چشمِ بد دُور اچھا لکھتے ہیں اربش علی آپ ، بلکہ آپ کے بعض مراسلوں میں رموزِ اوقاف کی پابندی بھی دیکھی اور تراکیب پر اضافتوں کی واضح حرکات کا اہتمام بھی پایا۔میرے خیال میں لکھنا تو وہی لکھنا ہے جس میں یہ سب اوصاف ہوں اور اِس کے علاوہ بھی۔۔۔ لکھنے کے ڈھنگ سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ صاحبِ تحریر کے دل میں لو ح وقلم کا کتنا احترام ہے ۔بے تکلف دوستوں میں ٹیلیفون یا اسمارٹ فون کے ذریعے بول کر یا لکھ کے باتیں کرنا ایک چیز ہے اور انٹرنیٹ کی کسی محفل میں اظہارِ خیال کرنا ، رائے دینا ،نکتہ ٔ نظر بیان کرنا،پسند ناپسند کے بارے میں بتانا،خوشی پر اپنے جذبات اور خدانکردہ غم کے موقع پر اپنے احساسات سے مطلع کرنا کچھ اور ہی چیز ہے ۔ یہاں تو ہمیں ہر بات میں یہ خیال رکھناضروری ہے کہ ہماری ان تحریروں سے اُردُو کا فی البدیہہ ادب تشکیل پارہا ہے ،آج تشکیل پارہا ہے کل اِس کے رتبے اور معیار کا تعین ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ حقیقت ہے کہ اربش علی محفل کا اچھا اضافہ ہیں، کچھ مزید تعارف؟
ثمرین سے پوچھا :’’۔کسی کا سب سے اچھا، مکمل اور براہِ راست تعارف کیا ہوسکتا ہے؟‘‘۔ثمرین اُردُو رسم الخط میں اُردُو کا اولیں آن لائن ادبی رسالہ ’’سمت ‘‘ پڑھ رہی تھی اور ایسے ڈوب کر پڑھ رہی تھی کہ پہلی دفعہ کے پوچھنے پر خداکی بندی نے شایدسُنا نہیں توجواب بھی نہ دیا۔میں نے پھر پوچھا:’’ثمرین !سن رہی ہو،کسی کا سب سے اچھا، مکمل اور براہِ راست تعارف کیا ہوگا؟‘‘ثمرین نے سہ ماہی جریدے سے نظر اُٹھائی ، مجھے دیکھا اور بولی:’’جب فورم لکھنے لکھانے کا ہو خواہ انٹرنیٹ کی محفل ہو یا کوئی اخبار ، رسالہ یا کتاب اور پھر کسی کے تعارف کی بات ہوتب میں تو یہی کہوں گی کہ ۔۔۔۔۔تحریر ہی صاحبِ تحریر کا سب سے اچھا ، مکمل اور براہِ راست تعارف ہے ،مزیدکی ضرورت ہی نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘

ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20
 
آخری تدوین:
’’تحریر ہی صاحبِ تحریر کا سب سے اچھا ، مکمل اور براہِ راست تعارف ہے،مزیدکی ضرورت ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘میں ثمرین کی بات پر غور کرتا ہوا محفل سے اُٹھ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بس چائے پئیں اور کیوں کو سائیڈ پر رکھ دیں ( ہمارے یہاں پنجابیوں میں کہا جاتا ہے کہ کیوں سے تو لڑائی ہوتی ہے)، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ عزیزی وجی کا ہرگز یہ ارادہ نہیں ہے، اور ہو بھی کیسے سکتا ہے؟
 
یادِ رفتگاں کے تحت رسالہ’’سَمت ‘‘ میں دوکہانیاں شایع ہوئی ہیں ۔ دونوں غالباً سنسکرتی ادب سے ترجمہ شُدہ ہیں۔ایک کہانی کا عنوان ’’آواز‘‘ ہے اور دوسراقصہ ’’ پرارتھنا ‘‘ یعنی پُوجاہے۔سلام بن رزّاق نے ایسی کتنی ہی کہانیوں پر مشتمل ایک کتاب’’زین کہانیاں ‘‘ کے عنوان سے تالیف کی ہے ۔ یہ دو قصے وہیں سے رسالہ ’’سَمت ‘‘ کی زینت بنے ہیں۔زین مت دراصل بدھ مذہب کے مکتبہ ٔ فکر کی ہی ایک شاخ ہے ، جس کی اَخلاقی تعلیمات کا عکس ’’آواز ‘‘ اور ’’پرارتھنا ‘‘میں نظر آتا ہے ۔ضرورپڑھیے گا۔۔۔۔۔۔
اور جہاں تک مولف سلام بن رزّاق کا تعلق ہے تو یہ ہندُستان کے معروف افسانہ نگار ہیں ۔ آپ کے متعددافسانوں کے ترجمے دنیاکی کئی زبانوں مثلاً انگریزی، جرمن، رشین، ناروے ، اُزبک اور بعض دیگر ملکوں کے علاوہ خود ہندُستان کی کئی زبانوں میں بھی ہوئے ہیں ۔رواں برس یہ روشن ضمیر دنیا سے انتقال کرگیا، خدا مغفرت فرمائے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہہ دے ، آمین۔​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یادِ رفتگاں کے تحت رسالہ’’سَمت ‘‘ میں دوکہانیاں شایع ہوئی ہیں ۔ دونوں غالباً سنسکرتی ادب سے ترجمہ شُدہ ہیں۔ایک کہانی کا عنوان ’’آواز‘‘ ہے اور دوسراقصہ ’’ پرارتھنا ‘‘ یعنی پُوجاہے۔سلام بن رزّاق نے ایسی کتنی ہی کہانیوں پر مشتمل ایک کتاب’’زین کہانیاں ‘‘ کے عنوان سے تالیف کی ہے ۔ یہ دو قصے وہیں سے رسالہ ’’سَمت ‘‘ کی زینت بنے ہیں۔زین مت دراصل بدھ مذہب کے مکتبہ ٔ فکر کی ہی ایک شاخ ہے ، جس کی اَخلاقی تعلیمات کا عکس ’’آواز ‘‘ اور ’’پرارتھنا ‘‘میں نظر آتا ہے ۔ضرورپڑھیے گا۔۔۔۔۔۔
اور جہاں تک مولف سلام بن رزّاق کا تعلق ہے تو یہ ہندُستان کے معروف افسانہ نگار ہیں ۔ آپ کے متعددافسانوں کے ترجمے دنیاکی کئی زبانوں مثلاً انگریزی، جرمن، رشین، ناروے ، اُزبک اور بعض دیگر ملکوں کے علاوہ خود ہندُستان کی کئی زبانوں میں بھی ہوئے ہیں ۔رواں برس یہ روشن ضمیر دنیا سے انتقال کرگیا، خدا مغفرت فرمائے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہہ دے ، آمین۔​
ہاں، ارادہ تو یہی تھا کہ سلام بن رزاق پر پچھلے شمارے، نمبر 63 میں ہی گوشہ ہو، لیکن ان کے ایک شاگرد نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے ادھورے اور غیر مطبوعہ افسانوں کے علاوہ ان پر کافی مواد بھیجے گا۔ تو اس شمارے کے اداریے میں اس کااظہار کیا تھا کہ ان پر گوشہ شمارہ 64 میں شامل ہو گا۔ اس مواد کے انتظار میں تین ماہ سے زیادہ انتظار کیا، پھر بھی مواد نہیں ملا! اسی لئے شمارے میں ایک ہفتے کی مزیددیر ہو گئی۔ اور یہی عدم تعاون کی مثال تھی جس کا ذکر اس بار کے اداریے میں ہے! کچھ عدم تعاون مصنوعی ذہانت والے گوشے میں بھی دیکھنے کو ملا۔ اور میں نے سمت کا سلسلہ ختم کردینے کا طے کیا۔ زین کہانیاں پہلے سےجمع کر کے رکھی تھیں، سلام کی یاد میں ان کو ہی شائع کیا گیا
 

عظیم

محفلین
نظارے کتنے اچھے لگتے ہیں جب بارش اچھی ہوتی ہے۔
میرا بھی باقی لوگوں کی طرح دل خوش ہو جاتا ہے جب موسم اچھا ہوتا ہے، خوش گوار موسم بہت سے لوگوں کی طبیعت پر اثر انداز ہوتا ہے، مگر اس کے متبادل یعنی بہت گرم یا ناخوش گوار موسم میں بھی صبر اور شکرگزاری سے کام لینا چاہیے۔ ہم اکثر بہت زیادہ گرمی اور بہت زیادہ سردی میں تنگ سے آ جاتے ہیں۔ اس کو انسانی فطرت کہا جا سکتا ہے، مگر شکرگزاری نہیں! چاہیے تو یہی کہ ہر حال میں شکر ادا ہوتا رہے۔ مگر اللہ کا ارشاد بھی تو حق ہے کہ اس کے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں! اللہ ہم سب کو صبر اور شکر کی توفیق عطا فرمائے۔ بے شک ان سب نیکیوں کی توفیق کا ملنا ہمارے رب کی جانب سے ہی ہے۔ اسی لیے بھلائی کی توفیق ملنے کی دعا ہوتے رہنا چاہیے، اور اسی طرح برائیوں سے بچنے کی بھی
 

سیما علی

لائبریرین
ارشاد بھی تو حق ہے کہ اس کے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں! اللہ ہم سب کو صبر اور شکر کی توفیق عطا فرمائے۔ بے شک ان سب نیکیوں کی توفیق کا ملنا ہمارے رب کی جانب سے ہی ہے۔ اسی لیے بھلائی کی توفیق ملنے کی دعا ہوتے رہنا چاہیے، اور اسی طرح برائیوں سے بچنے کی بھی
لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا واجب ہے
اسی لئے فرمان رب العزت ہے ؀
اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسند کرے گا۔
بس ہر دم یہ دعا کرتے رہنا چاہئیے کہ پروردگار ہمیں
اپنا شکر کزار بنادے
آمین !
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 
Top