بارِ دگر توجہ فرمائیے گا استادِ محترم
روبرو یوں ہی جو بیٹھا وہ سِتم کوش رہے
کون کم بخت نہ اس حال میں مدہوش رہے
بند ہوتے ہیں تو ہوجائیں سبھی زیست کے در
آپ کا ہم پہ کُھلا حجلہِ آغوش رہے
وائے قسمت کہ غمِ ہجر سے فرصت نہ ملی
وصل کے لمحے سدا ہم سے ہیں روپوش رہے
زندگی بیت گئی اُن سے وفائیں کرتے...