دِیےجو چارہ گروں نے، ہم آزما بھی چُکے
کسی بھی نسخے سے بیتابیاں نہیں جاتیں
ہزارمحفلِ خُوباں میں جا کے دیکھ لِیا
مِلی جو تُجھ سے ہیں تنہائیاں نہیں جاتیں
شفیق خلؔش
غزل
پروین فنؔاسید
کم نِگاہی بھی رَوا تھی شاید
آنکھ پابندِ حیا تھی شاید
سر سے آنچل تو نہ ڈھلکا تھا کبھی
ہاں، بہت تیز ہَوا تھی شاید
ایک بستی کے تھے راہی دونوں
رہ میں دِیوارِ اَنا تھی شاید
ہمسفر تھےتو وہ بچھڑے کیوں تھے
اپنی منزل ہی جُدا تھی شاید
میری آنکھوں میں اگر آنسو تھے!
میرے ہونٹوں پہ...