غزل
بُوئے گُل جس سے کل تک مہکتا تھا دِل، آج اچانک لگے اجنبی اجنبی
ہر وہ شے جس کو اپنا سمجھتا تھا دِل، آج اچانک لگے اجنبی اجنبی
کوئی سمجھائے مجھ کو ہے کیا ماجرا، میری حسِ لطافت کو کیا ہو گیا
ہر حَسِیں شے کہ جس سے بہلتا تھا دِل آج اچانک لگے اجنبی اجنبی
جن کی خوشیوں میں شامِل رہا مَیں سدا، جو...
غزل
کشِش جو ہوتی نہاں حرف ِاعتبار میں ہے
اُسےسمجھنا بَھلا کِس کے اِختیار میں ہے
دلِ و دماغ معطّر تو کرگئی، لیکن!
بَلا کا درد چُھپا مشکِ خوشگوار میں ہے
یہ راز کب سے نہاں ہے، سمجھ نہ آیا کبھی
عجب قرار و سُکوں چشمِ انتظا ر میں ہے
بھٹکتی ،سر کو پٹختی ہُوئی صَدائے غم
بتاؤں کیسے، کہ وہ بھی مِرے...
غزل
سُورج مکھی کے گالوں پہ تازہ گُلاب ہے
یہ میرا آفتاب، مِرا ماہتاب ہے
ہر تارہ، کپکپاتے ہُوئے ہونٹوں کی دُعا
یہ آسمان، حمد و ثنا کی کِتاب ہے
بادل ہَوا کی زد پہ بَرَس کے بِکھر گئے
اپنی جگہ چمکتا ہُوا آفتاب ہے
چَونکے تو، یہ طلِسمِ جہاں ٹُوٹ جائے گا !
عالَم تمام حلقۂ زنجیرِ خواب ہے
ناحق خیال...
شِکایت کیوں اِسے کہتے ہو ، یہ فِطرت ہے اِنساں کی !
مُصیبت میں، خیالِ عیشِ رفتہ آ ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گُل، مگر کیا زورِ فِطرت ہے !
سحر ہوتے ہی، کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے
شبیر حسن خاں جوؔش ملیح آبادی
بارشوں کے بعد ست رنگی دھنک آ جائے گی
کُھل کے رَو لو گے تو چہرے پر چمک آجائے گی
پنکھڑی جتنا بچائے چور جھونکوں سے اُسے
پُھول تو جب بھی کِھلا ، اُس کی مہک آ جائے گی
آج بھی مجھ کو یہ لگتا ہے کہ اگلے موڑ پر !
جس پہ اِک پِیلا مکاں تھا، وہ سڑک آ جائے گی
کچھ نہیں سمجھے گا کوئی، لاکھ تم کوشش کرو!
جب...
وہ کالی آنکھیں شہر میں مشہوُر تھیں بہت !
تب اُن پہ موٹے شیشوں کا چشمہ چڑھا نہ تھا
مَیں صاحبِ غزل تھا حَسِینوں کی بزم میں!
سر پہ گھنیرے بال تھے، ماتھا کُھلا نہ تھا
بشیر بدؔر
حال کے ہاتھوں سے مسُتقبل کا دامن تھام لے
مِل گئی ہے تجھ کو آزادی ، تو اِس سے کام لے
عشرتِ آغاز میں یُوں تو زمانہ ہے شرِیک
کیا کوئی ایسا بھی ہے، جو ذمّۂ انجام لے ؟
ماضئ مرحوُم کی ناکامِیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصتِ باقی سے کوئی کام لے
سیماؔب اکبرآبادی
بھائی !
پہلے خواجہ میر درد کی غزل "دل کِس کی چشمِ مست کا سرشار ہوگیا " لگانا چا ہتا تھا
وہ لگی ہوئی پائی تو اُن کے چھو ٹے بھائی کی لگادی شاید !
اور عنوان بدلنا پوسٹ ہونے سے قبل یاد نہ رہا ۔
پوسٹ ہوگئی تو پھر آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔
تقدیر کا لکھا
:)
غزل
یہ لوگ جِس سے اب اِنکا ر کرنا چاہتے ہیں
وہ گُفتگوُ، دَرو دِیوار کرنا چاہتے ہیں
ہمیں خبر ہے کہ گُزرے گا ایک سیلِ فنا
سو ہم تمھیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں
اور اِس سے پہلے کہ ثابت ہو جُرمِ خاموشی
ہم اپنی رائے کا اِظہار کرنا چاہتے ہیں
یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبّت میں
اب اور کتنا، گُنہگار...
علامہ اقبالؒ
نالہ ہے بُلبُل ِشورِیدہ تِرا خام ابھی
اپنے سینے میں اِسے، اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے، اگر مصلحت اندیش ہو عقل!
عِشق ہو مصلحت اندیش تو ، ہے خام ابھی
بے خطر کوُد پڑا آتشِ نمرُود میں عِشق
عقل ہے محو ِتماشائے لبِ بام ابھی
عِشق فرمُودۂ قاصِد سے سُبک گامِ عَمل
عقل، سمجھی ہی...
غزل
خواجہ محمد مِیر اثؔر دہلوی
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
دِل تجھے اعتبار آتا ہے؟
دوست ہوتا جو وہ، تو کیا ہوتا
دُشمنی پر تو پیار آتا ہے
تیرے کوچے میں بیقرار تِرا
ہر گھڑی بار بار آتا ہے
زیرِ دِیوار تُو سُنے نہ سُنے
نام تیرا پُکار آتا ہے
حال اپنے پہ ،مجھ کو آپ اثؔر!
رحم بے اِختیار آتا ہے
خواجہ...
غزل
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو
دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو!
عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو
پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے...