اگرچہ مرا یہ ارادہ نہیں ہےادب کا میں دامن جو چھوڑوں تو کیسے
ہے حکم آپ کا ورنہ کرتا نہ ایسے
یہاں کھیل والا جو مصرعہ ہے اس میں
سبق کا جو ہے سین وہ ہے زیادہ
ہے حکم آپ کا جو ادب سے بھی بالاگرچہ مرا یہ ارادہ نہیں ہے
اگر میں کہوں ’سین‘ زیادہ نہیں ہے
زیادہ جو ہے حرف ،ہے ’لام‘ کا وہ
تو یہ بھی صحیح ہے، مرے کام کا وہ
اب اس میں ہیں کے غلطیاں یہ بتائیں
تو تم کو بھی استاد ہم مان جائیں
بہت خوبصورت ہیں بیت آپ کے یہتمہاری محبت سے ہوگا کنارا
ہمارا بھی مر مر کے ہوگا گزارا
میسر تمہں بھی ہو ایسی ہی راتیں
تمہیں بھی تو کوئی ملے ایسا سہارا
یہاں نور غزلیں کہے جا رہی ہیں!!اگر لکھنا یادوں کا تھا کام اچھا
تو کہتی لکھو یہ کہ ہو نام اچھا
اگر چاہنا ہوتا جو کام اچھا
لگا عشق میں اک اک الزام اچھا
اگر جلنا بھی دھوپ میں ہوتا اچھا
مہر ڈوبنے کا ترا کام اچھا
غزل کا مرا گر جو ہوتا ارادہیہاں نور غزلیں کہے جا رہی ہیں!!
فعولن میں باتیں نہیں ہو رہی ہیں
اگر یہ غزل ہے تو ’اصلاح‘ میں دو
یہاں ایسی گھاتیں نہیں ہو رہی ہیں
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
یہاں سب ہی آیا کریں جاتے جاتے
میں کاشف کی آمد سے بھی خوش ہوا ہوں
برائے ادب دوست دعا کر رہا ہوں
یہاں ’ت‘ بنی ہے ٹماٹر کی چٹنی
جسے بوجھنے کی نہیں ہےپہیلی
یہاں مبتدی بھی ہیں استاد بھی ہیںلکهے تاب کیوں کر یہاں پر جہاں پر
ادب داں جماعت کی محفل سجی ہو