ہمیں بھی بتاو، ہمیں بھی سکھاو
بڑے علم والو، بڑا نام پاو
زمانے کے سردو گرم راستوں پر
چلے کیوں ہو تنہا، ہمیں بھی چلاو
نہیں شاں مسلماں کی تفریق کرنا
کھلاو سبھی کو، وہی خود جو کھاو
کرو کھیل مستی، بھلانا نہیں ہے
اگر وقت آئے تو مسجد کو جاو
کرو یاد لوگوں کے افعال اچھے
بُرا جو کیا تھا، وہ سب کچھ بھلاو
نہیں کام مشکل بھلائی کے لوگو
ذرا سی بھی فرصت میں نیکی کماو
بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دینا
بھلائی کے دم سے بُرائی مٹاو
نہیں میرا مقصد ہے تبلیغ اظہر
تُمہاری ہے مرضی جو ننگا نہاو
خیالات ظاہر ، نہیں بلکہ اظہر
بہت خوب اچھا لگا ہے یہ منظر
یقینا یہ تو نام کے ہی ہیں اثرات
صفاتِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہیں ساری برکات
وعیدیں سنائی ہیں وعدے بتائے
نذیر و بشیر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بن کر تھے آئے
 

متلاشی

محفلین
تخیل مرا شاعرانہ نہیں ہے
مری وضع بھی عاشقانہ نہیں ہے

گئے دن کہ ہنستے نہ تھکتے تھے ہم بھی
نصیبے میں اب مسکرانا نہیں ہے

یہ الفت ، محبت ، عقیدت کی باتیں
یہ دردِ جگر ہے فسانہ نہیں ہے
(متلاشی)
 
تخیل مرا شاعرانہ نہیں ہے
مری وضع بھی عاشقانہ نہیں ہے

گئے دن کہ ہنستے نہ تھکتے تھے ہم بھی
نصیبے میں اب مسکرانا نہیں ہے

یہ الفت ، محبت ، عقیدت کی باتیں
یہ دردِ جگر ہے فسانہ نہیں ہے
(متلاشی)
ارے کیوں بھلا کیا ہوا ہے یہ تم کو
یہ کیوں شعر کا اب زمانہ نہیں ہے
کہیں گھر کی بجلی گئی تو نہیں یا
چمن کا یہ موسم سہانا نہیں ہے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نہ جانے انھیں آج کل کیا ہوا ہے؟
مجھے خامشی توڑنی ہی پڑے گی
کہ اچھا بہت ہی یہ دھاگا لگا ہے
مگر بحر پر ہی توجہ میں دوں گا
معانی میں الجھوں یہ فرصت نہیں ہے
بلایا نہیں تھا کسی نے بھی مجھ کو
مگر اتفاقاً یہ دھاگا جو دیکھا
تو سوچا کہ میں بھی نہ کیوں ٹانگ اڑاؤں
کہ مجھ کوبھی شاعر تو سب مانتے ہیں
ہے از بسکہ آساں یہ بحرِ فعولن
کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی
لکھوں گا وہ باتیں جو پنہاں ہیں دل میں
لٹا دوں گا موتی سرِ بزمِ یاراں
 
Top