نتائج تلاش

  1. نوید ناظم

    کام مشکل ہے مگر کر دیجئے (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

    کام مشکل ہے مگر کر دیجئے دشت زادوں کو ذرا گھر دیجئے لطف سجدوں کو ملے گا دیکھنا اس جبیں کو بس کوئی در دیجئے بے وفا کوئی کہے کیوں آپ کو اب یہ تہمت مجھ پہ ہی دھر دیجئے آنکھ اشکوں سے تو بھر دی ہے مِری زخمِ دل کو بھی کبھی بھر دیجئے صرف دل سے کام چلتا ہی نہیں عشق ہے نا آپ کو؟ سر دیجئے!
  2. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    بیان کرنے والے اتنا کچھ بیان کر گئے ہیں کہ "نیا" تو مشکل ہے، غالب سے بڑا شعر کہنے کا دعویٰ کون کرے گا، اب۔۔۔ جو کہے میں شیکسپئر سے بڑا ڈرامہ لکھ سکتا ہوں تو میرا خیال ہے اس کے لیے مشکل ہو جائے گی، انسان بڑا فلاسفر بھی بن جائے تو سقراط پھر بھی نہیں بنے گا۔ پھر موضوعات بھی وہی ہیں، انسان، غم،...
  3. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    ماضی اور مستقبل پر مباحثے کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ انسان اپنے آپ کی، بلکہ اپنے اندر کی بات کرے، علم برائے علم اور بحث برائے بحث سے کیا حاصل-
  4. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    آپ سکون باہر سے خرید کر نہیں لا سکتے، یہ آپ کے اندر دریافت کرنے والی چیز ہے!
  5. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    1۔ درست، آج کے دور میں غنیمت ہے کہ اگر خدا سے کوئی ضرورت کے تحت ہی رشتہ استوار کر لے، ہمارے گرو کہتے ہیں کہ آج کل ایسا انسان جو ریا کاری کی نیکی کر رہا اُسے بھی رعایت دیا کرو، کم از کم نیک تو مشہور ہونا چاہا رہا ہے۔ 2۔"تحاریر" مطلب آپ اور تحریریں بھی دیکھ چکیں، آپ کا تبصرہ کبھی آیا نہیں سوائے اس...
  6. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    1۔ ضرورت کا رشتہ بُرا نہیں، بجا ہے۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ اگر ضرورت پوری ہو گئی، یا ضرورت پوری نہ ہو سکی، تو دونوں صورتوں میں یہ رشتہ انسان کی طرف سے کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ کشتی ڈوب رہی ہو تو خدا خود بخود یاد آ جاتا ہے، کنارے پر پہنچنے کے بعد وہی تعلق بحال رکھنا اور بات ہے۔۔۔۔ اور یہ بڑی مشکل...
  7. نوید ناظم

    ضرورتوں میں بندھے ہم

    بچہ جب ماں کو پکارتا ہے تو اصل میں وہ غذا کو پکارتا ہے، بچہ ماں کے لیے روتا ہے مگر درِ پردہ تو بھوک ہے جو غذا کے لیے رو رہی ہے۔ بچہ چیختا ہے مگر بچہ خاموش ہے، یہ اس کی ضرورت ہے جو چیخ رہی ہے۔ اسی طرح ہم اللہ کو پکارتے ہیں مگر وہ پکار' ضرورت کی پکار ہوتی ہے۔ اللہ والے اللہ کو ضرورتوں سے آزاد ہو...
  8. نوید ناظم

    ساڈے موتیاں ورگے ہنجو

    مہربانی!
  9. نوید ناظم

    ساڈے موتیاں ورگے ہنجو

    جی بہت شکریہ!!
  10. نوید ناظم

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    بہت شکریہ سر۔ زیرِ بحث مصرع کو زرگر صاحب کے دیے گئے متبادل سے بدل دیا۔ اور جس شعر کا بیانیہ آپ کو پسند نہیں آیا اُسے حذف کر دیا ہے۔
  11. نوید ناظم

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    سر الف عین اس شعر کے دوسرے مصرعہ کے انتخاب میں آپ کا حکم درکار ہے۔۔۔ کون سا مناسب ہو گا؟ خوش نہ ہونے کی جس نے قسم کھائی ہو دوست ! اُس دل سے کیسےنبھائے کوئی خوش نہ ہونے کی جس نے قسم کھائی ہو تو پھر اُس دل سے کیسے نبھائے کوئی
  12. نوید ناظم

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    یہ آپ کی محبت۔۔۔ '' دوست'' کے معاملہ میں تردد رہا تھا ویسے، چلیں دوسرا مصرعہ بھی استادِ محترم کے سامنے رکھ دیتے ہیں، جو وہ سلیکٹ کریں پھر۔۔۔
  13. نوید ناظم

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    محترم سر الف عین دیگر اساتذہءِ کرام
  14. نوید ناظم

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

    ناؤ کو ڈوبنے سے بچائے کوئی ناخدا تو گیا اور آئے کوئی خوب! کہتا ہے صیاد پر کاٹ کر یہ پرندہ رِہا ہے اڑائے کوئی دیکھنے کو تماشا تو آئیں گے وہ آگ میرے بھی گھر کو لگائے کوئی خوش نہ ہونے کی جس نے قسم کھائی ہو دوست ! اُس دل سے کیسےنبھائے کوئی تم بتاؤ بھلا یہ کوئی بات ہے دل اگر مانگ لیں، روٹھ جائے...
  15. نوید ناظم

    ساڈے موتیاں ورگے ہنجو

    داد دین لئی تہاڈا شکریہ!
  16. نوید ناظم

    ساڈے موتیاں ورگے ہنجو

    بڑی عنایت جی!
Top