یاسر شاہ

محفلین
۷) شیخ مریدوں سے دنیاوی اشیاء کی یا نذرانے کے نام پر مال و دولت کی فرمائشیں نہ کرتا ہو۔نہ کھلے الفاظ سے نہ ڈھکے چھپے الفاظ میں۔ آنکھوں دیکھا سچا واقعہ ہے کہ ایک پیر صاحب نے اپنے مرید کو فون کیا کہ اتنے ہزار روپے کی ضرورت ہے فوراً لے کر آؤ۔ مرید بے چارہ بھاگا بھاگا آیا۔ نذرانہ پیش کرتے ہوئے بولا کہ حضرت میرے گھر میں بیمار ہیں ان کی صحت یابی کے لیے دعا کردیں۔ بس پیر صاحب کو اچھا موقع ہاتھ آیا فوراً بولے ہم نے نذرانہ یونہی طلب نہیں کیا تھا، یہ وجہ تھی، جاؤ دعا کرتے ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔تو اس طرح کی دونمبری کرنے والے پیر سے دور ی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔
۸) مرید کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پیر اپنے مریدوں یا دیگر لوگوں سے کاروبار کے نام پر پیسے تو نہیں مانگتا۔ کبھی پراپرٹی کے نام پر پلاٹوں کا کاروبار دکھا کر، کبھی بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے نام سے، کبھی مال کو دو گنا یا چار گنا کرنے کے لیے، کبھی فلاحی ادارہ کی مدد کی مد میں تو کبھی کسی اور صورت سے۔دیکھا گیا ہے کہ دنیا پرست پیر مال جمع کرکے کاروبار میں نقصان دکھاتے ہیں۔ پھر خود اس مال سے عیش کرتے ہیں جبکہ مرید در بدر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا جو پیر مرید کو پیسہ نکالنے کی مشین سمجھتا ہو ایسے پیروں کو مرید اپنی زندگی سے نکال دے۔
ایسے پیٹو اور پیٹ پرست پیر کے پاس تو جانا ہی نہ چاہیے اور ان کا کلّی اور مجمل ذکر آپ مرشد کی اہلیت میں کر ہی چکے ہیں :
۔۔۔پیر کو متبع شریعت و سنت ہونا چاہیے۔

پیر کا علماء کے حلقہ میں اعتماد ہو۔ اس کے خلاف گمراہی، بددینی، بدعتی یا اعتدال سے ہٹنے کے فتاویٰ نہ ہوں۔ یہ نہیں کہ علماء کی اکثریت اس کی تعلیم و تربیت سے ناراض ہو۔ اور اشکال قائم کیے ہوئے ہو۔

پیر اپنے نفس کو مٹائے ہوئے ہو۔ حق بات قبول کرے چاہے کوئی بھی کہے۔ یہ نہیں کہ الٹا اس پر چڑھائی کردے کہ خود تم میں بھی فلاں برائی ہے، ہمیں کیا سمجھا رہے ہو۔ اس کی اصلاح پر برا مان کر اس سے قطع تعلق نہ کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جو خود اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرنا چاہتا اسے دوسروں کی اصلاح کا بھی کوئی حق نہیں۔

پیر دنیا کا حریص نہ ہو یعنی مسجد مدرسہ کے صدقہ زکوٰۃ کے مال پر مال غنیمت سمجھ کر نہ ٹوٹ پڑتا ہو، مریدوں کی جیب، کمیشن، نذرانے پر نظر نہ رکھتا ہو، مریدوں سے اشیاء دنیا کی فرمائشیں اور مانگ تانگ نہ کرتا ہو۔ مریدوں کے مال سے استغناء کے لیے اپنا بھی کوئی جائز کاروبار یا ملازمت ہو، یہ نہیں کہ مریدوں کی کمائی پر ہی پڑا رہے۔

۔۔۔ سب سے بڑھ کر پیر خود بھی صاحب نسبت ہو۔ اس کی پہچان یہی ہے کہ وہ مندرجہ بالا کوتاہیوں کا کبھی مرتکب نہیں ہوسکتا۔
جب پیٹو اور پیٹ پرست پیروں کے پاس جانا ہی نہ چاہیے تو ایک مرشد ہی نہ ہوا دوسرا مرید ہی نہ ہوا پھر مرید پر شیخ کے حقوق عنوان کے تحت ان کا جزوی اور تفصیلی بیان چہ معنی دارد -آپ کا موضوع تو ہے :"تصوف کیا ہے " پہلے اس کی طرف تو توجہ ہو(ہوم ورک کے ساتھ ) پھر ایک الگ لڑی کھولی جا سکتی ہے جس میں "تصوف کیا نہیں ہے " کے تحت وہ بے اعتیدالیاں بیان کی جائیں جن کا تصوف سے کوئی واسطہ اور علاقہ نہیں -جو کہ بے شمار ہیں اوریہاں کے الحاد کا ایک بڑا سبب ہیں -
اللہ کا راستہ جتنا قیمتی ہے اسے طے کروانے والا بھی اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے اور شرائط کڑی نہیں

صحیح بات ہے اور اس پہ لکھنا بھی سنجیدگی اور ذمے داری سے چاہئے یوں نہ ہو کہ لگے :


نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟
 

سید عمران

محفلین
جب پیٹو اور پیٹ پرست پیروں کے پاس جانا ہی نہ چاہیے تو ایک مرشد ہی نہ ہوا دوسرا مرید ہی نہ ہوا پھر مرید پر شیخ کے حقوق عنوان کے تحت ان کا جزوی اور تفصیلی بیان چہ معنی دارد -آپ کا موضوع تو ہے :"تصوف کیا ہے " پہلے اس کی طرف تو توجہ ہو(ہوم ورک کے ساتھ ) پھر ایک الگ لڑی کھولی جا سکتی ہے جس میں "تصوف کیا نہیں ہے " کے تحت وہ بے اعتیدالیاں بیان کی جائیں جن کا تصوف سے کوئی واسطہ اور علاقہ نہیں -جو کہ بے شمار ہیں اوریہاں کے الحاد کا ایک بڑا سبب ہیں -

-آپ کا موضوع تو ہے :"تصوف کیا ہے " پہلے اس کی طرف تو توجہ ہو(ہوم ورک کے ساتھ ) پھر ایک الگ لڑی کھولی جا سکتی ہے جس میں "تصوف کیا نہیں ہے "
ہمارا موضوع ہے تصوف یہ ہے۔۔۔
اس میں تصوف سے متعلق تمام باتیں آئیں گی۔ ان شا ء اللہ!!!
تصوف میں تین چیزیں ہیں پیر ، مرید، طریقہ۔ اس لیے تذکرہ پیر و مرید کے بغیر بیانِ تصوف ادھورا ہے۔۔۔
اب یہ بات کہ ایسے پیر کے پاس جایا ہی نہ جائے۔ تو جب یہ علم ہوگا کہ ایسا پیر نہ ہو تب ہی تو نہیں جائے گا۔۔۔
دوسرا علم نہ ہونے کی بنا پر اگر ایسا پیر کرلیا تو اب علم ہونے پر ترک کرنا لازم ہے۔۔۔
پہلے پیر کی چند اہم خصوصیات ذکر کردیں۔۔۔
اب مرید کے حقوق کے تحت تفصیل سے بیان کی جارہی ہیں۔۔۔
کیونکہ مرید کا حق ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اسے قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھتا رہے۔۔۔
علم عام ہونے کی وجہ سے آج کل اکثر مرید خصوصا اہل علم کسی پیر میں ایسی باتیں دیکھتے ہیں تو اعتراض اٹھا رہے ہیں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
جو اللہ کے کسی ولی سے دوستی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو اپنے اولیاء کے قلوب کو ہر وقت لطف و کرم سے دیکھتے ہیں۔تو جن جن کی محبت ان اللہ والوں کے دلوں میں ہوتی ہے اللہ کا کرم ان پر بھی ہوجاتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ وہ بھی ولی اللہ ہوجاتا ہے ؎
تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردی
ہمارا مقصد کہنے سے یہ تھا کہ ایک عام آدمی کا یہ خاصہ نہیں ہیں ۔
شاید سمجھنے میں کچھ غلطی ہوئی معافی چاہتے ہیں
ایک عام آدمی کو اس سمجھ کی ضرورت ہے کہ صحبتِ ولی اللہ اسکے
لئے باعثِ بخشش نہیں اگر وہ مردم آزار ہے ۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بے شک اس سے گلے شکوے بھی کرو لیکن ساتھی سمجھ کر، اپنا جان کر، بیگانہ جان کر نہیں ۔ ب
یہ سب ہم کرتے ہیں بڑے لاڈ کے ساتھ رو کر گڑگڑا کے اور اسکے بے حساب رحم کی صورت میں جواب بھی آتا ہے بات ہے محسوس کرنے کی کچھ درد کی شدت کے ساتھ کچھ شکر کی صورت میں ۔۔
 

سید عمران

محفلین
یہاں ہم ممتاز مفتی صاحب کی کتاب
تلاش سے کچھ اقتباس پیش کرنا چآہتے انتہائی ادب کے ساتھ
مفتی صاحب
کو ناگوار ہ نہُ گذرے تو
ناگوار تو خیر کیا گزرتا البتہ حیرت کا باعث ضرور ہوا...
قرآن اور احادیث کے احکامات کے مقابلہ میں کسی ادیب کی بے سر و پا لفاظی پیش کرنا!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اس کی محبوبانہ شان کا متحمل ہو جانا بڑے بڑے صوفیوں بزرگوں کا کام ہے، ہم عام لوگوں کا نہیں۔
اگر یہ عام آدمی کا کام ہوتا تو ہر آدمی جو چھوٹی چھوٹی بات پر جو غصہ اپنوں اور غیروں کو دکھا رہے ہوتے سب سے پہلے تو
اُس پر ہی قابو پا لیں
 

سیما علی

لائبریرین
ناگوار تو خیر کیا گزرتا البتہ حیرت کا باعث ضرور ہوا...
قرآن اور احادیث کے احکامات کے مقابلہ میں کسی ادیب کی بے سر و پا لفاظی پیش کرنا!!!
ہمارا مقصد ایسانہ ممکن ہم اپنی بات کہہ نہ سکے ہوں ہم مراسلہ
حذف کرتے ہیں
 

سید عمران

محفلین
۹) کبھی زر پرست پیر اپنے مرید سے یہ آیت پیش کرکے رقم وصول کرتا ہے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا
(اے ہمارے رسول) ان (صحابہ) سے صدقات لے لیا کریں۔ اور (اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو) ان (صحابہ کی) پاکیزگی اور تزکیہ (کا ذریعہ) بنائیں۔
یاد رکھیں رسول اللہ اس آیت کی وجہ سے صحابہ سے جو مال وصول کرتے تھے وہ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرتے تھے، اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاتے تھے۔ جبکہ پیر اگر مرید کے مال کو وصول کرکے اپنی جیب میں منتقل کرے تو وہ اس آیت کو دنیاوی مقصد کے لیے استعمال کرنے کی وجہ سے بھی گناہ گار ہوگا اور مرید کا مال ہضم کرنے کا بھی قصور وار ہوگا۔ مرید کو ایسے پیٹ پرست پیر سے تعلق توڑنا واجب ہے۔
۱۰) اگر مرید کو شک ہوجائے کہ پیر کوئی دینی ادارہ مثلاً مدرسہ یا خانقاہ دنیا کمانے کے لیے کھولے ہوئے ہے۔ یا خود پیر اپنے مرید سے کہے کہ ہم دونوں مل کر دینی مدرسہ یا خانقاہ کھولتے ہیں۔ اور پرافٹ یعنی ان سے ملنے والا مال آدھا آدھا کریں گے تو مرید جان لے کہ ایسے پیر کی نیت میں انتہائی درجہ کا فتور ہے۔ جو دینی ادارہ کو مال کمانے کا ذریعہ بنائے گا وہ دین کے نام پر کیا کیا گمراہی نہ پھیلائے گا۔ ایسے پیر کے ساتھ معاونت تو کیا کریں، زندگی بھر اس کی طرف رُخ بھی نہ کرنا چاہیے۔
تلک عشرۃ کاملہ کے تحت مندرجہ بالا نکات کے علاوہ بھی مرید کو شیخ کے مالی معاملات میں کوئی مشکوک بات محسوس ہو تو یا تو خود شیخ سے بات کرکے معاملہ سمجھے یا تجربہ کار مفتیانِ کرام سے رابطہ کرے۔ اگر بات شک سے نکل کر یقین تک جا پہنچے اور پیر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالی بدعنوانیوں سے باز نہ آئے تو مرید کو چاہیے کہ ایسے شیخ کے دام سے فوراً نکل آئے۔
(جاری ہے)
 

یاسر شاہ

محفلین
اب مرید کے حقوق کے تحت تفصیل سے بیان کی جارہی ہیں۔۔۔
کیونکہ مرید کا حق ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اسے قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھتا رہے۔۔۔
مکرمی سید صاحب آپ دو چیزوں کو خلط ملط کر رہے ہیں -آپ یہ باتیں "مرید پر شیخ کے حقوق" کے تحت لکھ رہے ہیں "مرید کے حقوق"کے تحت نہیں -
مرید پر شیخ کے حقوق:
"مرید پر شیخ کے حقوق "سے مراد ہو گی شیخ کے حقوق نہ کہ مرید کے حقوق - اور جہاں تک میرا ناقص مطالعہ و تجربہ ہے آج تک اکابر نے اس قبیل کے شیخ کے حقوق بیان ہی نہیں کیے ہیں البتہ شیخ کی تلاش کے ضمن میں یہ باتیں کی جاتی ہیں کہ

جب بھی حاصل کسی سے دین کرو
خوب اچھے سے چھان بین کرو

یوں نہ ہو کہ چھان بین کر لینے کے بعد جب ہمارے دین سیکھنے کا مرحلہ آئے اور کبھی تربیت کے دوران نفس کا ڈینٹ نکالنے کے لیے ڈانٹ پڑ جائے تو کینے کے اثر سے شیخ کی ٹوہ، عیب چینی اور بدگمانی میں پڑ جائیں -نفس و شیطان یوں ہی راہ مارتے ہیں -آئے تھے مرید بن کر شیخ نے ڈانٹ دیا تو مفتی بن گئے -شیخ مالدار ہے جب اس نے پیار دیا تو یہ حدیث سنائی جا رہی ہے :"نعم المال الصالح للمرء الصالح"-اور مستقبل میں شیخ نے ڈانٹ دیا تو انھیں یہ سنا رہے ہیں :"الدنیا جیفة وطلابہا کلاب“-

عام معاملات میں بھی مفتیان کرام حسن ظن کا فتویٰ دیتے ہیں -مثلا کوئی گھر پہ کھانا لے آئے تو اس سے یہ پوچھنا کہ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے اور بینک میں تو نہیں کماتے وغیرہ ایسی تحقیق کو منع کیا گیا ہے اسی طرح پاکستان کے ہوٹل میں چکن کھا لینے کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے اس گمان پر کہ اسلامی ملک ہے تو ذبیحہ ٹھیک ہوگا -جب تک راز خود سے فاش نہ ہوجائے حسن ظن کی ہی تلقین کی جاتی ہے پھر ایک ایسے مرشد کے، جس کو خوب چھان بین کے بعد مرشد بنایا گیا ہے، دوران سلوک ، معاشی معاملات کی کھود کرید میں پڑنا چہ معنی دارد ؟؟

اسی لیے اکابر نے شیخ کے حقوق جو بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله تعالیٰ نے چار حقوق کی صورت میں کیا ہے اور خواجہ عزیز الحسن مجذوب رح نے شعری قالب میں انھیں ضبط کر دیا ہے :

شیخ کے ہیں چار حق رکھ ان کو یاد
اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

انھیں وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
کسی ادیب کی بے سر و پا لفاظی پیش کرنا!!!
یہ بھی ایک خفیہ مشن ہے -
پہلے بھی اسی قبیل کی لفاظیاں پیش کی گئی تھیں -جس میں یہ احمق ادیب لکھتا ہے کہ الله جل شانہ کو بچے کی طرح ٹریٹ کیا جائے اور صوفے پہ قریب بٹھا کر باتیں کی جائیں -انا للّہ و انا الیھ راجعون
اس پہ ظہیر احمد ظہیر بھائی نے بہت اچھا سمجھایا جس پہ ان کی تعریف کی گئی کہ خوب شائستگی سے سمجھایا گیا اور بڑا اثر ہوا وغیرہ وغیرہ مگر وہی لفاظیاں کی جا رہی ہیں ،پڑھی جا رہی ہیں اور پیش کی جا رہی ہیں -اثر دل میں خاک نہیں -اور جو لفاظیاں نہ کرے،مختصر اور صاف لکھے ، اسے کہتے ہیں غصیلا ہے ،نوکیلا ہے زہریلا ہے -
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۳۔۔۔ مرید کو چاہیے کہ دیکھے شیخ کسی بداخلاقی میں تو ملوث نہیں۔ مثلاً عورتوں یا بچوں کو تنہائی میں تو نہیں بلاتا۔شیخ کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو، مریدنیوں کو تنہائی میں بلاتا ہے تو ہرگز تعلق قائم کرنے کے لائق نہیں۔
اور تنہائی ہی نہیں، سرعام بھی خواتین کو سامنے بلاتا ہے، ان کے سروں پہ ہاتھ پھیرتا ہے، ان پر دم کرتا ہے، غرض کوئی بھی مقصد ہو مریدنیوں کا پیر سے جلوت خلوت میں، پردہ یا بے پردہ کسی بھی حالت میں ملنا جائز نہیں۔ جو بات بھی کرنی ہو فون پر کرے اور یہ دیکھے کہ پیر صاحب غیر ضروری گفتگو تو نہیں فرما رہے، یا کسی بھی بہانے سے ملاقات کرنے کو تو نہیں کہہ رہے۔ مثلاً بیعت کرنے کے نام پر، دل روشن کرنے کے لیے، گناہوں سے بچانے اور قلب جاری کرنے کے نام پر توجہ ڈالنے کے لیے یا تعویذ وغیرہ دینے کے لیے۔
آج کل پیر صاحب کے پاس مریدوں کے لیے ٹائم ہو نہ ہو مگر مریدنیوں کے لیے ضرور وقت ہے، ان سے فون پر لمبی لمبی غیر ضروری گفتگو کرتے ہیں۔ ایسے نفس پرست پیر سے ترک تعلق کرنا واجب ہے۔ جو خود گناہوں میں مبتلا ہو وہ مریدوں کو گناہوں سے کیسا نکال سکتا ہے۔
بہرحال دیکھا جائے کہ شیخ پر خواتین یا بچوں سے تعلقات کے صریح الزامات تو نہیں؟ اس معاملہ میں شیخ سے جدائی اختیار کرنے کے لیے صرف صریح الزامات کافی ہیں جبکہ ان کا جھوٹا یا غلط ہونا بھی ثابت نہ ہورہا ہو۔ الزامات کی تحقیقات یا تو جج کا کام ہے یا مفتی حضرات کا یا کسی صاحب اثر شخصیت کا۔ مرید کے ذمہ عموماً یہ کام نہیں مگر یہ کہ مرید خود ایسا اثر رسوخ والا ہو کہ تحقیق کرکے سچ جھوٹ کا پتا لگا سکتا ہو۔
تو ایسے شیخ سے محض الزامات کی بنا پر ہی تعلق توڑ دینا چاہیے۔ ورنہ دین بھی ہاتھ نہ آئے گا اور اس سے تعلق کی بنا پر دنیا میں بھی رُسوائی ملے گی۔
(جاری ہے)
 

سید عمران

محفلین
مکرمی سید صاحب آپ دو چیزوں کو خلط ملط کر رہے ہیں -آپ یہ باتیں "مرید پر شیخ کے حقوق" کے تحت لکھ رہے ہیں "مرید کے حقوق"کے تحت نہیں -

"مرید پر شیخ کے حقوق "سے مراد ہو گی شیخ کے حقوق نہ کہ مرید کے حقوق - اور جہاں تک میرا ناقص مطالعہ و تجربہ ہے آج تک اکابر نے اس قبیل کے شیخ کے حقوق بیان ہی نہیں کیے ہیں البتہ شیخ کی تلاش کے ضمن میں یہ باتیں کی جاتی ہیں کہ

جب بھی حاصل کسی سے دین کرو
خوب اچھے سے چھان بین کرو

یوں نہ ہو کہ چھان بین کر لینے کے بعد جب ہمارے دین سیکھنے کا مرحلہ آئے اور کبھی تربیت کے دوران نفس کا ڈینٹ نکالنے کے لیے ڈانٹ پڑ جائے تو کینے کے اثر سے شیخ کی ٹوہ، عیب چینی اور بدگمانی میں پڑ جائیں -نفس و شیطان یوں ہی راہ مارتے ہیں -آئے تھے مرید بن کر شیخ نے ڈانٹ دیا تو مفتی بن گئے -شیخ مالدار ہے جب اس نے پیار دیا تو یہ حدیث سنائی جا رہی ہے :"نعم المال الصالح للمرء الصالح"-اور مستقبل میں شیخ نے ڈانٹ دیا تو انھیں یہ سنا رہے ہیں :"الدنیا جیفة وطلابہا کلاب“-

عام معاملات میں بھی مفتیان کرام حسن ظن کا فتویٰ دیتے ہیں -مثلا کوئی گھر پہ کھانا لے آئے تو اس سے یہ پوچھنا کہ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے اور بینک میں تو نہیں کماتے وغیرہ ایسی تحقیق کو منع کیا گیا ہے اسی طرح پاکستان کے ہوٹل میں چکن کھا لینے کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے اس گمان پر کہ اسلامی ملک ہے تو ذبیحہ ٹھیک ہوگا -جب تک راز خود سے فاش نہ ہوجائے حسن ظن کی ہی تلقین کی جاتی ہے پھر ایک ایسے مرشد کے، جس کو خوب چھان بین کے بعد مرشد بنایا گیا ہے، دوران سلوک ، معاشی معاملات کی کھود کرید میں پڑنا چہ معنی دارد ؟؟

اسی لیے اکابر نے شیخ کے حقوق جو بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله تعالیٰ نے چار حقوق کی صورت میں کیا ہے اور خواجہ عزیز الحسن مجذوب رح نے شعری قالب میں انھیں ضبط کر دیا ہے :

شیخ کے ہیں چار حق رکھ ان کو یاد
اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

انھیں وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت ہے -
ان شاء اللہ آہستہ آستہ آپ کی ذکر کردہ سب باتیں آگے آئیں گی۔۔۔
رہی بات ایسے کمینہ مرید کی جو نیک شیخ کی خوبیوں کے باوجود بات بات پہ اس سے کینہ رکھے تو اس کا کیا علاج؟؟؟
بروں کو برائی سے کیسے روک سکتے ہیں ؎
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
ایسے لوگ انسانی روپ میں سراسر شیطان ہیں جو اپنی اصلاح نہ کرواکے کینہ کا مرض پال رہے ہیں۔ اسی لیے ہم نے بیان کیا کہ شیخ کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو خود اس سے یا علماء کرام سے تحقیق کرلے، اس کے بعد کوئی ایکشن لے۔
ہیڈنگ کی بات کریں تو آپ کی بیان کردہ ہیڈنگ بھی اچھی ہے۔ ابھی ہم جو کچھ ذہن میں آرہا ہے جمع کررہے ہیں۔ بعد میں اس کو از سر نو ترتیب وغیرہ دے کر پی ڈی ایف بنالیں گے۔۔۔
آپ کی پیش کردہ تجاویز بھی ذہن میں ہیں، ان شاء اللہ ان پر بھی عمل ہوگا!!!
 

سید عمران

محفلین
۴۔۔۔ شیخ سِماع کے نام پر آلاتِ موسیقی کا استعمال نہ کرتا ہو جیسے کہ قوالیاں ہورہی ہیں۔
بعض اسلاف سماع کے نام پر اللہ کی محبت کے اشعار اچھی آواز کے حامل شخص سے سنا کرتے تھے۔ اس میں بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ اشعار پڑھنے والا عورت یا کم عمر لڑکا نہ ہو، آلاتِ موسیقی کا استعمال نہ ہو اور اشعار کا مضمون خلافِ شرع نہ ہو۔ بس سماع کی حقیقت اتنی ہی ہے۔ بعد میں دنیا داروں نے اس میں خلافِ شریعت باتیں اور ڈھول ڈھمکے شامل کردئیے۔
بہرحال اگر شیخ خلافِ شریعت سماع کا اہتمام کرے تو مرید فی الفور ایسے شیخ سے ہمیشہ کی دوری کا انتظام کرے۔

۵۔۔۔ مرید دیکھے کہ شیخ کے دینی عقائد صحیح ہیں یا نہیں۔ کہیں وہ بدعات میں تو ملوث نہیں جیسے میلاد ہورہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یا صحابہ کرام کا یوم ولادت یا یوم وفات منایا جارہا ہے۔ اللہ کے نام کی بجائے غیر اللہ کے نام پر مثلاً اولیاء کرام کے نام پر نذر نیاز دیتا ہے۔ قبر کی تعظیم یا سجدہ کرتا ہے۔ قبر والے سے براہِ راست مانگتا ہے۔ قبر والے کا عرس مناتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اس کی خاص طور پر دعا مانگی تھی کہ اے خدا میری قبر کو میلے ٹھیلے کی جگہ ہونے سے بچائیے۔
شیخ نماز روزہ نہیں کرتا۔ یا مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا نہیں کرتا۔ یہ کہتا ہے کہ ہم مکہ مدینہ جا کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ یا یہ کہتا ہے کہ ہم اللہ کی محبت کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم پر نماز روزہ معاف ہوگیا۔ یا ہماری نماز بس ذکر ہے۔ دین کی بتائی گئی عبادات کے علاوہ اپنی طرف سے عبادات بناتا ہو مثلاً فلاں مبارک رات کو نماز ایسے پڑھو۔ قرآن کی فلاں سورتیں اتنی تعداد میں پڑھو۔ اور اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ان عبادات کو دین کا حصہ سمجھتا ہو۔
ایسا پیر بھی ہرگز لائق اتباع نہیں۔ یہ دین کے قریب نہیں لارہا دین سے کوسوں دور لے جارہا ہے۔ ایسے پیر سے ہرگز تعلق قائم نہ کرے اور اگر کرلیا ہے تو فوراً توڑ دے۔
(جاری ہے)
 

نور وجدان

لائبریرین
ایسے پیٹو اور پیٹ پرست پیر کے پاس تو جانا ہی نہ چاہیے اور ان کا کلّی اور مجمل ذکر آپ مرشد کی اہلیت میں کر ہی چکے ہیں :









جب پیٹو اور پیٹ پرست پیروں کے پاس جانا ہی نہ چاہیے تو ایک مرشد ہی نہ ہوا دوسرا مرید ہی نہ ہوا پھر مرید پر شیخ کے حقوق عنوان کے تحت ان کا جزوی اور تفصیلی بیان چہ معنی دارد -آپ کا موضوع تو ہے :"تصوف کیا ہے " پہلے اس کی طرف تو توجہ ہو(ہوم ورک کے ساتھ ) پھر ایک الگ لڑی کھولی جا سکتی ہے جس میں "تصوف کیا نہیں ہے " کے تحت وہ بے اعتیدالیاں بیان کی جائیں جن کا تصوف سے کوئی واسطہ اور علاقہ نہیں -جو کہ بے شمار ہیں اوریہاں کے الحاد کا ایک بڑا سبب ہیں -


صحیح بات ہے اور اس پہ لکھنا بھی سنجیدگی اور ذمے داری سے چاہئے یوں نہ ہو کہ لگے :


نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟
لگتا ہے رنگنے والے نے خوب رنگ دیا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
شیخ نماز روزہ نہیں کرتا۔ یا مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا نہیں کرتا۔ یہ کہتا ہے کہ ہم مکہ مدینہ جا کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ یا یہ کہتا ہے کہ ہم اللہ کی محبت کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم پر نماز روزہ معاف ہوگیا۔ یا ہماری نماز بس ذکر ہے۔ دین کی بتائی گئی عبادات کے علاوہ اپنی طرف سے عبادات بناتا ہو مثلاً فلاں مبارک رات کو نماز ایسے پڑھو۔ قرآن کی فلاں سورتیں اتنی تعداد میں پڑھو۔ اور اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ان عبادات کو دین کا حصہ سمجھتا ہو۔
لیکن مریدوں کا جم غفیر ہو تو کیا کہا جائے 🥲
ہمارے لوگوں کو آسان جنت کی طلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں کم از کم ریاضت ہو ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
لیکن مریدوں کا جم غفیر ہو تو کیا کہا جائے 🥲
واقعی اس کا کیا علاج...
دجال کے ساتھ بھی تو جم غفیر ہوگا...
وہ کس طرح کے لوگ ہوں گے ان کی کیا کمیاں خامیاں ہوں گی؟ ان جعل ساز پیروں کے مریدوں کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ دجال کے ساتھ بھی دینی تعلیمات سے ناواقف لوگوں کا ہی جم غفیر ہوگا...
اُس وقت بھی دینی فراست سے لوگ دجال کو پہچان کر اس کے فتنہ سے بچ جائیں گے...
اِس وقت بھی جو لوگ متبع شریعت و سنت ہیں وہ ان ڈھونگی بدعتی پیروں کے چنگل میں نہیں آتے...
یہی بیان کرنے کی کوشش کی جاری ہے کس کے ہاتھ میں ہاتھ دیں کس کا ساتھ دیں کہ دین بھی بچ جائے اور دنیا بھی!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
٦... کچھ پیر اپنے مریدوں کو پیر کو والدین پر ترجیح دینے کا کہتے ہیں۔ اب مرید پیر کی خاطر والدین کو اس حد تک ناراض کردیتے ہیں کہ انہیں خون کے آنسو رُلاتے ہیں۔ ایسے مرید یہ دلیل دیتے ہیں کہ والدین آسمان سے دنیا میں لانے کا سبب ہیں اور پیر دنیا سے آسمان یعنی جنت میں لے جانے کا سبب۔ یہ انتہائی لغو دلیل ہے۔
یاد رکھیں پیر کوئی شرعی منصب نہیں کہ اس کو والدین پر ترجیح دی جائے۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد انسان کے لیے سب سے زیادہ اطاعت کا حکم ماں باپ کے لیے ہے، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ والدین مسلمان ہوں یا کافر، غیر شرعی کاموں میں ان کی اطاعت واجب نہیں۔ مثلاً اگر وہ نماز روزہ چھوڑنے یا ڈاڑھی کٹانے یا خواتین کو پردہ وغیرہ نہ کرنے کا حکم دیں تو ان باتوں میں والدین کی بات نہیں مانی جائے گی، شریعت کے سارے احکام ادا کیے جائیں گے لیکن والدین سے بدتمیزی و بدزبانی کرنے کی اجازت پھر بھی نہیں ہوگی۔
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ضعیف والدہ کی خدمت کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکے. ایک مرتبہ مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے پر تشریف لے گئے تھے جس کے باعث زیارت نہ ہوسکی.
اس کے باوجود یہ مرتبہ ملا تھا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر اویس قرنی کو پاؤ تو ان سے اپنے اور امت کے لیے دعا کروانا.
لہٰذا مرید پر پیر کی ایسی کوئی بات ماننا ضروری نہیں جس کی وجہ سے والدین کی خدمت میں کسی قسم کی کمی کوتاہی واقع ہو یا گستاخی سرزد ہو.
جیسا کہ واضح کردیا گیا ہے کہ پیری مریدی کوئی شرعی منصب نہیں، یہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کی محض ایک انتظامی ترتیب ہے۔ جبکہ والدین کی اطاعت و خدمت شرعی حکم ہے۔ اور مسلمان پر فرض ہے کہ شریعت کو ترجیح دے کیونکہ شریعت ہی مسلمان کے مسلمان ہونے کا سبب ہے۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ہمارے لوگوں کو آسان جنت کی طلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں کم از کم ریاضت ہو ۔۔۔
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿بقرہ.214﴾

کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سُن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے.


خود ملاحظہ فرمالیں کہ ایسے پیر کیسے مرید تیار کر رہے ہیں. نماز نہ روزہ بھنگ بوزہ، مست ملنگی چرسی بھنگی...

اور حضور اکرم نے کیسے لوگ تیار کیے تھے...
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
 
Top