توڑ کر حلقۂ زنجیرِ گماں بولیں گے
اب یہ دیوانے سرِ بزمِ بتاں بولیں گے
تم سخن فہم ہو سمجھو گے ہمارے دکھ کو
ہم یہاں بھی نہیں بولے تو کہاں بولیں گے!
پیشِ جابر نہ ہو سر خم نہ زباں ہو خاموش
مانند قافلۂ تشنہ لباں بولیں گے
اے ستم گر تری بیداد گری کا قصہ
ہم اگر چپ بھی رہیں اشکِ رواں بولیں گے
ہے یہی...