یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا
پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
پیمانہ دے کے بادہء عنبر شمیم کا
کیا ڈھونڈتی ہے قوم، کہ آنکھوں میں قوم کی
خلدِ بریں ہے طبقہء اسفل جحیم کا
اس شوخِ کج ادا سے نہ آئی موافقت
کیونکر گلہ نہ ہو مجھے طبعِ سلیم کا
شکوے یہ اب...