ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں نمی ہے
ہم پر دمِ رخصت یہ عنایت بھی بڑی ہے
تم چاہو تو الفت سے گرا سکتے ہو اسکو
یہ ترکِ تعلق کی جو دیوار کھڑی ہے
کیا پوچھتے ہو شہرِ ستم گار کے حالات؟
ہر شے میں تفاوت ہے ہر دل میں کجی ہے
وہ پھول بھی ہو جائیں گے کیا نذر خزاں کی!
جن پھولوں پہ شبنم تری زلفوں کی پڑی ہے...