سید عمران

محفلین
اکثر مرید اپنے پیر سے محبت یا تعلق یا دیگر وجوہات کی بنا پر اسے چھوڑنے میں ہچکچاتے ہیں یا غلط تاویلیں کرتے ہیں مثلاً پیر جانے خدا جانے، ہمارے ذمہ پیر کی اصلاح نہیں یا صرف ہمارا پیر ہی غلط نہیں کررہا سب لوگ ہی ایسا کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ مرید اپنے غلط پیر کو نہ چھوڑنے کے لیے ایک واقعہ بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:
’’ایک ڈاکو بوڑھا ہو گیا، کسی کام کا نہ رہا تو ایک گاؤں کے قریب جنگل میں جا کر بیٹھ گیا، اور جہاں کسی کو آتے دیکھتا کوئی نہ کوئی عبادت شروع کردیتا۔ کچھ لوگ متاثر ہوکر اس سے بیعت ہوگئے۔ جعلی پیر نے انہیں خوب ذکر بتادئیے جن کی برکت سے وہ لوگ منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ اب انہوں نے مشورہ کیا کہ حضرت کا مقام دیکھتے ہیں کس مرتبہ کا ہے۔ خوب مراقبہ کیا مگر مقام ہوتا تو نظر آتا۔ آخر مرشد کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نے خوب کوشش کی مگر آپ کے مقام کا پتہ نہ چلا۔ پیر صاحب نے جواب دیا بھائیو میں ایک ڈاکو تھا، بڑھاپے میں کچھ نہ ہوسکا تو پیری مریدی کا یہ پیشہ بہت آسان لگا۔ باقی درویشی کے فن سے مجھے کچھ مناسبت نہیں۔ تم محض حسن عقیدت کی بنا پر اس مرتبہ کو پہنچ گئے۔‘‘
اس واقعہ کی نہ کوئی سند ہے نہ حوالہ کہ سچا ہے یا محض ایک حکایت، ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اب ناسمجھ لوگ اپنے غلط پیر سے ترک تعلق نہ کرنے کے لیے اس واقعہ کو دلیل بنانے لگے ہیں کہ جب ڈاکو کے مرید اللہ والے ہوگئے تو ہم بھی غلط پیر کرنے کے باوجود منزل تک پہنچ جائیں گے۔
مستند روایات سے ثابت ہے کہ آج تک تمام اولیاء کرام ایسے متبع شریعت و سنت پیر کے علاوہ جس کا کوئی نہ کوئی سلسلہ تھا جو حضور اقدس تک پہنچتا تھا، کسی اور راہ سے ولی کامل نہیں ہوئے۔
اگر اس واقعہ کو دلیل بنا لیا گیا تو سچے اللہ والوں اور جعلی پیروں میں فرق ہی ختم ہوجائے گا۔
لہٰذا لوگوں کے نفوس کی شرارت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہوگیا کہ اب اس واقعہ کو بیان کرنا بالکل ترک کردیا جائے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
یاد رکھیے اگر آپ نے خدا کے حصول کے لیے پیر کیا ہے تو ان حیلوں بہانوں سے آپ کے ہاتھ خدا کی محبت و نسبت تو کیا آئے گی دین کے نام پر غلط باتیں سیکھ کر یا ایسے کم دینوں کا ساتھ دے کر جنت بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے؎
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
کبھی کبھی شیطان جعلی پیروں کی شکل میں بھی ہوتا ہے۔ پس ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے سے بچو۔
نقلی پیر چھوڑنے کے متعلق ایک بہانہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دوسرا پیر کہاں سے ملے گا جو ان خامیوں سے پاک ہو. تو مولانا رومی فرماتے ہیں؎
در تگِ دریا گُہر با سنگ ہاست
فخرہا اندر میانِ ننگ ہاست
دریا کی گہرائی میں پتھروں کے درمیان ہی کہیں موتی چھپا ہوتا ہے۔ اسی طرح راہزنوں اور جعلی پیروں کے درمیان تلاش کرنے سے اصلی اللہ والے بھی مل جاتے ہیں۔
اسی کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کا کوئی بندہ ایسا نہیں جو اللہ کی تلاش میں نکلے اور اسے خدا نہ ملے۔
تو اللہ کی محبت کے لیے کسی اللہ والے سے تعلق قائم کرنے سے قبل پیروں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ اصلی اللہ والا ہے یا نہیں. یا بعد میں علم ہو کہ اس کی حالت شریعت و سنت کے مطابق نہیں تو علم ہونے پر اسے چھوڑنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہ کی جائے۔ یہ ترکِ تعلق بھی مرید پر شیخ کے حقوق میں شامل ہے۔ کیونکہ شریعت کے خلاف چلنے والے کی اتباع نہ کرنا شرعاً فرض ہے۔
مرید پر شیخ کے صرف یہی حقوق نہیں ہیں کہ اس سے نیک گمان رکھتے ہوئے اس کی اتباع کرے بلکہ شریعت کے معاملہ میں ہر وقت چوکنا بھی رہے۔ اگر مرید دیکھے کہ شیخ بدعقیدہ، بد عمل ہو رہا ہے، راہ تقویٰ و سنت چھوڑ رہا ہے تو مرید اسے چھوڑ دے۔ یہ بھی مرید پر شرعاً فرض ہے۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
مرید خود اپنی بھی جانچ کرے اور پیروں سے متعلق جو غلط باتیں مشہور ہیں ان کی وجہ سے کسی پیر سے تعلق قائم نہ کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے پیر سے تعلق قائم کرے۔
پیروں کے بارے میں پھیلائے جانے والے عام عقائد یہ ہیں کہ پیر کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ پیر کی پاس جانے سے تمہاری دنیا کی ساری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ وہ ایسا تعویذ دیتا ہے کہ ہر کام بن جائے گا۔ پیر ایسی توجہ ڈالتا ہے کہ دل روشن ہوجاتا ہے۔ یا ایسا وظیفہ بتائے گا کہ خودبخود گناہ چھوٹ جائیں گے اور آدمی نماز روزہ کا پابند ہوجائے گا۔ یا پیر کے پاس کشف و کرامت کی ایسی طاقت ہے کہ تمہارے دل کے حال پڑھ لے گا اور تمہاری بگڑی بنا دے گا۔
تو یہ ساری باتیں جعلی پیروں کی بنائی ہوئی ہیں۔ پیر سے تعلق صرف دین پر چلنے، آخرت میں نجات پانے والے اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کے باعث جب اللہ تعالی سے تعلق بڑھتا ہے تو بندہ کی پریشانیاں دور ہونے لگتی ہیں، دل کو سکون، چین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اس کی بگڑی بن جاتی ہے۔ مگر یہ پیر نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم نیک اعمال کرتے رہو گے تو میں تمہیں ضرور ضرور ایسی پاکیزہ و اطمینان والی حیات بخشوں گا کہ نہ صرف تم بلکہ ایک عالم تمہارے اطمینان پر حیران ہوگا۔
(جاری ہے)
 
مرید خود اپنی بھی جانچ کرے اور پیروں سے متعلق جو غلط باتیں مشہور ہیں ان کی وجہ سے کسی پیر سے تعلق قائم نہ کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے پیر سے تعلق قائم کرے۔
پیروں کے بارے میں پھیلائے جانے والے عام عقائد یہ ہیں کہ پیر کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ پیر کی پاس جانے سے تمہاری دنیا کی ساری پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ وہ ایسا تعویذ دیتا ہے کہ ہر کام بن جائے گا۔ پیر ایسی توجہ ڈالتا ہے کہ دل روشن ہوجاتا ہے۔ یا ایسا وظیفہ بتائے گا کہ خودبخود گناہ چھوٹ جائیں گے اور آدمی نماز روزہ کا پابند ہوجائے گا۔ یا پیر کے پاس کشف و کرامت کی ایسی طاقت ہے کہ تمہارے دل کے حال پڑھ لے گا اور تمہاری بگڑی بنا دے گا۔
تو یہ ساری باتیں جعلی پیروں کی بنائی ہوئی ہیں۔ پیر سے تعلق صرف دین پر چلنے، آخرت میں نجات پانے والے اعمال کرنے اور اللہ تعالیٰ کی دائمی محبت حاصل کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کے باعث جب اللہ تعالی سے تعلق بڑھتا ہے تو بندہ کی پریشانیاں دور ہونے لگتی ہیں، دل کو سکون، چین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اس کی بگڑی بن جاتی ہے۔ مگر یہ پیر نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر تم نیک اعمال کرتے رہو گے تو میں تمہیں ضرور ضرور ایسی پاکیزہ و اطمینان والی حیات بخشوں گا کہ نہ صرف تم بلکہ ایک عالم تمہارے اطمینان پر حیران ہوگا۔
(جاری ہے)
آپ نے ایک بہت اہم اور حقیقی موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ واقعی، پیروں سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں عوام میں پھیلائی جاتی ہیں، جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔

  1. اصلاحی تعلق: پیر سے تعلق قائم کرنے کا مقصد صرف دین پر عمل، گناہوں سے بچنا اور اللہ کی محبت حاصل کرنا ہونا چاہیے۔
  2. غلط عقائد کی نشاندہی: جعلی پیروں کی جانب سے پھیلائے گئے عقائد جیسے ہر دعا کی قبولیت، دنیاوی مسائل کا فوری حل، یا کرامات کا دعویٰ لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور ان کے ایمان کو نقصان پہنچاتا ہے۔
  3. اصل مددگار اللہ تعالیٰ ہے: یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پریشانیاں دور کرنا، دل کو سکون دینا، یا گناہوں سے بچانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اور یہ سب نیک اعمال اور اخلاص کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
  4. دین کی تعلیم: عوام کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں، بجائے اس کے کہ وہ کسی پیر یا وظیفے کو اپنی مشکلات کا حل سمجھیں۔
  5. حقیقی روحانی رہنما: اگر کسی کو رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ ایسے پیر سے رجوع کرے جو خود دین پر عمل کرتا ہو اور دوسروں کو اللہ کی جانب راغب کرتا ہو، نہ کہ دنیاوی فوائد کا وعدہ کرے۔





اس بات کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ دین اسلام کا مقصد بندے کو اللہ سے جوڑنا ہے، نہ کہ دنیاوی فوائد کے پیچھے دوڑنا۔ آپ نے جو بات کی ہے، وہ عوام کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوگی۔
 
کیا آج کے دور میں بھی پیر کی ضرورت ہے ؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں پیر کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے !
مجھے لگتا ہے کہ جو برسوں کی محنت سے ایک مقام پیر کو حاصل ہوا ہے پیر وہ مریدکو ایک سال میں یا چالیس دنوں تک پہنچا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو بہت ہی خوب ہے جو لوگ تصوف میں یا اللہ سے قریب ہونا چاہتے ہیں اُنہیں ضرور پیر کامل کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دینا چاھئیے ۔
کیونکہ جو آخرت کے پیچھے لگ جاتا ہے تو دُنیا خود با خود ہی اُسے مل جاتی ہے ۔ اگر خدا نخواستہ اُسے دُنیا نا بھی ملے تو پھر بھی وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ کیونکہ وہ آخرت کے لئے بہت سا سامان اکھٹا کرچکا ہوگا۔ جو اُسے ابدی سکون و راحت نصیب کردے گا ۔
واللہ عالم
 

علی وقار

محفلین
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
 
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
اگر کسی کو ایسا پیر یا روحانی استاد مل جائے تو ہمیں بھی ضرور بتائیں۔
 

سید عمران

محفلین
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
کوئی کڑا معیار نہیں ہے۔۔۔
یہ صفات تو بے شمار عام آدمی میں بھی موجود ہیں کہ مالی کرپشن نہ کرے، جنسی اسکینڈل میں ملوث نہ ہو، شو بازی یعنی دکھلاوا نہ کرے۔ ہاں رہی بات چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کی تو ان سے کامل طور پر بچنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ عام آدمی تو بہت سے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتا یا انہیں خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں ضرورت پڑتی ہے ایسے مرشد کامل کی کہ جو نہ صرف خود ان گناہوں سے بچے بلکہ مرید کو بھی گناہوں سے بچا کر راستہ طے کراکے خالق حقیقی سے واصل کرا دے۔
حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک گناہ گار ہے مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ معصوم صرف انبیاء کرام ہیں، ان کے علاوہ ہر ایک سے گناہ ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ مرشد سے بھی گناہ ہوسکتا ہے البتہ اتنی بات ہے کہ نیک لوگوں سے ایک تو گناہوں کا صدور بہت ہی کم ہوتا ہے اور اگر ہوجائے تو خود خیال آنے پر یا کسی دوسرے کے متوجہ کرنے پر فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ سے توبہ کرنے والوں کو بہترین لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے۔
تین ہی باتیں ہیں، ذکر اللہ کی کثرت جس میں ذکر، نماز، تلاوت، صدقات شامل ہیں۔ صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں سے بچنا جس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ اور صحبت شیخ۔ بس ان ہی تین باتوں پر عمل کرنے سے ایک دن آدمی کو وہ نور نسبت حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔
ہمارا یہ مضمون پڑھتے رہیے اور جانتے رہیے کہ نسبت جیسی عظیم الشان نعمت کا حصول اتنا بھی مشکل نہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
سید عمران بھائی، عمدہ سلسلہ ہے۔ ماشاءاللہ۔

میرے خیال میں، جو کڑا معیار آپ نے طے کیا ہے، اس کے مطابق ایسے کسی پیر یا روحانی استاد کا مل جانا نہایت قسمت کی بات ہو گی۔اگر کسی کو ایسا روحانی استاد یا پیر مل جائے تو کم از کم یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسا راہبر منزل سے بھٹکنے نہ دے گا۔ اور، بالفرض محال، کسی کو ایسا مرشدنصیب نہ ہو تو اس کے لیے کیا بہتر رہے گا، اس متعلق بھی کچھ نہ کچھ لکھیے گا۔
مرشد ڈھونڈیں۔۔۔
لوگوں نے مرشد کی تلاش میں ملکوں ملکوں خاک چھانی۔۔۔
ہمارے تو ملک میں ہی بہت لوگ ہیں۔۔۔
مرشد کے بغیر وصول الی اللہ نہیں ہوسکتا۔ جیسا نکاح کے بغیر اولاد کا حصول ناممکن ہے۔۔۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کتابیں چار نازل فرمائیں اور انبیاء کرام لاکھوں۔۔۔
کیونکہ کتاب اللہ پر عمل کرانا رِجالُ اللہ ہی کا کام ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
پہلے ہم نے تذکرہ کیا تھا مرید پر شیخ سے متعلق ان شرعی امور و حقوق کا جن کی بنا پر ایسے شیخ سے تعلق قائم نہ کرنا چاہیے اور اگر کرلیا تو اسے چھوڑدینا چاہیے۔
اب بات کرتے ہیں مرید پر شیخ سے متعلق ان حقوق کی جن کی بجا آوری مرید پر شرعی احکام کی طرح فرض واجب تو نہیں لیکن راہِ طریقت کے لیے انتظامی لحاظ سے ضروری ضرور ہے۔
جب ہر طرح سے اطمینان ہوجائے کہ شیخ دنیا پرست، ہوس پرست و زر پرست نہیں، سچا اللہ والا ہے تو اس سے اللہ کی محبت حاصل کرنے لیے فوراً تعلق قائم کرلیا جائے۔ اب اس کی باتوں پر بلا چوں و چرا کیے عمل کرنا ہے۔کیونکہ جانچ لیا ہے کہ وہ خلافِ شرع کوئی حکم نہیں دے گا۔ اگر بچہ استاد سے بحث کرے کہ الف کھڑا کیوں ہے اور ب پڑا کیوں ہے تو بس سیکھ چکا وہ علم۔ لہٰذا پہلے بلا چوں و چرا کیے شیخ کی ہدایت پر عمل کریں۔ جب قلب روشن ہوجائے گا تو ان گنت ان کہی باتیں خود بخود سمجھ میں آنے لگیں گی۔ اسی کو خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؎
شیخ کے ہیں چار حق رکھ ان کو یاد
اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد
یعنی شیخ سے خط و کتابت کے ذریعہ یا زبانی ان کو اپنے حالات کی اطلاع دیتے رہو، اور وہ جو جواب دیں اس پر عمل کرو۔ شیخِ کامل کے طریقۂ تعلیم پر اعتماد رکھو کہ وہ جو بتا رہا ہے اس لیے بتا رہا ہے کہ اس منزل، اس راستہ کو طے کرچکا ہے۔ چنانچہ بلاجھجھک، بغیر کسی شک و شبہ کے ان کی بات مانو۔ چاہے عقلاً سمجھ میں نہ آئیں، چاہے طبعاً۔ پھر ایک دن اسی اتباع و انقیاد کی برکت سے ان شاء اللہ وہ بھی سمجھ میں آنے لگیں گی۔
(جاری ہے)
 
کوئی کڑا معیار نہیں ہے۔۔۔
یہ صفات تو بے شمار عام آدمی میں بھی موجود ہیں کہ مالی کرپشن نہ کرے، جنسی اسکینڈل میں ملوث نہ ہو، شو بازی یعنی دکھلاوا نہ کرے۔ ہاں رہی بات چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کی تو ان سے کامل طور پر بچنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ عام آدمی تو بہت سے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتا یا انہیں خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں ضرورت پڑتی ہے ایسے مرشد کامل کی کہ جو نہ صرف خود ان گناہوں سے بچے بلکہ مرید کو بھی گناہوں سے بچا کر راستہ طے کراکے خالق حقیقی سے واصل کرا دے۔
حدیث میں آتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک گناہ گار ہے مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو توبہ کرلے۔ معصوم صرف انبیاء کرام ہیں، ان کے علاوہ ہر ایک سے گناہ ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ مرشد سے بھی گناہ ہوسکتا ہے البتہ اتنی بات ہے کہ نیک لوگوں سے ایک تو گناہوں کا صدور بہت ہی کم ہوتا ہے اور اگر ہوجائے تو خود خیال آنے پر یا کسی دوسرے کے متوجہ کرنے پر فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ سے توبہ کرنے والوں کو بہترین لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے۔
تین ہی باتیں ہیں، ذکر اللہ کی کثرت جس میں ذکر، نماز، تلاوت، صدقات شامل ہیں۔ صغیرہ کبیرہ تمام گناہوں سے بچنا جس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ اور صحبت شیخ۔ بس ان ہی تین باتوں پر عمل کرنے سے ایک دن آدمی کو وہ نور نسبت حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے ایک عالم حیراں و سرگرداں ہے۔
ہمارا یہ مضمون پڑھتے رہیے اور جانتے رہیے کہ نسبت جیسی عظیم الشان نعمت کا حصول اتنا بھی مشکل نہیں!!!
میں بہت وقت سے سوچ رہا تھا کہ کوئی ایسا سلسلہ شروع ہو اردو محفل میں ۔
اِس سلسلے میں ابھی تک اور بحث کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک نچوڑ نہیں نکلا اِس موضوع کا ۔
 
Top