نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید
کہ جن کے ذکر سے اب دل تازیانہ لگے
تری طلب میں وہ داروسن کے ہنگامے
کہ جن کی بات کریں تو اب فسانہ لگے
بقدرِذوق جلاتے رہے لہو کے چراغ
کہ جب تُو آئےتو یہ گھر نگارخانہ لگے
اِسی خیال سے ہر زخم اپنے دل پہ سہا
کہ تجھ کو گردشِ ایام کی ہوا نہ لگے
مگر جو گزری ہے ہم...