سیما علی

لائبریرین
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین

ہلدی لگے، یا ہینگ لگے نہ پھٹکر ی رنگ چوکھا ہی چوکھا۔

یہ عجیب و غریب محاورہ ہے اور اس کے معنی میں سماج کی مکاری اور فریب دہی بھی شامل ہے کہ کسی بھی کام کی انجام دہی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن میں سے کوئی بھی نہ ہو اور نتیجہ بہتر ہو جائے ہمارے معاشرے کے نکمے اور خود غرض آدمی چاہتے ہیں یہی ہیں کہ سب کچھ ہو جائے اور کچھ نہ کرنا پڑے اسی لئے دوسرے لوگ طنز کے طور پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آپ تو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا ہی چوکھا دیہاتی زبان میں چوکھا اچھے خاصے کو کہتے ہیں۔
 
موسیقی کے شہنشاہ کشور کمار بے شک ہم میں نہیں رہے لیکن وہ اپنی آواز کے ذریعے آخری دم تک موجود رہیں گے۔
آپا اور کشور کمار:
کشور کمار واقعی ایک عظیم فنکار تھے ۔میرے خیال میں وہ اپنے وقت سے کہیں پہلے پیدا ہوگئے تھے ۔اُن کے دنیا میں آنے اور اپنے فن کے معجزے دکھانے کا صحیح وقت یہ ہے جس میں ہم اُن لوگو ں کو سننے پر مجبور ہیں جنھیں خود اپنی آوازیں پسند نہیں اور وہ کشور کمار بنتےبنتے بس نہیں کرتے ۔آپا کا کشورکمار کے فن پر یہ مختصر اور جامع تبصرہ بڑے کام کا ہے ،واہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپا تختی پر سوار اڑتی ہوئی تیزی سے گزر گئیں اور میں الف پہ اٹکا غبار دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپا اور کشور کمار:
کشور کمار واقعی ایک عظیم فنکار تھے ۔میرے خیال میں وہ اپنے وقت سے کہیں پہلے پیدا ہوگئے تھے ۔اُن کے دنیا میں آنے اور اپنے فن کے معجزے دکھانے کا صحیح وقت یہ ہے جس میں ہم اُن لوگو ں کو سننے پر مجبور ہیں جنھیں خود اپنی آوازیں پسند نہیں اور وہ کشور کمار بنتےبنتے بس نہیں کرتے ۔آپا کا کشورکمار کے فن پر یہ مختصر اور جامع تبصرہ بڑے کام کا ہے ،واہ۔
وہ میوزیکل فلمیں بھی بھیا اب نہیں بنتیں جیسے پہلے بنتیں تھیں ۔۔نہ ہی ٹی وی پر کلاسیکل موسیقی کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔۔۔
شائقین موسیقی کو اس بات کا بڑا صدمہ ہے،کہ نہ وہ روائیتی موسیقی رہی اور نہ ہی وہ گانے والے۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
نوجوانوں کا طبقہ کلاسیکی موسیقی میں دلچسپی نہیں لیتا، اس لئے پاپولر بلکہ کمرشل ٹی وی چینل میں ایسے پروگرام نہیں آتے۔ ہندوستانی دور درشن کی سرکاری چینل پر تو اب بھی شاید کلاسیکی موسیقی کے پروگرام آتے رہتے ہیں ۔ ہاں، پرانے فلمی گیت تو کئی ہندوستانی چینلس پر پیش کئے جاتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
موسیقی روح کی غذا ہے۔۔یعنی ؀
ہر دل جو پیار کرے گا، گانا گائے گا۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

عظیم

محفلین
گیت بھی کسی زمانے میں اچھے لکھے جاتے تھے، جس طرح انڈین گانے ہیں پرانے، ان کی شاعری کسی حد تک آج کے گانوں کی شاعری سے تو بہتر ہی تھی
 
لیکن ہر کوئی اس بات سے متفق نہیں
گر تو بُرا نہ مانے:
ہرکوئی تو ہربات سے متفق ہوتا بھی نہیں مگر اکثریت کی رائے اہمیت رکھتی ہے اور یہ اکثریت وہی ہے جس کی روح اچھی موسیقی سن کر جھوم اُٹھتی ہے ، اُسے ایک نئی تازگی اورتوانائی ملتی ہے جس کے بل پر اُس میں اپنے انسان ہونے پر فخر، انسانوں سے پیار اور انسانیت کا احترام کرنے کا جذبہ بیدار ہونے لگتا ہے۔
 
آخری تدوین:
گیت بھی کسی زمانے میں اچھے لکھے جاتے تھے، جس طرح انڈین گانے ہیں پرانے، ان کی شاعری کسی حد تک آج کے گانوں کی شاعری سے تو بہتر ہی تھی
کسی کی نہ سُن گائے جا:
گیت کل کے بھی بودے اور بے اصل محض کمائی کا ذریعہ تھے ۔موسیقی کا میک اپ تھوپ کر اِن کا عیب چھپادیاجاتا تھا۔گیت آج کے بھی بودے اور بے اصل ہیں جن کا عیب موسیقی کی مستعار دُھنیں چھپانے سے قاصر ہیں مگر فلم بنانے والے فلمیں بنارہے ہیں ، گانے والے گا رہے ہیں اُنھیں ساحرلدھیانوی کا لکھا سچن ڈیوبرمن(ایس ڈی برمن) کا کمپوز کیافلم ٹیکسی ڈرائیور کا وہ نغماتی قول جو لتانے اُن تک اور سب تک پہنچایا تھا بھولا نہیں کہ :
دل جلے تو جلے۔ غم پلے تو پلے
کسی کی نہ سُن گائے جا ،گائے جا​
 

سیما علی

لائبریرین
دل جلے تو جلے۔ غم پلے تو پلے
کسی کی نہ سُن گائے جا ،گائے جا
قرینہ تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کئ نہ سن ۔۔۔
سُن سن ارےبیٹاسُن،
اِس چمپی میں بڑے بڑے گن

لاکھ دکھوں کی ایک دوا ہے،کیوں نہ آزمائے
کہےگھبرائے،کہےگھبرائے
سَرجوتیراچکرائے،یادِلڈوباجائے
آجاپیارےپاس ہمارے کاہےگھبرائے،کاہے
اس سے ہمیں جانی واکر یاد آجاتے ہیں ۔۔۔
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 
فضیتے کی جڑ:
میں کہتا ہوں میری بات صحیح ہے ، وہ کہتے ہیں اُن کا کہاٹھیک ہے ، اِنھیں یہ دعویٰ کہ مستند ہے اِن کا فرمایا ہوا، اُنھیں یہ غرور ، کہتے ہیں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں اُنھیں۔تو یہی توجھگڑے کی بنیاد اور فضیتے کی جڑ ہے کہ سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور چمپی کے بڑے بڑے گن سمجھ نہیں پارہے۔موم بئی میں تو اپ چمپی کے بجائے ایک چمبا پڑجائے تو سب سمجھ میں آجاتا ہے ۔
اِس مراسلے میں دو لفظ ایسے ہیں جن کی وضاحت کسی اور مراسلے میں کروں گا، ان شاء اللہ!
1۔فضیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھگڑے کے معنوں میں بھی استعمال دیکھا
2۔چمبا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور چمبا کا اصل مطلب فقیروں کا ایک گروہ جو اپنے جسم پر زخم لگا کر ہمدردی کی بھیک اور نقد امداد کا طالب ہوتا ہے
 
آخری تدوین:
غدرِ دہلی کے افسانے:
خواجہ حسن نظامی نے اپنی کسی کتاب میں اپنے اُسلوبِ نگارش کے بارے میں بتایا تھاکہ اُن کی ساری کتابیں اُنہی ٹکے بندھے الفاظ میں ہیں جو وہ اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اُنہی الفاظ سے اُنہوں نے اُردُو زبان کی معرکتہ الآرا کتابیں لکھیں جن پرتبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا :’’اگر میں خواجہ حسن نظامی جیسی نثرلکھ سکتا تو شاعری چھوڑ دیتا۔‘‘اب میں اپنے عنوان پر آؤں ۔’’ غدردہلی کے افسانے‘‘ خواجہ حسن نظامی کی تحریرکی ہوئی سچی کہانیوں کاایک نادر مجموعہ ہے ۔غالباًتیسری کہانی ۔’’یتیم شہزادے کی ٹھوکریں‘‘۔کے عنوان سے دہلی کے بادشاہ شاہ ِعالم کے نواسے ماہِ عالم کی روداد ہے۔یہ کہانی پڑھنے کے بعد اب کوئی مجھ سے ایسی بلندی ایسی پستی کی حقیقت پوچھتا ہے تو میں بجائے پروفیسر عزیز احمد کے ناول کا نام لینے کے خواجہ صاحب کی کتاب’’ غدرِ دہلی کے افسانے ‘‘کا حوالہ دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
عالم قبض میں طبیعت پہ زور دے دے کر لکھنے کی بجائے آپس میں کچھ بات چیت کر لی جائے تو دماغ عرش سے فرش پہ آجاتا ہے اور یہ لڑیاں بھی گپ شپ کی ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
عالم قبض میں طبیعت پہ زور دے دے کر لکھنے کی بجائے آپس میں کچھ بات چیت کر لی جائے تو دماغ عرش سے فرش پہ آجاتا ہے اور یہ لڑیاں بھی گپ شپ کی ہیں۔
ظاہری گپ شپ کے ساتھ اگر کچھ کام کی باتیں ہوجایئں اور کچھ ہلکی پھلکی گفتگو ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
طوطا کہہ رہا ہے کہ ۔۔۔۔ہر وقت سختی اچھی نہیں اگر ازراہ مذاق کچھ لکھا جائے تو اسکو اسی پیرائے میں سمجھا جانا چاہیے ۔۔انتہا پسندی کسی صورت اچھی نہیں ۔۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین
ضروری ہے یہ بتانا کہ گل بٹیا کی طبعیت بہتری کی طرف ہے شکر الحمد للہ ۔۔۔اللہ پاک اپنا رحم و کرم فرمائیں ۔۔آمین
 

سیما علی

لائبریرین
موسیقی روح کی غذا ہے۔۔یعنی ؀
ہر دل جو پیار کرے گا، گانا گائے گا۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

ضروری نہیں ہے آپ گانا گائیں ...جو آپکا دل چاہے کریں پر کسی کی دل آزاری نہ کریں کیونکہ اسکی پکڑ سخت ہے پتہ نہیں کیوں ایسا ہے کہ جو اپنے آپ کو دین کی طرف مائل کرتے ہیں وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں اور سختی انکا
خاصۂ خاص ہوجاتی ہے ۔۔۔جو لوگوں کو ان سے دور کر دیتی ہے ۔۔۔جب بھی کہیں ایسا کچھ دیکھتے ہیں تو ہمیں وہ حدیث مبارکپ یاد آجاتی ہے جس میں اعرابی کا واقعہ ہے ۔۔۔اعرابی لوگ عموماً سخت مزاج اور جاہل ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان باتوں کو نہیں سیکھ پاتے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کی ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا یہ فعل بہت گراں گزرا۔۔۔تاہم نبی ﷺ نے جو بہت بلند اخلاق سے متصف تھے اور جنہیں خوشخبری دینے اور آسانی پیدا کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا انہیں اسے جھڑکنے سے منع کر دیا۔۔اس اعرابی کو بلا کر نہایت نرم لہجہ میں سمجھایا۔۔۔ہم اور ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا او رنہ ہی برا بھلا کہا ۔۔
 
آخری تدوین:
صفحے یا صحیفے:
ایک پتھر کہ دستِ یار میں ہے ، پھول بننے کے انتظار میں ہے۔بات یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی عبارتیں، مختصرتحریریں ۔آموختہ سا ہیں سبق کو دہراکر پکاکرنے کی مشق ۔
 
Top