میرا خیال ہے ذرا اس جملے کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے تو عین بہتر ہے۔
ورنہ اس فقرے سے یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ : اگر کوئی مسلمان خود کو مسلمان کہتے ہوئے ختم نبوت کا انکار کرے تو وہ مرتد نہیں کہلائے گا۔
محترم آپکے سوال کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اس وقت تک مسلمان ہوہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ تمام ضروریات دین پر صدق دل سے ایمان نہ لے آئے اور اگر ایمان لانے کے بعد وہ ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کردے اور پھر اس پر قائم رہے تو پھر ایسے شخص کے مرتد ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔
اب جبکہ ہم یہ واضح کرچکے کہ جو بھی مسلمان دین اسلام کی مسلمات یعنی ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کردے گا تو وہ بلاشبہ کافر و مرتد ہوجائے گا تو موجودہ دور کے قادیانی جو کہ مورثی طور پر قادیانی ہیں وہ سرے مسلمان ہیں ہی نہیں ۔ کیونکہ انکا پیدائشی طور پر ہی ختم نبوت کے( مسلمہ عقیدہ) عقیدہ پر ایمان درست نہیں لہذا وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں کیونکہ مسلمات دین میں سے یعنی ضروریات دین میں سے یعنی مسلمان ہونے کے لیے جن جن چیزوں کا ہونا ضروری تھا ان ہی میں سے ایک ختم نبوت کا عقیدہ بھی تھا جو کہ ان کا پیدائشی طور پر ہی غلط تھا( لہذا وہ مسلمان ثابت ہی نہ ہوئے کیونکہ مسلمان ہونے کے تمام ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے) نہ کے ان میں سے کوئی بھی پہلے مسلمان ہوکر اس عقیدے کو صحیح مان کر بعد میں اس سے انحراف کرتا ہے ۔
تو لہذا ان پر مرتد کا حکم نہیں لگایا جاسکتا اور محترم آپکی اطلاع کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ ہر کافر مرتد نہیں ہوتا جبکہ ہر مرتد کافر ضرور ہوتا ہے ۔ اور ارتداد کا حکم اسلامی حدود کا ایک بڑا اہم مسئلہ ہے اسکو ہر کسی کافر پر یونہی چسپاں نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔ ۔
اس کی کوئی دلیل آپ نے نہیں دی۔
جبکہ میں نے شیخ صالح المنجد کا
اس فتوے کا ربط آپ کو دیا تھا جس میں تفصیل درج ہے کہ :
ارتداد كس چيز سے ہوگا؟
میں شیخ صالح المنجد کے فتوے کو بھی چھوڑ دینے پر راضی ہوں بشرطیکہ آپ اپنی درج بالا تعریف میں ادلہ اربعہ سے دلیل دیں۔ صرف باتوں سے ماننا ہو تو میں آپ کے مقابلے میں ایک معتبر عالم دین کی بات کو کیوں نہ مانوں؟
محترم اس کی دلیل آپ ہی کی پیش کردہ بخاری شریف کی وہ روایت ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ۔ عن ابْن عَبَّاسٍ قَالَ :
قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
(مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ)
صحیح بخاری ، كتاب استتابة المرتدين ، باب حكم المرتد والمرتدة ، حدیث :7008
حدیث کے الفاط اپنے مفھوم بالکل واضح اور صریح ہیں کہ جو اپنا دین تبدیل کرلے اس قتل کرڈالو اور امام بخاری علیہ رحمہ نے اسے مرتدین کے باب میں نقل کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ جو دین بدلے وہ مرتد ہے کیونکہ دین بنیادی طور پر نام ہے عقائد کا لہذا جو کوئی بھی مسلمان ضروریات دین میں سے کسی بھی عقیدہ کا انکار کردے گا وہ مرتد کہلائے گا ۔کیونکہ اس نے دین کو تبدیل کرنے والی بات کردی ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ:-
یاد رہے کہ یہاں دین سے مراد دین اسلام ہے ۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ۔
ناسمجھ ، بےشعور بچے کو مرتد کہنے کی بات تو میں نے کہیں بھی نہیں کی۔ میری ساری پوسٹس دوبارہ چیک کر لیں۔
واہ بھائی ! کیا فہم و فراست ہے۔
آپ کے نظریے کے پیش نظر ، بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ کافر کو بھی کافر نہ کہا جائے۔
میں نے ایسا کب کہا ؟ میں نے تو صرف لوگوں کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ایک خالصتا اسلامی اصطلاح کے غلط استعمال کے اوپر تھی اور وہ یہ کہ جو لوگ پیدائشی کافر ہوں انکو کافر ہی کہا جائے گا نہ کے مرتد (حالانکہ میں اپنی سابقہ تمام رپلائز میں یہ واضح کرچکا ہون کہ قادیانی کافر ہیں پھر آپکا مجھ پر ایسا اعتراض کرنا چہ معنٰی دارد؟
ظاہر ہے ایک ہندو بچپن سے جس عقیدے سے چمٹا ہوا ہے وہ اسے "حق" جان کر ہی تو چمٹا ہوا ہے، تو کیا اس کے ایسے حق کے اعتراف میں اسے کافر نہیں کہا جائے گا؟
بلا شبہ کہا جائے کیوں نہیں کہا جائے گا میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں نہ کہ جو کافر ہو اس کو کافر ہی کہو مرتد نہیں جو جو اسلامی اصطلاحات ہیں انکا ٹھیک ٹھیک استعمال کرو ۔
شیخ صالح المنجد نے "ارتداد" کی تعریف ہی یوں کی ہے کہ : مسلمان كا قول صريح كےساتھ كفر كرنا، يا كوئی ايسا لفظ بولنا جوكفر كا متقاضی ہو، يا پھر كوئی ايسا فعل سرانجام دينا جوكفر كواپنے ضمن ميں ليے ہوئے ہو۔
غور کیجئے کہ آپ نے قادیانی کو "کافر" اس دلیل پر کہا ہے کہ :
امت کا متفقہ فیصلہ قادیانیوں کو کافر قرار دینے پر ہے
اور میں نے (عاقل ، بالغ ، بااختیار) قادیانیوں کو "مرتد" شیخ صالح منجد کی تعریفِ ارتداد کی روشنی میں اس لیے کہا ہے کہ وہ خود کو "مسلمان" کہتے اور جتلاتے ہیں۔
اگر وہ خود کو صرف "قادیانی" کہہ لیا کریں تو ہم میں سے کوئی بھی انہیں مرتد نہیں کہے گا بلکہ آپ کی طرح صرف "کافر" کہہ دینا کافی سمجھ لیا جائے گا۔
آپکی پیش کردہ شیخ صالح کی تعریف ارتداد ہرگز ہمارے معارض نہیں بلکہ وہ بھی وہی کہہ رہے ہیں جو میں کہہ رہا ہوں یعنی ۔ ۔ ۔
مسلمان كا قول صريح كےساتھ كفر كرنا، يا كوئی ايسا لفظ بولنا جوكفر كا متقاضی ہو، يا پھر كوئی ايسا فعل سرانجام دينا جوكفر كواپنے ضمن ميں ليے ہوئے ہو۔ گویا ارتداد کے لیے پہلے
اسلام کا ہونا شرط ہے یعنی
مسلمان کا کسی قول صریح کے ساتھ کفر کرنا ارتداد کہلاتا ہے نہ کہ اس شخص کا کلمہ کفر ارتداد کہلاتا ہے جو کہ سرے سے مسلمان ہی نہ ہو ۔باقی رہا قادیانیوں کا خود کو مسلمان کہلانا تو بڑے شوق سے وہ خود کو مسلمان کہلواتے رہیں لیکن حقیقت میں وہ کبھی بھی مسلمان نہیں ہوسکتے اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں لہذا آپکا یہ عذر لنگ اس وقت کار آمد ہوگا جب تمام امت مسلمہ کے نزدیک قادیانی مسلمان قرار پائین یا پھر کم از کم آپ ہی انھیں مسلمان سمجھتے ہوں ؟
آپ جیسے محترم دوستوں کے ایسے ہی بچکانہ قیاسات کے سبب مخالفین کو "غیر شرعی" اور بےتکے قیاسی گھوڑوں کا مذاق اڑانے کی ہمت ہوتی ہے اور محترمہ مہوش علی کو غور کرنا چاہئے کہ کون قیاسِ شرعی کی حمایت کرتا ہے اور کون بےتکے قیاسی گھوڑوں پر سواری کرتا ہے؟
جو حقیقت ہے اس پر بات کیجئے محترم ، جو بات نہ کل ممکن تھی اور نہ کل ممکن ہے (کوئی کافر یا مشرک یا عیسائی بھی اگر یہی دعوٰی کرنے لگے کہ وہ مسلمان بھی ہے) ۔۔۔ تو ایسے بودے قیاسات پر بحث کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے ، معذرت چاہوں گا۔
اول تو میں معذرت چاہوں گا کہ مجھ سے بھول ہوگئی کہ مجھے یہ یاد ہی نہیں رہا کہ میں محترم باذوق صاحب سے محو کلام ہوں کہ جن کو ہر بات بچوں کی طرح سمجھانا پڑھتی ہے میرے بھائی یہ قیاس نہیں تھا بلکہ ہماری طرفسے ایک الزامی سوال تھا آپکی اس بات کے مقابلے میں جو کہ آپ نے یہ کہہ کر فرمائی تھی کہ قادیانی خود کو مسلمان کہلواتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار بھی کرتے ہیں لہذا وہ مرتد ثابت ہوئے تو ہم نے الزاما عرض کیا تھا کہ کسی کہ خود کو مسلمان کہلوانے سے کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا جب تک کہ کوئی تمام ضروریات دین پر صدق دل سے ایمان نہ لے آئے لہذا کل کلاں کو کوئی اور مذہب والا بھی اگر مسلمان ہونے کا دعوٰی شروع کردے تو آپ صرف اس کے دعوے پر ایمان نہیں لے آئے گے جب تک کہ وہ تمام مسلمات دین کا اقرار نہ کرلے ۔ ۔ ۔