میرے خیال میں تو شہاب نامہ اردو ادب کے ماتھے کا جھومر ہے
۔
اورمیری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جو بھی آتا ہے وہ بحث کے مرکزی نقطہ کو سمجھے بغیر لقمہ کیوں دے دیتا ہے؟؟؟ جناب سے گذارش ہے کہ پوری بحث کو دوبارہ ، سہہ بارہ اور اس وقت تک پڑھتے چلیں جائیں جب تک کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہوجائے کہ شہاب نامہ کی ادبی حیثیت زیربحث ہے ہی نہیںِ۔
یہ کتاب اپنے قاری کے سامنے فکرو نظر کے بہت سے دریچے وا کرتی ہے۔ مجھے بھی اس کتاب کے مطالعے کے بعد بہت سی نئی راہوں اور سمتوں سے آشنائی ہوئی۔ مزید مطالعے کیلئے بہت سے دریچے وا ہوئے۔ خصوصا اسلامی تصوف کے حوالے سے علمائے اسلام اور بزرگانِ دین کی بہت سی قابلِ قدر تحقیقات سے آگاہی نصیب ہوئی۔ ۔ ۔ شہاب نامے اور صاحبِ کتاب کا یہ احسان کیا کم ہے؟۔
صرف اتنا عرض کردیں کہ آپ کو اس بحث سے کیا سمجھ میں آیا کہ یہ بحث کس زاوئیے سے ہورہی ہے؟
جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے جو ‘زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘ اور ‘کنویں کے مینڈک‘ اور ‘انگور کھٹے ہیں‘ والے محاوروں کے مصداق ہیں ان سے کچھ اسی قسم کے فضول اعتراضات کی توقع کی جاسکتی ہے جو اس دھاگے میں پڑھنے کو ملے۔
اتنے بڑے بڑے الزامات لگا دئیے ہیں آپ نے کیا یہ باعث حیرت نہیں کہ ہم نے اگر شہاب نامہ پرکوئی الزام لگایا تو باقاعدہ دلائل بھی پیش کئیے اور آپ نے ہم پر بلاثبوت الزام لگا دئیے!! ایمانداری سے بتائیے کیا اخلاقی طور پر آپ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ ہمارے "فضول اعتراضات" کا جواب دئیے بغیر آپ ہم پر یہ الزامات لگا دیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ان "فضول اعتراضات" کو غلط "ثابت" بھی کریں گے تو ہم مانیں گے۔ نہیں بلکہ آپ صرف اس نیت سے جواب دے دیجئے کہ کسی کی غلط فہمی دور کرنا مقصود ہے لیکن یہ آپ کا کم از اکم فرض بنتا ہے اسطرح کے الزامات لگانے سے پہلے۔ ورنہ اعتراض کا جواب دیئے بغیر اس طرح کے سخت الفاظ میں کسی کو برا بھلا کہنا نہ صرف اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے بلکہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دوسری طرف اب دلائل کا فقدان ہے اورصرف سخت زبان کا ہتھیار باقی رہ گیا ہے۔
شہاب نامے کو تو جانے دیجئے، واقعہ یہ ہے کہ قرآن جیسی کتاب سے بھی کچھ لوگوں کو ہدایت کی بجائے گمراہی ملتی ہے ۔ اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی قرآن نے ہی بتایا ہے کہ “یضل بہ کثیراّ و یہدی بہ کثیراّ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ کی اس بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی کتاب پر بھی اعتراض نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی کسی کتاب پر اعتراض کرتا ہے تو دوسرا اس کا جواب دینے کی بجائے قرآن بیچ میں لے آئے اور یہ کہہ دے کہ اعتراض تو قرآن پر بھی ہوتے ہیں۔ واہ بہت ہی خوب طریق ہے۔ باقی احباب سے بھی گزارش ہے اس آسان طرق پر عمل کریں اور جب بھی ان کی کسی پسندیدہ کتاب پر کوئی اعتراض ہو تو قرآن بیچ میں لے آیا کریں دوہرا فائدہ ہوگا ایک تو جواب دینے کی زحمت سے بچ جائیں گے اور دوسرا بحث ختم ہوجائے گی۔
جناب اتنا ہی خوف خدا کرلیں کہ ایک عام سی کتاب جس کے مصنف کے بارے میں اوپر یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے دروغ گوئی کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کی کتاب پر ہونے والی بحث کو آپ قرآن پر ہونے والی بحث سے ملا رہے ہیں۔ کیا آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ جو آیت آپ نے لکھی ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ اس آیت کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے کہ اس میں قرآن ہی کے ایک وصف کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ قرآن سے ہی خاص ہے۔ کیا اس آیت میں بیان کردہ خوبی شہاب نامہ میں بھی موجود ہے؟اگر نہیں تو پھر اس کا اس موقعے پر ذکر کرنا قطعا نامناسب تھا۔