کو دو قسم کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے جس کی شرط ہے کہ اگر نبی اکرم چاہیں۔ وہ دو قسمیں ہیں "فرسٹ کزن سسٹرز" اور "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" ان دونوں کو زمانہء حال میں اجازت دی جارہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ نبی کے لئے اس خاص اجازت کو ان دونوں میں سے صرف ایک قسم "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" تک محدود رکھا جائے
2۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ 4:23 میں حرام کی جانے والی "بہنوں" میں "فرسٹ کزن سسٹرز" شامل ہیں۔ ورنہ 33:50 میں خاص طور نبی اکرم صلعم کو اس اجازت کو دینے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ اسی طرح بناء مہر کے اپنے آپ کو تحفہ کرنے والی بھی منع تھیں، نبی اکرم کے لئے خاص طور پر ان دو ممنوع کردہ خواتین کو جائز قرار دیا گیا جبکہ باقی مسلمانوں کو یہ خاص اجازت نہیں دی گئی۔
نکتہ نمبر 1 اور 2 کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہے کہ صرف ایک عدد "ممنوع" کی جگہ دو عدد "ممنوع" کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی جبکہ باقی مسلمانوں کے لئے دونوں "ممنوع" کو برقرار رکھا گیا ۔۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس دو طرح کی شادیوں کی اجازت ہوتی تو پھر اس آیت میں خاص طور پر اجازت دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
یہ نکات ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں کہ اس کے بعد کیا یہ ضروری رہ جاتا ہے کہ صرف اور صرف "فرسٹ کزن سسٹرز " سے ہی شادی کی جائے؟؟؟
والسلام
اس دھاگے کو پڑھتے اپنی گمراہی کا زمانہ پوری کاملیت کے ساتھ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ جب بزعم خود اپنی عقل کو اپنا رہنما رکھتے قران کی تلاوت کرتے قیاس کی گھوڑے دوڑایا کرتا تھا ۔ اردو ترجمے میں ملی ہر مذہب کی کتاب کو چاٹ جایا کرتا تھا ۔ اس دور گمراہی میں کچھ آیات قرانی جو کہ " متشابہات " میں ہیں ۔ اور کچھ وہ جو کہ " تعارض " کو قیاسی طور ثابت کرتی ہیں ۔ یاد آگئیں ۔
سب سے پہلے محترم بھائی کی پیش کردہ آیت قرانی پر ملعون " راج پال " کی لکھی شیطانی کتاب کے مندرجات یاد آ ئے جو کہ اسی موضوع پر استوار کیئے گئے تھے ۔ اور " نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " کی شخصیت و کردار پر جنس کا گند اچھالا گیا تھا ۔ نقل کفر کفر نہ باشد اپنی جگہ اک حقیقت ہے مگر اس شیطانی کتاب میں جس طرح ان آیات کو انتہا درجے مذموم انداز میں بیان کیا گیا تھا ۔ وہ نقل کرتے دل کانپتا ہے اور ان آیات میں دی گئی چھوٹ کو اک خاص نکتہ نظر سے اچھالا گیا تھا ۔
پھر " سلیمان رشدی " ملعون نمودار ہوا اور اس نے " سورہ احزاب " آیت نمبر 37 کو اک مخصوص نظریئے کے مطابق اچھالا ۔ اور نبی پاک علیہ السلام کی شخصیت و کردار پر زبان دراز کی ۔
جانے میرے محترم بھائی کے مقصود نظر کیا ہے جو وہ ان آیات کو 2010 میں پاک نیٹ پر بحث کا موضوع بنا کر اور پھر اس بحث سے نکلنے والے نتیجے سے متفق ہو کر 2012 میں دوبارہ اس بحث کو یہاں شروع کر دیا ہے ۔
میرے محترم بھائی عاجزانہ التجا ہے کہ اس فرمان الہی پر غور فرمائیں ۔
(ھو الّذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھن امُّ الکتاب و أُخَرُ متشابھات فامّا الّذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ اّلا اللّٰہ و الرّاسخون فی العلم یقولون آمنا بہ کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوا الالباب ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب) (١)
وہ خدا وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کی آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہہ ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنے بھڑکائیں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا اور ان لوگوں کو ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں: ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ سب آیتیں تو خدا ہی کی طرف سے آئی ہیں، (لیکن)نصیحت تو صاحبان عقل ہی اخذ کرتے ہیں، پروردگارا ہم سب کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کج نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر بیشک تو بڑا فیاّض ہے ۔
آل عمران
{ 7 - 9 }
اللہ تعالی ہم سب کو قران فہمی کی توفیق عطا فرماتے ہمیں گمراہیوں سے دور رکھے آمین