سیما علی

لائبریرین
دل کا دروازہ کھول کر اپنے اندر داخل ہو جائیں، یہ شور غوغا آہستہ آہستہ پست پڑتا جائے گا۔ اور اگر آپ خوش نصیب ہوئیں تو سب آوازیں محو ہو جائیں گے۔ پھر آپ ہی کی آواز گونجے گی کہ:
کسی در سینہ می گوئی کہ ہستم
خوب کہا دل خوش کیا آپ نے بخدا یہ دل کا دروازہ بھی کیا دروازہ ہے کھل تو جوق درجوق خیالات در آتے ہیں
؀
ہم ترے ہجر میں تنہا نہیں ہوتے ہیں کبھی
جوق در جوق چلے آتے ہیں یاروں کے ہجوم
 

اربش علی

محفلین
خوب کہا دل خوش کیا آپ نے بخدا یہ دل کا دروازہ بھی کیا دروازہ ہے کھل تو جوق درجوق خیالات در آتے ہیں
؀
ہم ترے ہجر میں تنہا نہیں ہوتے ہیں کبھی
جوق در جوق چلے آتے ہیں یاروں کے ہجوم
حیف! کہتے ہیں ہُوا گلزار تاراجِ خزاں
آشنا اپنا بھی واں اک سبزۂ بیگانہ تھا
ہو گیا مہماں سراے کثرتِ موہوم، آہ!
وہ دلِ خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا
یوں لگ رہا ہےکہ میر درد گویا یہیں موجود، ہماری حالت پہ سینہ کوباں ہیں۔ آج کسی کو فرصت کہاں کہ دل کی کوٹھری بھی ایک بار کھول کر اندر جھانکے کہ کیسی گرد جم چکی ہے دل کی دیواروں پر اور کیسا غبار اس قفس میں اڑتا پھر رہا ہے۔ اتنا وقت کسے حاصل کہ اس ویران کمرے میں پھر سے چراغاں کرے۔ کون ہے جو خیال کرے کہ:
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
بزم ہی اجڑ چکی تو یار کیوں کر آئے گا!
 

سیما علی

لائبریرین
یوں لگ رہا ہےکہ میر درد گویا یہیں موجود، ہماری حالت پہ سینہ کوباں ہیں۔ آج کسی کو فرصت کہاں کہ دل کی کوٹھری بھی ایک بار کھول کر اندر جھانکے کہ کیسی گرد جم چکی ہے دل کی دیواروں پر اور کیسا غبار اس قفس میں اڑتا پھر رہا ہے۔ اتنا وقت کسے حاصل کہ اس ویران کمرے میں پھر
چاہت کچھ اونچا سنتی ہے
آپ کا تبصرہ چاہیے
اربش علی




ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص

ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 

اربش علی

محفلین
چاہت کچھ اونچا سنتی ہے
جستجو کے بعد علم ہوا کہ یہ جناب شارق کیفی کی غزل سے ایک مصرع ہے۔
"دنیا شاید بھول رہی ہے
چاہت کچھ اونچا سنتی ہے"
ہم اکثر و بیشتر ان لوگوں کو جو ہمارے دل سے قریں اور ہم ان کے دل میں مکیں ہیں، ان کی درکار توجہ نہیں دے پاتے۔ اقربا اور احبا کی جانب التفات کی یہ کمی اکثر اس خیال کے پیشِ نظر ابھر آتی ہے کہ شاید انھیں دل میں رکھ لینا ہی محبت کا ثبوت اور تقاضا ہے۔ اور انسان اپنوں کو بھول کر غیروں پر نگاہِ لطف کرتا رہتا ہے، شاید یہ جان کر کہ وہ الفت کے زیادہ حق دار ہیں، اس لیے کہ ہم سے دُور ہیں، ہماری نظرِ کرم کو تشنہ ہیں۔یہاں اس امر کا بھول جانا عقل پر پردہ ہے کہ ان کے بھی اپنے اور چاہنے والے ان کے لیے ہمہ دم موجود ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے اعزہ ہماری فکر کو حاضر ہیں۔ مگر نئے چہروں سے آشنائی کا یہ شوق اپنوں کی مانوس شبیہ سے بے زار کر دیتا ہے۔ وعدہ و پیمان کے توڑ دینے کا اعلان نہیں کیا جاتا مگر انھیں نبھانے میں تساہل و تکاسل سا آ جاتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ یہ چہرہ جو اس وقت میرے سامنے ہے، یہ ہمیشہ اسی صورت میں میرے پاس رہے گا، میں کیوں نہ اس مانوسیت سے چند لمحے جان چھڑا کر ندرت میں غریق ہو جاؤں، نئے لوگ تلاش کروں، اور تمام تر توجہ کا مرکز انھیں بنا لوں، ورنہ وہ اجنبی ساتھی شہرِ غربت کو کوچ کر جائے گا۔ کیا یہی واقعہ اس وا ماندہ آشنا پر اطلاق نہیں رکھتا جسے ہم نئے پن کی تلاش میں کہیں تنہا چھوڑ آئے ہیں۔ روزِ اول سے جس کے ساتھ چاہت کے دعوے تھے، جس کا لمس ہمارے لیے درماں تھا، کیا وہ بھی ہمارے تغافل آمیز رویے سے پرایا نہ بن جائے گا؟ اور حقیقت یہی ہے کہ جس شخص کو بھُلا کر سطحی تعلق کے تیرِ نیم کش سے زخمی کیا جائے، اس کا ناوک ایک دن ہمارے بدن میں سے آر پار ہو جاتا ہے۔کیوں کہ چاہت اونچا سنتی ہے۔ اپنوں سے محبت اظہار کی متقاضی ہے۔ جب سننے کو کان موجود ہوں تو زبان کے قفل کھول ڈالنے چاہییں۔ کہہ دینا چاہیے کہ ہاں! میری یہ الفت کوئی زبانی پیمان نہیں، بلکہ میرا رویہ بھی اس مہر کا پرتَو ہے۔ میں دلی قربت کا ہی وعدہ نہیں کرتا بلکہ اس زندگی میں ہر دم تمھارے قریب ہوں۔ کہہ دیا جائے کہ ہاں! مجھے اپنوں کو کھو دینے سے ڈر لگتا ہے، کیوں کہ آخر وہ اپنے ہیں، اور غیروں کی نسبت وہ بھی ہم سے یعنی ان کے اپنوں سے زیادہ امیدیں باندھنے کے حق دار ہیں۔ محبت سرگوشی نہیں، ایک پر طرب نغمہ ہے،کیوں کہ چاہت کچھ اونچا سنتی ہے!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
۔ جب سننے کو کان موجود ہوں تو زبان کے قفل کھول ڈالنے چاہییں۔ کہہ دینا چاہیے کہ ہاں! میری یہ الفت کوئی زبانی پیمان نہیں، بلکہ میرے رویہ بھی اس مہر کا پرتَو ہے۔ میں دلی قربت کا ہی وعدہ نہیں کرتا بلکہ اس زندگی میں ہر دم تمھارے قریب ہوں۔ کہہ دیا جائے کہ ہاں! مجھے اپنوں کو کھو دینے سے ڈر لگتا ہے، کیوں کہ آخر وہ اپنے ہیں، اور غیروں کی نسبت وہ بھی ہم سے یعنی ان کے اپنوں سے زیادہ امیدیں باندھنے کے حق دار ہیں۔ محبت سرگوشی نہیں، ایک پر طرب نغمہ ہے،کیوں کہ چاہت اونچا سنتی ہے
ثمرین کو بلانا پڑے گا تاکہ وہ آپکو بھی اپنا اتالیق مان لیں
اسقدر خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ک ہم تو گرویدہ ہوئے چاہت کے تقاضے یہی ہیں پر کبھی کبھی سر گوشی کا اپنا لطف ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ا
پر ہمیں ایسا ہی لگا
جسکا اظہار ہم نے کردیا
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 

سیما علی

لائبریرین
ہم اکثر و بیشتر ان لوگوں کو جو ہمارے دل سے قریں اور ہم ان کے دل میں مکیں ہیں، ان کی درکار توجہ نہیں دے پاتے۔ اقربا اور احبا کی جانب التفات کی یہ کمی اکثر اس خیال کے پیشِ نظر ابھر آتی ہے کہ شاید انھیں دل میں رکھ لینا ہی محبت کا ثبوت اور تقاضا ہے۔ اور انسان اپنوں کو بھول کر غیروں پر نگاہِ لطف کرتا رہتا ہے، شاید یہ جان کر کہ وہ الفت کے زیادہ حق دار ہیں، اس لیے کہ ہم سے دُور ہیں، ہماری نظرِ کرم کو تشنہ ہیں۔یہاں اس امر کا بھول جانا عقل پر پردہ ہے کہ ان کے بھی اپنے اور چاہنے والے ان کے لیے ہمہ دم موجود ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے اعزہ ہماری فکر کو حاضر ہیں۔ مگر نئے چہروں سے آشنائی کا یہ شوق اپنوں کی مانوس شبیہ سے بے زار کر دیتا ہے۔
یہ ایسی من موہنی باتیں کہاں سے آئیں !!!!!!کچھ ایسی کھٹاک سے دل کوُلگیں کے بار بار پڑھیں -سچ کہا آپ نے ہم اکثر دل قریب ترین لوگوں کو نظر انداز کرتے ہین اور قربت میں یہ سوچ غالب آجاتی کہ وہ ہمارے دل کا حال جانتے ہیں تو ضرورت نہیں اظہار کی پر ایسا ہرگز نہیں ۔۔۔۔اور پھر نادانستگی میں
؀
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
اے جان وفا یہ ظلم نہ کر
لیکن ایسا ہوتا ضرور ہے ۔۔۔انسانی فطرت ہے نئے چہروں سے آشنائی کا شوق ——اپنوں کو تکلیف دے رہا ہوتا مگر ہم سے اتنا شکوہ ضرور کرتے ہیں ؀
سو تیر چلا سینے پہ مگر
بیگانوں سے مل کے وار نہ کر
 

اربش علی

محفلین
یہ ایسی من موہنی باتیں کہاں سے آئیں !!!!!!
ہماری اپنی سمجھ سے باہر ہے کہ یہ باتیں ہمارے اندر کہاں سے پھوٹ پڑیں۔ شاید آپ کے کہنے پر لکھا، تو آپ کے گراں قدر تجربے اور احوال ہمارے لفظوں میں گھل گئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ن م راشد صاحب فرماتے ہیں ؀
غم عاشقی میں گرہ کشا نہ خرد ہوئی نہ جنوں ہوا
وہ ستم سہے کہ ہمیں رہا نہ پئے خرد نہ سر جنوں


ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 

اربش علی

محفلین
ویسے باتیں بڑی گہری اور فلسفیانہ ہیں پڑھنے والے پر اثر انداز ہوتیں ہر ایک کی بات پُر اثر نہیں ہوتی
نکتہ بیان کر گئے رومی کہ:
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید این آوازِ دوست
آپ بالکل درست فرماتی ہیں، اثر لفظ میں کم اور لکھاری کے دل میں زیادہ پنہاں ہوتا ہے۔ مغنی کا نفَس ہی ہے جو نَے جیسی بے جان اور بے سرور شے سے دل موہ لینے والے راگ پیدا کرتا ہے۔ اقبال بھی یہی بات فرما گئے:
آیا کہاں سے نالۂ نَے میں سرورِ مے
اصل اس کی نَے نواز کا دل ہے کہ چوبِ نَے
 

سیما علی

لائبریرین
نکتہ بیان کر گئے رومی کہ:
خشک مغز و خشک تار و خشک پوست
از کجا می آید این آوازِ دوست
آپ بالکل درست فرماتی ہیں، اثر لفظ میں کم اور لکھاری کے دل میں زیادہ پنہاں ہوتا ہے۔ مغنی کا نفَس ہی ہے جو نَے جیسی بے جان اور بے سرور شے سے دل موہ لینے والے راگ پیدا کرتا ہے۔ اقبال بھی یہی بات فرما گئے:
آیا کہاں سے نالۂ نَے میں سرورِ مے
اصل اس کی نَے نواز کا دل ہے کہ چوبِ نَے
معاملہ بالکل یہی ہے کہ لفظ لکھاری ک دل میں پنہاں ہیں
جو پھوٹتا ہے کبھی تلخیوں کی شدّت سے
لہو کی تہ میں کچھ ایسا سرور اُترا ہے
 

اربش علی

محفلین
لیجیے ہم تو آپکے مراسلوں کو بار بار پڑھتے اور سر دُھنتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔
گر ہم جھوٹ نہ کہیں تو اس وقت نیند ہمیں دبوچ لینے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ اب شاید خود کو خوابوں کے حوالے کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ ہمیں رات دیر گئے تک نیند نہیں آتی۔ آج نہ جانے کیا معجزہ ہوا کہ ابھی سے چکرانے لگ گئے۔
 
Top