یاسر شاہ
محفلین
ایسے پیٹو اور پیٹ پرست پیر کے پاس تو جانا ہی نہ چاہیے اور ان کا کلّی اور مجمل ذکر آپ مرشد کی اہلیت میں کر ہی چکے ہیں :۷) شیخ مریدوں سے دنیاوی اشیاء کی یا نذرانے کے نام پر مال و دولت کی فرمائشیں نہ کرتا ہو۔نہ کھلے الفاظ سے نہ ڈھکے چھپے الفاظ میں۔ آنکھوں دیکھا سچا واقعہ ہے کہ ایک پیر صاحب نے اپنے مرید کو فون کیا کہ اتنے ہزار روپے کی ضرورت ہے فوراً لے کر آؤ۔ مرید بے چارہ بھاگا بھاگا آیا۔ نذرانہ پیش کرتے ہوئے بولا کہ حضرت میرے گھر میں بیمار ہیں ان کی صحت یابی کے لیے دعا کردیں۔ بس پیر صاحب کو اچھا موقع ہاتھ آیا فوراً بولے ہم نے نذرانہ یونہی طلب نہیں کیا تھا، یہ وجہ تھی، جاؤ دعا کرتے ہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔تو اس طرح کی دونمبری کرنے والے پیر سے دور ی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔
۸) مرید کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پیر اپنے مریدوں یا دیگر لوگوں سے کاروبار کے نام پر پیسے تو نہیں مانگتا۔ کبھی پراپرٹی کے نام پر پلاٹوں کا کاروبار دکھا کر، کبھی بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے نام سے، کبھی مال کو دو گنا یا چار گنا کرنے کے لیے، کبھی فلاحی ادارہ کی مدد کی مد میں تو کبھی کسی اور صورت سے۔دیکھا گیا ہے کہ دنیا پرست پیر مال جمع کرکے کاروبار میں نقصان دکھاتے ہیں۔ پھر خود اس مال سے عیش کرتے ہیں جبکہ مرید در بدر ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا جو پیر مرید کو پیسہ نکالنے کی مشین سمجھتا ہو ایسے پیروں کو مرید اپنی زندگی سے نکال دے۔
۔۔۔پیر کو متبع شریعت و سنت ہونا چاہیے۔
پیر کا علماء کے حلقہ میں اعتماد ہو۔ اس کے خلاف گمراہی، بددینی، بدعتی یا اعتدال سے ہٹنے کے فتاویٰ نہ ہوں۔ یہ نہیں کہ علماء کی اکثریت اس کی تعلیم و تربیت سے ناراض ہو۔ اور اشکال قائم کیے ہوئے ہو۔
پیر اپنے نفس کو مٹائے ہوئے ہو۔ حق بات قبول کرے چاہے کوئی بھی کہے۔ یہ نہیں کہ الٹا اس پر چڑھائی کردے کہ خود تم میں بھی فلاں برائی ہے، ہمیں کیا سمجھا رہے ہو۔ اس کی اصلاح پر برا مان کر اس سے قطع تعلق نہ کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جو خود اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرنا چاہتا اسے دوسروں کی اصلاح کا بھی کوئی حق نہیں۔
پیر دنیا کا حریص نہ ہو یعنی مسجد مدرسہ کے صدقہ زکوٰۃ کے مال پر مال غنیمت سمجھ کر نہ ٹوٹ پڑتا ہو، مریدوں کی جیب، کمیشن، نذرانے پر نظر نہ رکھتا ہو، مریدوں سے اشیاء دنیا کی فرمائشیں اور مانگ تانگ نہ کرتا ہو۔ مریدوں کے مال سے استغناء کے لیے اپنا بھی کوئی جائز کاروبار یا ملازمت ہو، یہ نہیں کہ مریدوں کی کمائی پر ہی پڑا رہے۔
جب پیٹو اور پیٹ پرست پیروں کے پاس جانا ہی نہ چاہیے تو ایک مرشد ہی نہ ہوا دوسرا مرید ہی نہ ہوا پھر مرید پر شیخ کے حقوق عنوان کے تحت ان کا جزوی اور تفصیلی بیان چہ معنی دارد -آپ کا موضوع تو ہے :"تصوف کیا ہے " پہلے اس کی طرف تو توجہ ہو(ہوم ورک کے ساتھ ) پھر ایک الگ لڑی کھولی جا سکتی ہے جس میں "تصوف کیا نہیں ہے " کے تحت وہ بے اعتیدالیاں بیان کی جائیں جن کا تصوف سے کوئی واسطہ اور علاقہ نہیں -جو کہ بے شمار ہیں اوریہاں کے الحاد کا ایک بڑا سبب ہیں -۔۔۔ سب سے بڑھ کر پیر خود بھی صاحب نسبت ہو۔ اس کی پہچان یہی ہے کہ وہ مندرجہ بالا کوتاہیوں کا کبھی مرتکب نہیں ہوسکتا۔
اللہ کا راستہ جتنا قیمتی ہے اسے طے کروانے والا بھی اتنا ہی قیمتی ہوتا ہے اور شرائط کڑی نہیں
صحیح بات ہے اور اس پہ لکھنا بھی سنجیدگی اور ذمے داری سے چاہئے یوں نہ ہو کہ لگے :
نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟