بات تو سچ ہے ظفری۔۔۔ حالتِ قیام میں تو کھڑا ہوا ہے ہلیری کے آگے اور جس کے بعد یقیناً رکوع و سجود ہی کا عمل ہوتا ہے۔یہ کیفیت دیکھ کر تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہیلری کچھ دیر وہاں ٹہرتی تو موصوف سجدے میں گرے ہوئے ہوتے ۔
وہ بیچارا اس کے پیچھے کھڑا کسی اور کو تاڑ رہا ہو گا۔ آپ اسے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
بات تو سچ ہے ظفری۔۔۔ حالتِ قیام میں تو کھڑا ہوا ہے ہلیری کے آگے اور جس کے بعد یقیناً رکوع و سجود ہی کا عمل ہوتا ہے۔
آپ کو علم نہیں ہے یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ۔ ایک مخصوص گروپ ہے ۔ ایک دوسرے کو میلز اور دیگر ذرائع سے باخبر کرتے ہیں کہ کہاں کہاں جا کر اچھل کود مچانی ہے ۔ جہاد سے لیکر مختلف مذہبی اور سیاسی زمروں میں جاکر بے سروپا باتیں کرتے ہیں ۔ پھر کچھ دن بعد غائب ہوجاتے ہیں ۔
میرے خیال میں نہ صرف ایسے لوگوں بلکہ ایسے دھاگے پر طویل مباحثہ بھی بے سود ہے۔کچھ عرصے سے میں محفل سے غائب رہا ہوں، اس وجہ سے یہ نوٹس نہیں کر سکا۔ ایسے لوگوں کو اگنور کرنا ہی بہتر ہے۔
جو اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا نہیں چاہتے انسے غیر بھی سبق سیکھ لیتے ہیں۔اوریا مقبول کو اپنے ہر دلعزیز دوست اور ملک کے نامور دانشور حسن نثار کی پہلے خبر لینی چاہیئے ۔ جو اپنی ہر خطابت میں مسلمانوں اور اپنے آباؤ واجداد کے مظالم کے قصے زور و شور سے بیان کرتے ہیں ۔ ٹی وی پر اس سے پہلے میں نے مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے کسی اور کو نہیں دیکھا ۔
میرے خیال میں نہ صرف ایسے لوگوں بلکہ ایسے دھاگے پر طویل مباحثہ بھی بے سود ہے۔
اخباری تراشے لگانے اور ان کے پیچھے ڈگڈی بجانے والوں کا مقصد ماسوائے تفریح اور زچ کرنے کے کچھ نہیں۔
ایسے موضوعات سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی رد میں مختصر مراسلہ لکھیں اور رخصت لیں۔
باقی سب توجیحات برائے توجیحات ہی ہیں۔۔۔ اصل چکر لڑکے بازی ہی کا ہے اور یونانی شاعری کا تو مجھے علم نہیں لیکن ہر دو عربی و فارسی تاریخ میں ہم جنس پرستی عام ہے گو کہ عربی شاعری میں کافی حد تک مونث محبوبہ کا تذکرہ رو رہا ہے لیکن فارسی شاعری میں تو مذکر محبوب ہی کا ذکر ہے اور وہیں سے شاعری میں مذکر محبوب در آیا ہے جو آج تک پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہااور میر کے کلام میں اسی فارسی شاعری کے تتبع میں لونڈے ہی لونڈے ملتے ہیں ۔خیر اس پوری بحث سے ایک عقدہ تو مجھ پر کھلا، اس کا تعلق نہ ملالہ سے ہے نہ امریکہ سے، بلکہ اردو شاعری سے ہے۔ ابھی کل ہی اردو غزل کے بارے میں رالف رسل کا ایک مضمون (The pursuit of urdu ghazal) پڑھ رہا تھا۔ اس میں اردو غزل کو سمجھنے میں ایک مغربی باشندے کو درکار مشکلات کے بارے میں لکھا ہوا ہے- کافی دلچسپ مضمون ہے۔ ایک بات جو مصنف کو عجیب لگی تھی کہ غزل میں محبوب کے لئے ہمیشہ مذکر کی صنف استعمال کی جاتی ہے، اس کے لئے مصنف نے طرح طرح کی توجیحات پیش کی ہیں۔ یونانی ہم جنس پرستی سے لے کر عربی اور مصری ادب کے نمونے تک پیش کئے۔ لیکن اس دھاگے کے توسط سے مجھے معلوم ہوا کہ اصل وجہ یہ ہے کہ غزل کے اکثر اشعار عشق مجازی و حقیقی دونوں معنوں میں لئے جا سکتے ہیں۔ اور اس کے لئے محبوب کا مذکر ہونا ضروری ہے۔ اگر محبوب مؤنث ہو جائے تو شعر صرف عشق مجازی تک محدود ہو جائے گا۔
بہرحال میں مکمل طور پر اپنی رائے میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ فاتح بھائی اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔
باقی سب توجیحات برائے توجیحات ہی ہیں۔۔۔ اصل چکر لڑکے بازی ہی کا ہے اور یونانی شاعری کا تو مجھے علم نہیں لیکن ہر دو عربی و فارسی تاریخ میں ہم جنس پرستی بہت عام ہے اور وہیں سے شاعری میں مذکر محبوب در آیا ہے جو آج تک پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا۔
میر صاحب کا فرمان ہے۔۔۔باقی سب توجیحات برائے توجیحات ہی ہیں۔۔۔ اصل چکر لڑکے بازی ہی کا ہے اور یونانی شاعری کا تو مجھے علم نہیں لیکن ہر دو عربی و فارسی تاریخ میں ہم جنس پرستی عام ہے گو کہ عربی شاعری میں کافی حد تک مونث محبوبہ کا تذکرہ رو رہا ہے لیکن فارسی شاعری میں تو مذکر محبوب ہی کا ذکر ہے اور وہیں سے شاعری میں مذکر محبوب در آیا ہے جو آج تک پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہااور میر کے کلام میں اسی فارسی شاعری کے تتبع میں لونڈے ہی لونڈے ملتے ہیں ۔
محبوب کے جلووں کو تیر و تفنگگ اور تلوار سے تشبیہ دینے کے آغاز کی بابت بھی قرین از قیاس یہ ہے کہ ایران پر ترک افواج حملے کیا کرتی تھیں اور ان افواج کے سپاہی نوجوان خوبصورت لڑکے ہوتے تھے جن پر اہل فارس عاشق ہو جایا کرتے تھے اور ان خوبصورت سپاہی لڑکوں کی تلواروں اور تیروں کا ذکر محبوب کے قاتل جلووں کا استعارہ بن گیا
چناں بردند صبر از دل کہ ترکاں خوان یغما را
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشادفرمایا عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یعنی علم ختم ہوجائےگا۔ اس زمانہ کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی ان کے علما آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہونگے۔ (عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ۔ اُن کے علماء کی اب نشاندہی ہوگئی کہ اُن کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں بد ترین ہوں گے) ان میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور ان میں ہی لَوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔یہ کالم نگار لکھتا ہے کہ۔۔۔
کاش اس کالم نگار کے آباؤ اجداد، مذہب اور اخلاقیات نے اسے یہ تعلیم دے دی ہوتی کہ لاکھوں معصوموں کے سفاک قاتل، اسلام کے نام پر بربریت کے علمبردار کانے ملّا کو ذلیل کمینہ اور گھٹیا جانور کہنے کی جرات رکھتا بجائے اس کے کہ اسے یہ تکلیف ہے کہ اس کے سفاک قاتل ظالم جابر بربر باپ کو کانا ملا کیوں کہا گیا۔
پاکستانی صحافت کو کوزے میں بند کر دیا جناب نے۔ ماشاءاللہ۔عثمان قاضی لکھتے ہیں:
"گویا اوریا صاحب کا موقف ہے کہ:
- کوثر نیازی مرحوم ایجنسیوں کے نزدیک نہیں تھے.
- ضیا الحق کا دور خصوصا خواتین کے لئے سنہری دور تھا، جس کا ثبوت پی ٹی وی کے ڈرامے ہیں
- ملا عمر کی دونوں آنکھوں کی بینائی مکمل طور پر موجود ہے
- برقع ایک نہایت آرامدہ لباس ہے، خصوصا گرمیوں کے موسم میں
- مشرف امریکہ کے ساتھ مخلص تھے، طالبان کو اثاثہ قرار نہیں دیتے تھے اور انہوں نے پاکستان سے طالبان کا مکمل صفایا کر دیا تھا.
- سکندر اعظم کی تعریف پر مبنی نصاب صرف ملاله کے باپ کے سکول میں پڑھایا جاتا تھا
- ہم ایک مضبوط ملک ہیں جو بھارت سے لڑ سکتا ہے اور کئی بار اسے ہرا بھی چکا ہے.
- یہ بھارت والی بات سچ نہ بھی ہو، تب بھی ہمیں بچوں کو جھوٹ پڑھانا چاہئے، چونکہ امریکی بھی ایسا کرتے ہیں
سبحان اللہ"
میر نے جو جو کچھ کہا ہے۔۔۔ وہ ناگفتہ بہ ہے۔۔۔ نہ چھیڑ ملنگاں نوںمیر صاحب کا فرمان ہے۔۔۔
میر ہرچند میں نے چاہا لیکن
نہ چھپا عشق طفل بدخو کا
اور ایک جگہ فرماتے ہیں
ترک بچہ سے عشق کیا تھا، ریختے کیا کیا میں نے کہے
رفتہ رفتہ ہندوستان سے شعر مرا ایران گیا
میں نے تو آپ کی ترک و ایران والی بات کے پس منظر میں شعر داغا تھا۔۔۔میر نے جو جو کچھ کہا ہے۔۔۔ وہ ناگفتہ بہ ہے۔۔۔ نہ چھیڑ ملنگاں نوں
سوری ظفری بھائی ذرا اپنی مادری زبان کا چسکا آج کل کچھ زیادہ ہی لگ گیا ہے آئندہ احتیاط کی کوشش کروں گاعابد بھائی پہلے آپ کی بات سمجھنی پڑتی تھی ۔ اور اب ساتھ ، آپ کی باتوں کے لیئے " ترجمہ درکار ہے " کا بھی نعرہ لگانا پڑتا ہے ۔
کیا ’’بدترین‘‘ سیکولر ذہنیت والی مغربی میڈیا کے سامنے اسلامی اور ثقافتی حجاب پہن کر جاتی ہے؟ لاحول ولا قوۃ!ملالہ کی کتاب میں نے ذاتی طور پر نہیں پڑھی لیکن اب تک اس کتاب کے جواقتباسات اخبارات وغیرہ کے ذریعے سامنے آئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملالہ بدترین قسم کی سیکولر ذہنیت رکھتی ہے۔
پہلی گزارش کہ "لاحول ولا قوۃ" نا لکھیں بلکہ کم از کم لاحول ولا قوۃ الاباللہ تک لکھا کریں ملالہ کا اسلامی اور ثقافتی حجاب پہن کر مغربی میڈیا کے سامنے جانا مجھے بھی بہت پسند ہے اور اس بات کی بہت خوشی ہے لیکن اگر آپ آج کے جنگ میں ہی ملالہ کی کتاب کے اقتباسات پر مبنی انصار عباسی کی خبر پڑھ لیں تو آپ کو میری رائے سے اختلاف کرنا آسان نہیں لگے گا۔کیا ’’بدترین‘‘ سیکولر ذہنیت والی مغربی میڈیا کے سامنے اسلامی اور ثقافتی حجاب پہن کر جاتی ہے؟ لاحول ولا قوۃ!
کسی بھی الہامی کتاب کے چنیدہ اقتباس پڑھ پڑھ کر دماغ خراب کر لینا تو پرانی قوموں کا شیوہ رہا ہے۔ یعنی جب تک پوری کتاب پڑھ نہ لی جائے، چنداں اقتباس پڑھ کر اس سے نتیجہ اخذ کر لینا سراسر غلط ہے۔ جنہوں نے یہ کتاب مکمل پڑھ لی ہے انکی رائے اس کتاب کے بارہ میں یہاں دیکھ سکتے ہیں:پہلی گزارش کہ "لاحول ولا قوۃ" نا لکھیں بلکہ کم از کم لاحول ولا قوۃ الاباللہ تک لکھا کریں ملالہ کا اسلامی اور ثقافتی حجاب پہن کر مغربی میڈیا کے سامنے جانا مجھے بھی بہت پسند ہے اور اس بات کی بہت خوشی ہے لیکن اگر آپ آج کے جنگ میں ہی ملالہ کی کتاب کے اقتباسات پر مبنی انصار عباسی کی خبر پڑھ لیں تو آپ کو میری رائے سے اختلاف کرنا آسان نہیں لگے گا۔
وہ عالمی سیاست تک پہنچ گئی۔ ایک پاکستانی کیلئے اس سے بڑا اعزاز یا جلنے والی بات کیا ہوگی؟ملالہ بے چاری کے تو ابھی ٹوینکل ٹوینکل پڑھنے کے دن بھی ختم نہیں ہؤے کہ۔۔۔ ۔