موج دائرہ بن کر آشنائے مرکز ہے
بن گیا یقیں آخر پھیل کر گُماں اپنا
دَورِ غم ہے لا محدُود ، حدِّ زیست نامعلوُم
کام کیوں نہیں کرتی مرگِ ناگہاں اپنا
سیماؔب اکبر آبادی
غزل
پہنچے تا بہ منزل کیا، سِلسِلہ یہاں اپنا
راستے ہیں سب اُن کے اور کارواں اپنا
کیا کریں کہِیں قائم عارضی نِشاں اپنا
ہے وہی مکاں اپنا، جی لگے جہاں اپنا
بزمِ حُسن میں ہُو گا کون ترجُماں اپنا
دِل پہ کُچھ بھروسا تھا، دِل مگر کہاں اپنا
وقت راہِ منزِل میں ہو نہ رائیگاں اپنا
روز رُخ بدلتا ہے...
وہی وحشت ہے، وہی خار ، وہی وِیرانہ !
دشت کِس بات میں اچھّا مِرے کاشانے سے
دلِ برباد میں آباد ہُوئے عِشق و جنوُن
کوئی بستی نہیں بہتر مِرے وِیرانے سے
داغؔ دہلوی
نِکل کر دیر و کعبہ سے اگر مِلتا نہ مے خانہ !
تو ٹُھکرائے ہُوئے اِنساں خُدا جانے کہاں جاتے
قتؔیل اپنا مُقدّر غم سے بیگانہ اگر ہوتا !
تو پِھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے
قتیلؔ شفائی
غزل
ہَوا تُو کہاں ہے؟ زمانے ہُوئے!
سمندر کے پانی کو ٹھہرے ہُوئے
لہُو سب کا سب ، آنکھ میں آگیا
ہرے پُھول سے جِسم پیلے ہُوئے
جُنوں کا ہراِک نقش مِٹ کر رہا
ہَوَس کے سبھی خواب پُورے ہُوئے
مناظر بہت دُور اور پاس ہیں
مگر آئینے سارے دُھندلے ہُوئے
جہاں جائیے ، ریت کا سِلسِلہ!
جِدھر دیکھیے، شہر...
غزل
وہ مِلے تو بے تکلُّف، نہ مِلے تو بےاِرادہ
نہ طریقِ آشنائی ، نہ رُسوم ِجام و بادہ
تِری نِیم کش نِگاہیں ، تِرا زیر ِلب تبسّم
یُونہی اِک ادائےمستی، یُونہی اِک فریبِ سادہ
وہ کُچھ اِسطرح سےآئے،مُجھےاِسطرح سےدیکھا
مِری آرزو سے کم تر ، مِری تاب سے زیادہ
یہ دلِیل ِخوش دِلی ہے، مِرے واسطے نہیں ہے...
اِک وعدہ اور کر ، کہ طبیعت پھڑک اُٹھے !
اِک تِیر اور ، میرے کلیجے میں مار دے
دُنیا نے بے شمار عدؔم کو دِئے ہیں رنج !
اے دوست! چیز تُو بھی کوئی یادگار دے
عبدالحمید عدؔم
بڑا شور تھا جب سماعت گئی
بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہُوئے
ہنسو آسماں بے اُفق ہوگیا
اندھیرے گھنے اور گہرے ہُوئے
سُنو ، اپنی ہی بازگشتیں سُنو
کرو یاد افسانے بُھولے ہُوئے
چلو جنگلوں کی طرف پِھر چلو
بُلاتے ہیں پِھر لوگ بِچھڑے ہُوئے
شہریاؔر
غزل
پروین فنؔا سید
تُو جِسے زخمِ آشنائی دے!
وہ تڑپتا ہُوا دِکھائی دے
تیری چاہت کے جبرِ پیہم میں!
کب سے زنجِیر ہُوں، رہائی دے
رُوح کے جنگلوں میں کِس کی صَدا
جب بھی سوچُوں، مُجھے سُنائی دے
یا قریب آ، رَگِ گُلوُ کی طرح!
یا پھر اِس کرب سے رہائی دے
اِس ہجُومِ بَلا میں کوئی تو
آتشی کی کِرَن...
جب بھی ملِتے ہیں تو جِینے کی دُعا دیتے ہیں
جانے کِس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں
حادثے، جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے !
حادثے ہی، ہَمَیں جِینا بھی سِکھا دیتے ہیں
رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے
صُبح ہوتے ہی جنھیں لوگ بُجھا دیتے ہیں
:) :) :)