نتائج تلاش

  1. نوید صادق

    پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں ۔۔۔۔۔ نوید صادق

    آصف! یادیں۔ واقعی!! آپ کی اس بات سے مجھے بھی بہت کچھ یاد آ گیا۔ اس زمین میں ملتان میں طرحی مشاعرہ ہوا تھا۔ غالبا’’ مسکین حجازی مرحوم کی یاد میں وہ اگر پرسشِ احوال کو آنے لگ جائیں بے بسی ، ہم ترا تہوار منانے لگ جائیں (مسکین حجازی) کیا کیا غزلیں سامنے آئی تھیں۔ لیکن میرے لئے یہ مسئلہ کبھی...
  2. نوید صادق

    پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں ۔۔۔۔۔ نوید صادق

    غزل پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں تیری تکریم بھی لازم ہے شبِ اوجِ وصال پر یہ ڈر ہے کہ یہ لمحے نہ ٹھکانے لگ جائیں کچھ نمو کے بھی تقاضے ہیں سرِ کشتِ خیال ورنہ ہم لوگ تو بس خاک اُڑانے لگ جائیں ایک لمحے کی ملاقات کے خاموش سفر! ان کہے...
  3. نوید صادق

    آج کا شعر - 3

    سہولت آئے گی دشوار سے گزرتے ہوئے میں در بناؤں گا دیوار سے گزرتے ہوئے شاعر: ظفر اقبال
  4. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    اعجاز بھائی۔ احمد مشتاق کی کلیات کی اشاعت الہ آباد سے شمس الرحمٰن فاروقی نی کی تھی۔ 90 کی دہائی میں ناصر کاظمی کے بیٹے نے بھی اس کو شائع کیا تھا۔ اب دونوں نسخے ناپید ہیں۔
  5. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    آصف! میں نے یہ غزلیں الگ سے بھی پوسٹ کر دیں ہیں۔ انتخاب بھی آئے گا۔ لیکن یہاں ایک مشکل ہے کہ احمد مشتاق کا کلیات ایک انتخاب ہی تو ہے۔ ویسے میں کسی دن فون پر ان سے بات کروں گا۔ اگر انہوں نے اجازت دے دی تو پورا کلیات ہی اپلوڈ کر دیں گے۔
  6. نوید صادق

    احمد مشتاق کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    غزل کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے عجب کیا وہ تو آئیں، ہم نہ آئیں ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی صدا آتی ہے ان کو بھول جائیں بس اب لے دے کے ہے ترکِ تعلق یہ نسخہ بھی کوئی دن...
  7. نوید صادق

    احمد مشتاق یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں ۔۔ احمد مشتاق

    غزل یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں...
  8. نوید صادق

    احمد مشتاق نکلے تھے کسی مکان سے ہم ۔۔ احمد مشتاق

    غزل نکلے تھے کسی مکان سے ہم روٹھے رہے اک جہان سے ہم بدنامیاں دل سے آنکھ تک تھیں رسوا نہ ہوئے زبان سے ہم ہے تنگ جہانِ بود و نابود اترے ہیں کسی آسمان سے ہم پھولوں میں بکھر گئے تھے رستے گزرے نہیں درمیان سے ہم جو شان تھی ملتے وقت مشتاق بچھڑے اسی آن بان سے ہم شاعر: احمد مشتاق
  9. نوید صادق

    احمد مشتاق چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    غزل چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدر نکلے شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل صبح دم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے دھوپ ساون کی بہت تیز ہے دل ڈرتا ے اس سے کہہ دو کہ ابھی گھر سے...
  10. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    اعجا بھائی۔ میں آج کل ماہنامہ بیاض کے لئے احمد مشتاق پر کام کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ بیاض میں اشاعت کے بعدیہاں بھی اپلوڈ کروں گا۔
  11. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    وارث بھائی شکریہ۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اس طرح پیش کردہ غزلوں پر تھوڑی بہت گفتگو بھی کر لیا کریں۔ شاعر کااس غزل میں رجحان، وغیرہ وغیرہ
  12. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    غزل کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے عجب کیا وہ تو آئیں، ہم نہ آئیں ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی صدا آتی ہے ان کو بھول جائیں بس اب لے دے کے ہے ترکِ تعلق یہ نسخہ بھی کوئی دن...
  13. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    غزل یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں...
  14. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    غزل نکلے تھے کسی مکان سے ہم روٹھے رہے اک جہان سے ہم بدنامیاں دل سے آنکھ تک تھیں رسوا نہ ہوئے زبان سے ہم ہے تنگ جہانِ بود و نابود اترے ہیں کسی آسمان سے ہم پھولوں میں بکھر گئے تھے رستے گزرے نہیں درمیان سے ہم جو شان تھی ملتے وقت مشتاق بچھڑے اسی آن بان سے ہم شاعر: احمد مشتاق
  15. نوید صادق

    احمد مشتاق دل میں شور برابرہے ۔۔۔۔ احمد مشتاق

    غزل دل میں شور برابر ہے کون اس گھر کے اندرہے عشق میں کوئی وقت نہیں دن اور رات برابر ہے دل پر کوئ بوجھ نہیں یعنی آپ ہی پتھر ہے باہر خوب ہنسو، بولو رونے دھونے کو گھر ہے دکھ کی مسلیں چار طرف دل بھی میرا دفتر ہے ترکِ عشق سے جی کا حال پہلے سے کچھ بہتر ہے ختم ہوا سب کاروبار...
  16. نوید صادق

    سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں

    وقت کا زیاں۔ اتنی دیر میں میں کوئی اچھی سی غزل کیوں نہ پڑھ لوں۔ یا اپلوڈ کر دوں۔
  17. نوید صادق

    سہ روزہ ہذیان ۔ ڈفر اقبال

    مرا خیال ہے اب ان دونوں سلسلوں کو بند کر دیں۔
  18. نوید صادق

    سہ روزہ ہذیان ۔ ڈفر اقبال

    ہا ہا ہا ہا!!! اچھی بات ہے۔ لیکن وقت کا زیاں۔
  19. نوید صادق

    سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں

    کسی نے کیا خوب کہا ہے "اپنی اپنی پسند ہوتی ہے اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے"" مجھے نہیں معلوم کہ کون مجھ سے بڑا ہے اور کون مجھ سے چھوٹا۔ لیکن یہ غزل اس غالب کی تو نہیں جسے ہم جانتے ہیں۔ ادھر کسی دیہات میں کوئی غالبِ ثانی پیدا ہو گیا ہو تو کیا کہنے ہیں۔ لیکن سوزنِ جنجال جیسی بیہودہ ترکیب کسی...
Top