ادب دوست بھائی مرے شب گزیدہ
اگر رات کو نیند آتی نہیں ہے
بھلائی سے بدلو گے کیسے بُرائی
سمجھ میں اگر یہ سماتی نہیں ہے
مِرا مشورہ آپ کو بس یہی ہے
ہے سچ بات ، گرچہ لُبھاتی نہیں ہے
بس اُٹھ بیٹھو بیٹا بہت ہوچکی ہے
دیئے بجھ چکے ہیں کہ باتی نہیں ہے
سویرے کا اٹھنا ہے عادت کچھ ایسی
کہ بن جائے عادت تو جاتی نہیں ہے
کیے جاؤ کوشش ادب دوست بھائی
یہ کوشش یہ محنت ہراتی نہیں ہے