تم کو تو صرف سیہ رات سے ڈر لگتا ہے
ایک میں ہوں جسے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
شہر میں جاتے ہوئے ڈرتا ہوں اب تک ایسے
جیسے ویرانے میں جنات سے ڈر لگتا ہے
سانس کی آنچ سے مجھ کو گلِ حکمت کر دے
کوزہ گر! اب مجھے برسات سے ڈر لگتا ہے
بات ادھوری ہو تو مفہوم بدل جاتے ہیں
تنگئی وقتِ ملاقات سےڈر لگتا ہے
میرا بیٹا...