چائے کی باتیں چلتی رہیں گی یا کچھ اور کہنے سننے کا اجازہ بھی ہے اگر ہے تو سنیے:
موسمِ گل میں عجب رنگ ہے میخانے کا۔۔۔شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا
خوب انصاف تیری انجمنِ ناز میں ہے۔۔۔۔شمع کا رنگ جمے ، خون ہو پروانے کا
میں سمجھتا ہوں تیری عشوہ گری کو ساقی۔۔۔۔کام کرتی ہے نظر ، نام ہے پیمانے کا
اب آپ پوچھیں گے کہ چائے جیسی پاک و شفاف شے میں یہ مے اور میخانہ ، شیشہ و پیمانہ ، انجمنِ ناز ، شمع و پروانہ اور حسن کی عشوہ گری اور عشق کی دیدہ وری کہاں سے آگئیَ؟ تو میں کہوں گایہ سب سامان جلیل مانک پوری چھوڑ گئے تھے ۔یہی وہ شاعر ہیں جن کی شاعری رعایتِ لفظی اور محاورہ بندی کے طلسم سے باہر نہیں آتی مگر الفاظ کی خوبصورت بندش اور بیان میں سادگی و سلاست خوب رنگ جماتی ہے ۔ یہی رنگ اچھی کمپنی کی اُس خوش رنگ اور خوش ذائقہ چائے کا ہوتا ہےجو اگر ڈھنگ سے بنائی جائے تو کمال اور دل سے پیش کی جائے تو دھمال۔۔۔۔۔۔