مجاہد ایک ہی بار پوسٹ کافی تھی، یہ بار بار پوسٹ کرکے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہو؟
بحث جس نقطے پر شروع ہوئی تھی اُس کو تو ہیر نے یہ کہہ کر ختم کردیا کے" جب اقلیت کو تحفظ دینا ریاست کی ذمداری ہے تو جب کالج کے انتظامیہ نے یہ ایکشن لیا تب ریاستی مشنری کہاں گئی یعنی جب ریاست اس موضوع پر چپ سادھے بیٹھی ہے تو ہماری اور آپ کی اس موضوع پر بحث لاحاصل ہی رہے گی"
ہیر
بہن ہمارا یہ ہی تو المیہ ہے کہ ہم دوسروں پر کوشش میں اپنی توانائیاں خرچ کررہے ہیں آپ کا اب تک کا سارا زور تنقید پر ہے اصلاح کی بات ابھی تک آپ نے بھی نہیں کی جبکہ ایڈمن خود یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اقلیت کو تحفظ ریاست دے گی تو کیا جس کالج میں یہ ایکشن لیا گیا ہے وہ ریاست کی حدود سے باہر ہے ؟۔ غیر منطقی تنقید اور چھلاوؤں والی زندگی صرف کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔ اور آخر میں ایک نصیحت کہ بہترین کلام وہی ہے جس میں الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوں۔
خوش رہیئے۔
بھائی جی، کیا قادیانی حضرات کو روکنے کا طریقہ صرف یہ رہ گیا ہے کہ سارا چارج جمیعت کے غنڈوں اور تمام دیگر مسلح انتہا پسندوں کو دے دیا جائے کہ وہ دوسروں کے مقدس سربراہوں کے نفرت انگیز پوسٹر اور کارٹونز بنا کر یونیورسٹیوں میں لگائیں، اور جمیعت کے غنڈے انہیں کمروں سے نکال کر اغوا کریں، انکے کمروں کی تلاشی کرتے پھریں اور جب وہ احتجاج کریں تو کالج کے پرنسپل انہی مظلوموں کو کالج سے بغیر کوئی وجہ بتائے اور بات سنے نکال باہر کرے؟؟؟
کیا یہی آپ کا اسلام ہے؟
اگر قادیانی حضرات کو روکنے کا یہی طریقہ ہے تو پھر تبلیغ کس شے کا نام ہے؟
/////////////////////////////////////
جی ہاں،
طالبان جاہل نہیں بلکہ بہت پڑھے لکھے روشن خیال ہیں جن انہوں نے لڑکیوں کے سکولوں میں جانے پر پابندی عائد کر کے انہیں جاہل رکھنے کی کوشش کی۔ پھر مزید روشن خیالی دیکھنے میں آئی جب طالبان نے لڑکیوں کے کالجوں پر بم حملے کرنے شروع کر دیے اور ہر کالج جانے والی لڑکی کے گھر والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔
جی ہاں، یہ طالبان جاہل نہیں بلکہ بہت روشن خیال ہیں جو انہوں نے ہر بدھا کے مجسمنے اپنی خود ساختہ توحید کے نام پر گرانے شروع کر دیے۔
جی ہاں، یہ طالبان جاہل نہیں بلکہ بہت روشن خیال ہیں جو انہوں نے ہندووں اور سکھوں کو مجبور کر دیا کہ وہ زرد رنگ کے کپڑے پہنیں تاکہ دور سے پہچانیں جائیں۔
جی ہاں، یہ طالبان جاہل نہیں بلکہ بہت روشن خیال ہیں کہ جب انہوں نے کابل پر قبضہ کیا تو ببرک کارمل کو قتل کر کے اس کی لاش کو برہنہ کیا [اور بھی لاش کے ساتھ وہ کچھ کیا جو میں بیان نہیں کر سکتی] اور پھر اس برہنہ لاش کو تین دن اور تین راتوں تک کابل کے بڑے چوک میں لٹکائے رکھا۔
جی ہاں، آپ ان جاہل نہیں بلکہ روشن خیال طالبان کی اور کتنی روشن خیالیاں سنیں گے؟
اور جو مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ گریبان میں نہیں دیکھا اور دوسروں کی اگلی ہوئی غلاظت استعمال کر رہی ہوں اور صحت خراب کر لوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو باذوق صاحب، مجھے ڈر ہے کہ آپ اور طالبان کے حمایتی سعودیہ جیسے معتنبر طبقے [طالبان بنانے کے لیے پیسہ استعمال کرنے کے بعد] اب اپنے گریبان میں جھانکنے کے قابل نہیں ہیں کہ انہیں سب سے پہلے اپنے جسم کے اندر طالبان جیسی غلاظت نظر آ سکے کہ جسے انہوں نے اپنے جسم سے نہ نگلا تو یہ انکی صحت کے لیے بہت مضر ہو گا اور بہت جلد یہ غلاظت بیماری سے ناسور بن جائے گا۔ فیصلہ اب ان اپنے آپ کو معتبر کہلوائے جانے والے طالبان کے حمایتی طبقوں کو کرنا ہے کہ وہ طالبان جیسی غلاظت کو اپنے جسم میں ہی رکھنا چاہتے ہیں یا آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ طالبان نے اسلام کے نام کو کتنا بدنام کیا ہے اور اسلام کے نام پر کیسے بربریت پھیلائی ہے۔
اور سعودیہ کا طرز عمل تو منافقانہ ہو جائے گا جب وہ ایک طرف طالبان کی تو پاکستان میں حمایت کرے، مگر دوسری طرف القاعدہ کو سعودیہ میں دہشت گرد غدار و باغی قرار دے کر ان کا قتل عام کرتا رہے۔
چند روز قبل اس واقعے کے حوالے سے ہمارے دفتر میں گفتگو چھڑ گئی، ایک انتہائی موقر روزنامے کے معروف کالم نگار ہمارے ساتھ ہی ہوتے ہیں جو انسانی حقوق کے بڑے علمبردار اور ملائیت کے سخت ترین مخالفین میں سے ایک ہیں۔ مجھے امید تھی کہ ابھی یہ صلواتیں سنانا شروع ہو جائیں گے، ذکر بہرحال میں نے چھیڑا تو انہوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔ کہا کہ ایک مرتبہ میں ربوہ (چناب نگر) گیا تو وہاں بار کونسل ربوہ کے صدر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ قادیانیوں کے حقوق کو جس طرح پاکستان میں پامال کیا جا رہا ہے وہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے آپ اس کا حل کس صورت میں دیکھتے ہیں؟ تو بار کونسل کے صدر (جو خود بھی قادیانی تھے) نے جواب دیا کہ سب باتوں کو چھوڑیں ہماری نظر میں تو ایک ہی حل ہے کہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ کالم نگار صاحب تو ہکا بکا رہ گئے اور دریافت فرمایا کہ حضرت اس کا کیا مطلب؟ کہنے لگے کہ یعنی کہ ہمارا مذہب اختیار کر لو کیونکہ یہی اصل اسلام ہے۔ کالم نگار صاحب نے جواب دیا کہ محترم! دیکھ لیا کہ آپ میں اور ملاؤں میں کوئی فرق نہيں، ہمدردی جتانے کا صلہ بہت خوب دیا آپ نے، آئندہ کے لیے مجھے سبق حاصل ہو گیا کہ جیسے کو تیسا والا معاملہ ہے، جیسا وہ مولوی مخالف ہے ویسا ہی سامنے والا قادیانی۔
آپ لوگ اس بحث میں پڑے رہئے کہ کون کیا ہے جبکہ میں اس قصے کو خرید نہیں سکتا کہ ان قادیانیوں نےاس کالج میں اپنے دین کی تبلیغ کی ہوگی کیونکہ ہمارے جذبات کو وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور میرے خیال میں اس بات کے پیچھے کوئی اور اصل بات ہے جسے مذھبی رنگ دیا گیا ہے ۔ باقی اللہ تعالی کی ذات بہتر جانتی ہے۔
بی بی ایسا ہی ہوتا ہے جب بلاوجہ ایک غیرضروری موضوع کو پھونکیں مار کر چنگاری لگانے کی کوشش کی جائے دیکھئے مملک خداداد میں اور بھی دوسرے مسائل ہیں جن پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جیسا کے منتظم اعلٰی صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ یہ اقلیت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر اس لیپا پوتی کو احتجاج بنا کر کیوں پیش کیا جارہا ہے اگر بات احتجاج ہی کی ہے تو کچھ سال پہلے کراچی نیپا چورنگی کے قریب جو کے ایف سی کی برانچ تھی اُس میں وہاں پر ملازمت کرنے والے تین یا چار نوجوانوں کو زندہ جلادیا گیا تھا اس وقت آپ کے قلم سے اس طرح کا احتجاج بپا کیوں نہیں ہوا ؟۔ جاننے کی جسارت کر سکتا ہوں۔ لال مسجد میں فاسفورس بم پھینکے گئے آپ کے قلم سے کسی بھی قسم کی لیپا پوتی نظر نہیں آئی دیکھئے بی بی اپنے مزاج کی چَڑچڑاہت کو آپ اگر دوسروں پر احتجاج بنا کر مسلط کرنے کی غیر ضروری کوشش کریں گی تو نتیجہ اس طرح کی فضول اور وقت ضائع کی جانے والی بحث ہی نکلے گا اور ہر ممبر اپنے کتہا لے کر بیٹھ جائے گا۔ اس لئے میں چاہوں گا کہ تحریر شکریہ کی ٹوکری بھرنے کی بجائے مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانے پر لکھی جائے تو اس میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہوگی ورنہ جیسا کے آپ دیکھ سکتی ہیں ہر کوئی ایک ہی بانسری لے کر اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔میں تو اکثر جگہ چپ رہنے کی کوشش کرتی ہوں، مگر جب ان انتہا پسند طلباء کی انسانیت سوز جرائم کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے اس پر لیپا پوتی کرنے کے لیے ایسے لنگڑے عذز پیش کرتے ہیں تو آپ لوگوں کی ذہنیت پر خدا جانتا ہے بہت افسوس ہوتا ہے اور آپ مجھے ان کے ان جرائم میں برابر کے شریک اور سپورٹر نظر آتے ہیں۔
بی بی ایسا ہی ہوتا ہے جب بلاوجہ ایک غیرضروری موضوع کو پھونکیں مار کر چنگاری لگانے کی کوشش کی جائے دیکھئے مملک خداداد میں اور بھی دوسرے مسائل ہیں جن پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جیسا کے منتظم اعلٰی صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ یہ اقلیت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر اس لیپا پوتی کو احتجاج بنا کر کیوں پیش کیا جارہا ہے اگر بات احتجاج ہی کی ہے تو کچھ سال پہلے کراچی نیپا چورنگی کے قریب جو کے ایف سی کی برانچ تھی اُس میں وہاں پر ملازمت کرنے والے تین یا چار نوجوانوں کو زندہ جلادیا گیا تھا اس وقت آپ کے قلم سے اس طرح کا احتجاج بپا کیوں نہیں ہوا ؟۔ جاننے کی جسارت کر سکتا ہوں۔ لال مسجد میں فاسفورس بم پھینکے گئے آپ کے قلم سے کسی بھی قسم کی لیپا پوتی نظر نہیں آئی دیکھئے بی بی اپنے مزاج کی چَڑچڑاہت کو آپ اگر دوسروں پر احتجاج بنا کر مسلط کرنے کی غیر ضروری کوشش کریں گی تو نتیجہ اس طرح کی فضول اور وقت ضائع کی جانے والی بحث ہی نکلے گا اور ہر ممبر اپنے کتہا لے کر بیٹھ جائے گا۔ اس لئے میں چاہوں گا کہ تحریر شکریہ کی ٹوکری بھرنے کی بجائے مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانے پر لکھی جائے تو اس میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہوگی ورنہ جیسا کے آپ دیکھ سکتی ہیں ہر کوئی ایک ہی بانسری لے کر اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔
وسلام۔
آپ کی بات اس حد تک درست ہے کہ ہم اپنی مرضی کے موضوعات کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا بھی درست نہیں ہے کہ دوسرے اہم معاملات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ یہی منطق اگر ہندوستان میں لاگو کی جائے تو کیا بابری مسجد کے انہدام اور گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلانے کے واقعات کو بھی بھلا دیا جانا چاہیے؟ ریاست کی ذمہ داری ایک طرف ہے، لیکن معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو صرف ریاست کی کسی ذمہ داری کی آڑ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مہوش نے کچھ تلخ الفاظ ضرور استعمال کیے ہونگے لیکن انہوں نے درست مسئلے کی جانب نشاندہی کی ہے۔ اور مجھے اس کا رد عمل دیکھ کر نہایت افسوس ہوا ہے۔ مذہبی غیرت کی آڑ میں ہر جگہ نفرت کا پرچار ہو رہا ہے۔بی بی ایسا ہی ہوتا ہے جب بلاوجہ ایک غیرضروری موضوع کو پھونکیں مار کر چنگاری لگانے کی کوشش کی جائے دیکھئے مملک خداداد میں اور بھی دوسرے مسائل ہیں جن پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے جیسا کے منتظم اعلٰی صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ یہ اقلیت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے تو پھر اس لیپا پوتی کو احتجاج بنا کر کیوں پیش کیا جارہا ہے اگر بات احتجاج ہی کی ہے تو کچھ سال پہلے کراچی نیپا چورنگی کے قریب جو کے ایف سی کی برانچ تھی اُس میں وہاں پر ملازمت کرنے والے تین یا چار نوجوانوں کو زندہ جلادیا گیا تھا اس وقت آپ کے قلم سے اس طرح کا احتجاج بپا کیوں نہیں ہوا ؟۔ جاننے کی جسارت کر سکتا ہوں۔ لال مسجد میں فاسفورس بم پھینکے گئے آپ کے قلم سے کسی بھی قسم کی لیپا پوتی نظر نہیں آئی دیکھئے بی بی اپنے مزاج کی چَڑچڑاہت کو آپ اگر دوسروں پر احتجاج بنا کر مسلط کرنے کی غیر ضروری کوشش کریں گی تو نتیجہ اس طرح کی فضول اور وقت ضائع کی جانے والی بحث ہی نکلے گا اور ہر ممبر اپنے کتہا لے کر بیٹھ جائے گا۔ اس لئے میں چاہوں گا کہ تحریر شکریہ کی ٹوکری بھرنے کی بجائے مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانے پر لکھی جائے تو اس میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہوگی ورنہ جیسا کے آپ دیکھ سکتی ہیں ہر کوئی ایک ہی بانسری لے کر اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔
وسلام۔
دوسروں کی تنگ ذہنی پر چلانے کے بجائے کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئے کہ وہی "تنگ نظری" خود ہم سے بھی نادانستگی میں سرزد تو نہیں ہوئی جا رہی؟؟
طالبان (یا طالبانیت) کو "جاہل یا جہالت" کی ڈگری عنایت کرنا "وسیع الذہن" مغرب کی تنگ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے !
ورنہ امت مسلمہ کے کسی معتبر طبقے نے طالبان کو کبھی "جاہل" کے خطاب سے سرفراز نہیں فرمایا ، ہاں ان کے بعض نظریات سے اختلاف ضرور رہا ہے۔
اب اگر نظریاتی اختلاف آدمی کو "جاہل" بنا سکتا ہے تو غالباً ساری دنیا کے مختلف الخیال دانشور اور اقوام دنیا کے سب سے بڑے جاہل ہیں !!
اور اگر مختلف الخیال دانشوران/اقوام کو "جاہل" کہنے میں ہمیں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے تو ادباَ گذارش ہے کہ غیروں کے منہ سے اگلی ہوئی غلاظت کو بھی استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ! یہ ہماری اپنی صحت کے لئے بھی بہتر ہے !!