حال اپنا کبھی اس سے زبانی نہ کہا کر
لفظوں کے سہارے یہ کہانی نہ کہا کر
تجھ کو تو خبر ہے مرے احوالِ ہنر کی
توُ تو مری غزلوں کو پرانی نہ کہا کر
جب پیاس کا صحرا تجھے صحرا نہیں لگتا
پھر آنکھ کے پانی کو بھی پانی نہ کہا کر
یہ خانہ بدوشی مری قسمت میں لکھی ہے
ہجرت کو مری نقل مکانی نہ کہا کر
لوگ آگ لگا...