سیما علی

لائبریرین
پہیلیاں !!!!!ایک زمانہ تھا سب بہن بھائی رات کو بیٹھ کر ایک دوسرے سے شرط لگاتے اور پہلیاں بجھواتے۔۔۔خواجہ نظام الدین اولیا کے چہیتے مرید اور فارسی و اردو کے پسندیدہ صوفی شاعر، ماہر موسیقی، انہیں طوطی ہند بھی کہا جاتا ہے۔جناب امیر خسرو جنکی پہیلیاں آج تک بیمثال ہیں؀
ایک تروور کا پھل ہے ترا پہلے ناری پیچھے نر
وا پھل کی یہ دیکھو چال باہر کھال او بھیتر بال
بھٹا
آوے تو اندھیری لاوے
جاوے تو سب سکھ لے جاوے
کیا جانوں وہ کیسا ہے
جیسا دیکھو ویسا ہے
آنکھ
 

عظیم

محفلین
بہت کچھ بدل گیا ہے زمانے کے ساتھ ساتھ، کبھی موجودہ وقت کو بھی یاد کریں ہو سکتا ہے، کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر گزرا ہوا وقت اچھا ہی ہوتا ہے
 
السلام علیکم ورحمته اللہ وبرکاته


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
السلام علیکم ورحمته اللہ وبرکاته


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
وعلیکم السلام
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے آمین
 

سیما علی

لائبریرین
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
لیجیے اب بچوں کے لئے علامہ اقبال رح کا شعر حاضر؀
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا

یہ جواب سن کر مکڑے نے سوچا:
مکڑے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا

سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ

یہ نظم ہے ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ اس میں جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مکڑا جو کئی دن سے بھوکا تھا، اس کے جال کے پاس سے ایک مکھی کا گزر ہوا، مکڑے نے مکھی کی بہت خوشامد کی کہ وہ کچھ دیر کے لیے اس کے گھر میں مہمان بن کر آئے اور آرام کرے، لیکن مکھی بہت ہوشیار تھی
اس اس نظم میں اقبال بچوں کو بتاتے کہ خوشامد اور جھوٹی تعریف سے چالباز لوگ اپنا کام نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔
 
۔۔۔
گزرا ہوا وقت اچھا ہی ہوتا ہے
گزرے وقتوں اور گزرتے وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ گزرے وقت اِس لیے خوابناک اور رومان پرورلگتے ہیں کہ جو تلخ و شیرینی تھی وہ اُن کے ساتھ گئی اور گزرتے ہوئے وقت سے کیونکہ پنجہ آزمائی جاری ہے اور کچھ پتا نہیں انجام کیا ہو ، اِس لیے اِس کا ایک ایک لمحہ سوہانِ روح اور عذابِ جاں معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔
بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ ۔۔۔۔۔وقت سے پہلے نہیں ہوگا​
 
آخری تدوین:
گو ایک بار اوپر کچھ لکھ آیا ہوں مگر ابھی گلزار کا لکھا ایک افسانہ جو اُن کے افسانوں کے مجموعے ’’دھواں ‘‘میں ہے ، پڑھ کر فارغ ہوا تو حیرت و استعجاب جو مجھے اُن کی تحریر پڑھ کر ہوا ،جملہ بنانے کے بہانے اُسے شیئر کرنے یہاں چلا آیا۔تو عرض ہے میں گلزار کو ایک گیت کار کے طور پر تو ضرورجانتا ہوں اور اُن کے متعدد گیت اب بھی بگوشِ دل سن کر سردھنتا ہوں مثلاً دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن یا ہواؤں پہ لکھ دو ہواؤں کے نام یا دو دیوانے شہر میں ۔رات میں یا دوپہر میں ، آشیانہ ڈھونڈتے ہیں ، آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں وغیرہ۔ افسانہ ’’بمل دا‘‘ پڑھا ۔اِس قدر سادہ،ایسا رواں،بے ساختہ ،مکالموں اور گفتگو کی طرح قدرتی ،بچوں اور درختو ں کی طرح فطری،بہتی ہوئی ندی اور گاتے ہوئے جھرنوں کی طرح مترنم ،ایک ایک تشبیہ جیسے سانس لے رہی ہے‘ زندہ ہے اور زندگی کااشارہ اور استعارہ ہے،ایک ایک واقعہ جیسے داستانیں سمیٹے ہو ئے میرامن، حیدر بخش حیدری ، رجب علی بیگ سُرور اور کچھ اِدھر اشفاق احمد اور اے حمید، کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی کے قصوں سے آنکھیں لڑا رہا ہو۔ واہ گلزار صاحب آپ تادیر یونہی چہکتے ، مہکتے اور لہلاتے رہیں ،آپ کا فن ، آپ کا ذوق اور آپ کی حیات جاوداں ہے جاوداں رہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہتا تو میں یہی ہوںکہ گلزار کی نثر شاعری سے بہتر ہے
گو ایک بار اوپر کچھ لکھ آیا ہوں مگر ابھی گلزار کا لکھا ایک افسانہ جو اُن کے افسانوں کے مجموعے ’’دھواں ‘‘میں ہے ، پڑھ کر فارغ ہوا تو حیرت و استعجاب جو مجھے اُن کی تحریر پڑھ کر ہوا ،جملہ بنانے کے بہانے اُسے شیئر کرنے یہاں چلا آیا۔تو عرض ہے میں گلزار کو ایک گیت کار کے طور پر تو ضرورجانتا ہوں اور اُن کے متعدد گیت اب بھی بگوشِ دل سن کر سردھنتا ہوں مثلاً دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن یا یہ دل اور اُن کی نگاہوں کے سائے یا دو دیوانے شہر میں ۔رات میں یا دوپہر میں ، آشیانہ ڈھونڈتے ہیں ، آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں وغیرہ۔ افسانہ ’’بمل دا‘‘ پڑھا ۔اِس قدر سادہ،ایسا رواں،بے ساختہ ،مکالمے اور گفتگو کی طرح قدرتی ،بچوں اور درختو ں کی طرح فطری،بہتی ہوئی ندی اور گاتے ہوئے جھرنوں کی طرح مترنم ،ایک ایک تشبیہ جیسے سانس لے رہی ہے‘ زندہ ہے اور زندگی کااشارہ اور استعارہ ہے،ایک ایک واقعہ جیسے داستانیں سمیٹے ہو ئے میرامن، حیدر بخش حیدری ، رجب علی بیگ سُرور اور کچھ اِدھر اشفاق احمد اور اے حمید، کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی کے قصوں سے آنکھیں لڑا رہا ہو۔ واہ گلزار صاحب آپ تادیر یونہی چہکتے ، مہکتے اور لہلاتے رہیں ،آپ کا فن ، آپ کا ذوق اور آپ کی حیات جاوداں ہے جاوداں رہے۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
افسانہ ’’بمل دا‘‘ پڑھا ۔اِس قدر سادہ،ایسا رواں،بے ساختہ ،مکالمے اور گفتگو کی طرح قدرتی ،بچوں اور درختو ں کی طرح فطری،بہتی ہوئی ندی اور گاتے ہوئے جھرنوں کی طرح مترنم ،ایک ایک تشبیہ جیسے سانس لے رہی ہے‘ زندہ ہے اور زندگی کااشارہ اور استعارہ ہے،
فوراً دل چاہ رہا ہے پڑھنے کو آپکا اتنا خوبصورت تبصتہ پڑھ کے ۔۔پر ہم ٹہرے پرانے لوگ ہمیں کتاب ہی چاہیےہے ۔۔Laptop۔Ipad پر ہڑھنے کا مزا نہیں ہے ۔۔اب تو تلاش کرنا پڑے گی کتاب ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
قبول کیجیے میرا سلام
سب کے لیے بہت ساری مزید دعاؤں کے ساتھ

غائب کہاں ہیں آپ ۔۔۔کاروباری مصرفیت ہوگی ۔۔ہمارا وعلیکم السلام اور ہماری جوابی دعاہیں خوش رہیے۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 
کہتا تو میں یہی ہوںکہ گلزار کی نثر شاعری سے بہتر ہے
ظاہر ہے جو طبعی شاعر ہیں اُن کی نثر میں بھی شعری اوصاف درآتے ہیں ۔ کچھ دن ہوئے بعض احباب تذکرہ کررہے تھے کہ قدیم میں بھی اور عصرِ حاضر میں بھی شعرائے کرام کو رب کریم سے نثری معرکے انجام دینے کےلیے بھی ضرورایسےاوصاف ملتے ہوں گےجن کے بل پروہ نثر میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیتے ہیں ۔ ایک صاحب نے میر تقی میر کی شاعری اور پھر ’’ذکرِ میر‘‘ اور ’’نکاۃ الشعراء ‘‘ کا حوالہ دیااور کہا کہ ’’نکات الشعراء‘‘کو اُردُو کا پہلا تذکرہ کہنا چاہیے سب نے کہا :’’کہیں گے ، کہیں گے۔‘‘ایک صاحب بولے تصوف پر لکھے پُر مغز فارسی رسالے اور خواجہ میردردؔ ۔ خواجہ میردرد کو اُردُو کا پہلا صوفی شاعر کہنا چاہیے ، سب نے اقرار کیا ، ایسا ہی ہے۔ ایک اور صاحب نے انشاء اللہ خاں انشاء کی استادانہ شاعری اور پھر ’’رانی کیتکی اور کنور اودے بان کی کہانی ‘‘ کا تذکرہ کیا اور پھر اُنہی کی’’دریائے لطافت‘‘ کواُردُو میں علمِ لسان پر لکھی پہلی کتاب اورقواعد، روزمرہ اور محاورے کا پہلا فرہنگ قراردیا تو اکثر کو اِس بات کےتسلیم کر نے میں ایک ذرا تامل نہ ہوااور میں اُس محفل سے یہ نتیجہ لے کر اُٹھاکہ شاعر ی اور نثر نگاری ایک ہی سکے کے دو رُخ ،ایک ہی ملک کی دو ریاستیں اور ایک ہی شاہ کے دو مصاحب ہیں ۔
 
آخری تدوین:

وجی

لائبریرین
طریقہ کار ہونا چاہیئے جب بھی جہاں سے بھی یہاں آنے والے ہوں
وہ سب سے پہلے السلام علیکم کہیں۔
 
Top